دنیا بھر کے صحافی اپنی جان خطرے میں ڈال کر کام کرنے پر مجبور

دنیا بھر میں ہر سال 3 مئی کو آزادی صحافت کا عالمی دن منایا جاتا ہے، جس کا اعلان 1993 میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے متفقہ طور پر کیا تھا۔

دنیا بھر میں 1990 سے لیکر اب تک جھوٹ کو بے نقاب کرنے اور سچ کو سامنے لانے کی اپنی کاوشوں کے دوران 2 ہزار 500 سے زائد صحافی اپنی جان کا نذرانہ دے چکے ہیں، جبکہ انہیں نشانہ بنانے کا سلسلہ اب بھی جای ہے۔

حال ہی میں افغانستان میں ایک المناک سانحہ رونما ہوا جہاں علیحدہ علیحدہ واقعات میں 10 میڈیا نمائندے اپنی جان سے چلے گئے۔

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایک بم دھماکے کے بعد اس کی کوریج کے لیے آنے والے 9 صحافی خوکش بمبار کا نشانہ بن گئے جو خود بھی صحفیوں کے بھیس بدل کر وہاں پہنچا تھا۔

واقعے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کرلی تھی جس میں رپورٹرز، کیمرہ مین، اور فوٹو گرافر سمیت کئی صحافی زخمی بھی ہوئے تھے۔

ایک علیحدہ واقعے میں اسی روز افغانستان کے علاقے خوست میں برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے ایک رپورٹ کا قتل کردیا گیا۔

سال 2018 کے ابتدائی 4 ماہ کے دوران اب تک 32 صحافی جاں بحق ہوچکے ہیں، گزشتہ برس 82 صحافی دنیا بھر میں اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران جاں بحق ہوئے تھے، جن میں کراس فائرنگ کے دوران، ٹارگٹ کلنگ، اور اپنے اسائنمنٹ کے دوران مارے جانے کے واقعات شامل ہیں۔

الجزائر، روانڈا اور سابق یوگوسلاویہ میں 1990 کی دہائی میں جاری خانہ جنگی کے دوران صحافیوں کو قتل کیا گیا جس میں 2003 میں شروع ہونے والی عراق جنگ کے بعد زیادہ تیزی آئی اور 2006 کے دوران 155 صحافیوں کو قتل کیا گیا جبکہ 2007 میں 135 صحافی قتل ہوئے۔

صحافیوں کے تحفظ کی کمیٹی (سی پی جے) کے ایک رکن رابرٹ ماہنی کہتے ہیں کہ شام اور عراق میں شدت پسند تنظیم داعش جب سے نمودار ہوئی ہے تب سے صحافیوں پر حملے ہونا شروع ہوئے جس کی وجہ ان کا محض صحافی ہونا ہے، یہ لوگ کسی کراس فائرنگ میں قتل نہیں ہوئے بلکہ انہیں جان بوجھ کر ہدف بنایا گیا ہے۔

1990 سے لیکر 2017 تک دنیا بھر میں صحافیوں کے قتل عام کے حوالے سے پاکستان کا چوتھا نمبر ہے۔

صحافیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے متعدد اداروں کے مطابق اگر کسی جنگ زدہ علاقے سے باہر صحافیوں کے قتل کی بات کی جائے تو 2017 میں جاں بحق ہونے والے صحافیوں کو زیادہ تر کرپشن اور یا کسی منظم جرم کی تفتیشی رپورٹنگ کے باعث قتل کیا گیا ہے۔

سی پی جے کے رابرٹ ماہنی کہتے ہیں کہ گزشتہ 6 برسوں کے دورن صحافی بننا بہت خطرناک وقت تھا، کیونکہ اس دوران صحافی کسی جنگ زدہ علاقے میں قتل نہیں ہوئے بلکہ انہیں ان کے کام کی وجہ سے جان بوجھ کر قتل کیا گیا۔

اس کی مثال انہوں نے فلبائن، روس اور میکسکو کے حوالے سے دی اور بتایا کہ ان مملک میں کسی بھی طرح کی خانہ جنگی نہیں لیکن ان ہی ممالک میں زیادہ صحافی قتل ہوئے ہیں۔

یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ صحافیوں کو قتل کیے جانے کے علاوہ بھی بہت سے خطرات لاحق ہوتے ہیں، اور یہ خطرہ ان کی قید کا ہے۔

صرف 2017 کے دوران ہی 262 صحافیوں کو قید کیا گیا جو گزشتہ تین دہائیوں کے دوران صحافیوں کو قید کرنے کی سب سے بڑی تعداد ہے۔

جن ممالک میں صحافیوں کو جیلوں میں ڈالا گیا ان میں ترکی 73 صحافیوں کو قید کرنے کے بعد سرِ فہرست ہے، جبکہ 41 صحافیوں کی قید کے ساتھ چین دوسرے جبکہ 20 صحافیوں کی قید کے بعد مصر تیسرے نمبر پر ہے۔

سی پی جے کے اعداد و شمار کے مطابق مطابق 1992 سے 2018 کے درمیان اب تک 58 صحافی لاپتہ ہوئے۔

1992 سے اب تک پاکستان میں 60 صحافیوں کا قتل ہوا جس میں 2010 کے دوران 8 جبکہ 2011 اور 2012 میں 7،7 صحافیوں کو قتل کیا گیا، تاہم یہاں خوش قسمت بات یہ ہے کہ پاکستان میں 2018 کے دوران کسی بھی صحافی کا قتل نہیں ہوا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے