عوام کو بے وقوف نہ بنائیں

مجھے تاریخ یاد نہیں لیکن سال پوری طرح یاد ہے‘ یہ 2000ء تھا‘ میاں برادران جیل میں تھے‘ جنرل پرویز مشرف چیف ایگزیکٹو تھے اور علامہ طاہر القادری ان لوگوں میں شامل تھے جن کا خیال تھا جنرل مشرف کرسی سے اٹھیں گے‘ انھیں تخت شاہی پر بٹھائیں گے‘ سیلوٹ کریں گے اور باقی زندگی سگار پی کر گزار دیں گے چنانچہ علامہ صاحب نے جنرل مشرف کو متاثر کرنے کے لیے لیاقت باغ راولپنڈی میں قوت کے مظاہرے کا اہتمام کیا‘ یہ جلسہ عام تھا۔

علامہ صاحب نے جلسے سے پہلے تین چار صحافیوں کو لنچ پر بلایا‘ میں بھی ان خوش نصیبوں میں شامل تھا‘ لیاقت باغ کے سامنے ایک چھوٹے سے ہوٹل میں لنچ کا انتظام تھا‘ علامہ صاحب نے کھانے کے دوران اپنا سیاسی ایجنڈا بیان کیا۔

ایجنڈا بہت شاندار اور دل میں بسنے والا تھا بس اس میں دو خامیاں تھیں‘ پہلی خامی اقتدار تھا‘ علامہ صاحب جب تک برسر اقتدار نہ آتے وہ اس ایجنڈے کو نافذ نہیں کر سکتے تھے اور دوسرا‘ علامہ صاحب کے پاس ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کوئی ٹھوس لائحہ عمل نہیں تھا‘ میں نے علامہ صاحب سے پوچھا ’’حضرت آپ اقتدار میں کیسے آئیں گے‘‘ علامہ صاحب نے آسمان کی طرف انگلی اٹھائی اور فرمایا ’’اقتدار اللہ کی امانت ہے‘ یہ جب چاہے اور جس کو چاہے سونپ دے‘ ہمیں اللہ کرسی پر بٹھائے گا‘‘ میں کیونکہ کمزور اور خام مسلمان ہوں‘ اللہ اور رسولؐ پر آ کر میری ٹانگیں جواب دے جاتی ہیں ‘ میں خاموش ہو جاتا ہوں لہٰذا میں نے علامہ صاحب کے جواب پر بھی خاموشی اختیار کر لی۔

میں نے اس کے بعد دوسرا سوال پوچھا ’’سر آپ کا ایجنڈا بہت اچھا ہے لیکن سوال یہ ہے آپ دس کروڑ لوگوں کو نوکری کیسے دیں گے؟ ملک میں انصاف کا برابر نظام کیسے بنے گا؟ اور آپ شیر اور بکری کو ایک گھاٹ پر کیسے لائیں گے؟‘‘ علامہ صاحب نے چند لمحے سوچا اور پھر بولے ’’یہ میں آپ کو اقتدار میں آنے کے بعد بتاؤں گا‘‘ میں ہنس کر چپ ہو گیا‘ علامہ صاحب نے لیاقت باغ میں دھواں دار تقریر فرمائی اور لاہور چلے گئے‘ یہ آج تک تقریریں فرما رہے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے انھیں کرسی دی‘ یہ اقتدار میں آئے اور نہ میں یہ جان سکا کہ یہ بکری اور شیر کو کس طرح ایک گھاٹ پر لائیں گے۔

یہ المیہ صرف علامہ طاہر القادری تک محدود نہیں بلکہ پاکستان کا ہر سیاستدان‘ ہر لیڈر اسی مغالطے کا شکار ہے‘ یہ لوگ اپوزیشن میں سمجھتے ہیں یہ کرسی پر بیٹھتے ہی مشرق کو مغرب اور مغرب کو مشرق بنا دیں گے‘یہ پاؤں کی ٹھوکر سے کاخ امراء کے تمام درودیوار ہلا دیں گے‘ یہ عوام سے سو سو روپے اکٹھے کریں گے اور ملک کے تمام قرضے امریکا کے منہ پر مار دیں گے۔

یہ ایک فیصلہ کریں گے اور ایک ہی رات میں ملک سے بے روزگاری‘ بیماری اور جہالت ختم ہو جائے گی اور گوادر سے خیبر تک انصاف قائم ہو جائے گا لیکن یہ لوگ جب اقتدار میں آتے ہیں تو اس وقت پتہ چلتا ہے بیس کروڑ لوگوں کو گھربٹھا کر روٹی‘ کپڑا اور مکان دینا ممکن نہیں‘ دنیا کی کوئی ریاست آٹھ کروڑ بچوں کو بیکن ہاؤس اور ایچی سن کالج جیسی تعلیم نہیں دے سکتی اور ڈیم بھی مہینے دو مہینے میں نہیں بنتے‘ یہ دس دس سال لمبے منصوبے ہوتے ہیں۔

ان کے لیے پانچ پانچ بلین ڈالر چاہیے ہوتے ہیں اور یہ تیس پینتیس برس سے پہلے اپنی کاسٹ پوری نہیں کرتے ‘ ہمارے تمام لیڈر یہ حقائق جانے بغیر اعلان فرما دیتے ہیں‘ عوام ان سے توقعات وابستہ کر لیتے ہیں‘ یہ انھیں ووٹ دے دیتے ہیں اور یہ لوگ جب اقتدار میں آتے ہیںتو اس وقت پتہ چلتا ہے عوام کو روٹی‘ کپڑا اور مکان دینا تو دور حکومت پی آئی اے‘ ریلوے‘ اسٹیل مل اور پاکستان ٹیلی ویژن جیسے سفید ہاتھیوں سے جان نہیںچھڑا سکتی اور یہ وہ حقائق ہیں جن کے ہاتھوں بھٹو جیسا کرشماتی لیڈر بھی مار کھا جاتا ہے۔

آپ کسی دن ٹھنڈے دل و دماغ سے پاکستان کی ستر سال کی تاریخ کا تجزیہ کرلیں‘ آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے ہمارے فوجی اور سیاسی دونوں حکمرانوں کے پاس ایجنڈوں کا انبار تھا لیکن ان کے پاس کسی ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا کوئی لائحہ عمل نہیں تھا‘ یہ منصوبہ بندی کے بغیر ملک کو کھودتے رہے‘ یہ خود چلے گئے لیکن ان کے کھودے گڑھے آج بھی موجود ہیں۔

میں یہاں آپ کو دو مثالیں دیتا ہوں‘ مشرف حکومت نے موبائل فون اور کالز سستی کر دیں‘اس ایک فیصلے کے نتیجے میں ملک میں 13 کروڑ موبائل فونز آ گئے‘ یہ فون اب ظاہر ہے چارج بھی ہوتے ہیں‘ آپ فرض کر لیجیے ایک موبائل دن میں ایک یونٹ بجلی خرچ کرتا ہے تو ملک میں 13 کروڑ موبائل ہیں اور روزانہ صرف موبائل فونز پر 13 کروڑ یونٹ بجلی خرچ ہوتی ہے‘ یہ اضافی بجلی کہاں سے آئے گی؟ جنرل صاحب نے فیصلہ کرتے ہوئے نہیں سوچا تھا۔

اسی طرح وزیراعظم شوکت عزیز نے اے سی سستے کر دیے‘ گاڑیوں کی لیز شروع کرا دی اور پراپرٹی کو انڈسٹری بنا دیا‘کیا نتیجہ نکلا؟ ملک میں اچانک پیسہ آگیا‘ لوگوں نے دو دو‘ تین تین گاڑیاں لے لیں اور ہر کمرے میں اے سی لگا لیا‘اس کے نتیجے میں پٹرول اور بجلی کا استعمال تین گنا بڑھ گیا‘ حکومت نے پٹرول پر پریشر کم کرنے کے لیے سی این جی اسٹیشن لگا دیے۔

یہ گیس سے بجلی بنانے لگی یوں گیس کا بھٹہ بھی بیٹھ گیا‘ چولہے بجھ گئے اور فیکٹریاں بند ہو گئیں چنانچہ ملک اندھیرے اور بے روزگاری کے گڑھے میں جا گرا‘ لوڈ شیڈنگ اور بے روزگاری نے اسٹریٹ کرائم میں اضافہ کر دیا‘ اسٹریٹ کرائم کی وجہ سے پولیس اور عدلیہ پر بوجھ بڑھا‘ملک میں ناانصافی شروع ہوئی اور لوگ اسٹیٹ کے خلاف ہوتے چلے گئے ‘ ہم آج تک شوکت عزیز کی غلطیوں کی فصل کاٹ رہے ہیں۔

ریاستوں کے چھوٹے چھوٹے فیصلے اور چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں کس طرح ریاست کا مزاج بدلتی ہیں آپ اس کا فیصلہ ان دونوں مثالوں سے لگا لیجیے‘ یہ چھوٹے چھوٹے فیصلوں کے نتائج ہیں‘ آپ ان سے جنرل ضیاء الحق کے ’’افغان جہاد‘‘ اور جنرل پرویز مشرف کی ’’وار آن ٹیرر‘‘ کے نتائج کا اندازہ لگا لیجیے ‘ یہ ہمارے حکمرانوں کی ’’میں اقتدار میں آ کر بتاؤں گا‘‘ جیسی سوچ کے نتائج ہیں‘ ہم سب نعرے لگانے کے ماہر ہیں‘ ہمارے پاس ان نعروں کی تکمیل کے لیے کوئی ٹھوس لائحہ عمل نہیں ہوتا اور یہ وہ حقیقت ہے جسے ہمیں ستر سال کی حماقتوں کے بعد آج مان لینا چاہیے۔

میں نے اتوار 29 اپریل کو عمران خان کی تقریر مکمل خشوع وخضوع کے ساتھ سنی‘ عمران خان کے گیارہ نکات درست بھی ہیں اور ملک کی ضرورت بھی لیکن سوال پھر وہی ہے یہ ضرورت پوری کیسے ہو گی؟ عمران خان اقتدار میں آ کر پورے ملک کو یکساں تعلیمی نصاب‘ پورے ملک کو صحت کی یکساں سہولتیں‘ ٹیکس کا درست نظام‘ کرپشن فری پاکستان‘ سرمایہ کاری کا سسٹم‘ نوجوانوں کو نوکریاں‘ زرعی ایمرجنسی‘ نئے صوبوں کا قیام‘ ماحولیات‘ پولیس اور عدلیہ اصلاحات اور خواتین کو تعلیم دینا چاہتے ہیں لیکن یہ دیں گے کیسے؟

آپ اصل حقائق دیکھئے ‘عمران خان کے گیارہ نکات میں سے نو اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کی ذمے داری ہو چکے ہیں‘ تعلیم‘ صحت‘ احتساب‘ سرمایہ کاری‘ نوکریاں‘ زراعت‘ ماحولیات‘ پولیس اور خواتین کے امور یہ تمام ایشوز 2010ء سے صوبوں کے پاس ہیں چنانچہ پھر آپ صرف وفاق میں حکومت بنا کر اپنے گیارہ نکاتی ایجنڈے پر کیسے کام کریں گے؟

آپ کو اپنا ایجنڈا نافذ کرنے کے لیے اٹھارہویں ترمیم ختم کرنا پڑے گی اور اٹھارہویں ترمیم کے خاتمے کے لیے آپ کو پارلیمنٹ (قومی اسمبلی اور سینیٹ ) میں دو تہائی اکثریت چاہیے‘ کیا آپ الیکشن میں اتنی سیٹیں لے لیں گے؟ یہ ناممکن ہے‘ کیوں؟ کیونکہ بلوچستان اور سندھ میں آپ کی پارٹی ہے ہی نہیں اور آپ اگر کے پی کے اور پنجاب سے ساری سیٹیں بھی لے لیں تو بھی آپ کے پاس دو تہائی اکثریت نہیں بنے گی اور اگر فرض کر لیجیے یہ معجزہ بھی ہو جاتا ہے تو بھی سینیٹ میں آپ کی صرف 12سیٹیں ہیں۔

آپ وہاں دو تہائی اکثریت کہاں سے لائیں گے اور اگر فرض کیجیے آپ سینیٹ کو بھی مینج کر لیںتوکیا صوبے آسانی سے آپ کو اٹھارہویں ترمیم واپس لینے کی اجازت دے دیں گے؟ جی نہیں‘ ملک میں بغاوت ہو جائے گی‘ پاکستان پیپلز پارٹی سندھ‘ ن لیگ پنجاب اور اے این پی اور مولانا فضل الرحمن کے پی کے میں آپ کے خلاف کھڑے ہو جائیں گے ‘ وفاق ٹوٹ جائے گا لہٰذا میری درخواست ہے آپ لوگوں کو بے وقوف بنانا بند کر دیں‘ لوگ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے ہاتھوں بے وقوف بن بن کر تھک چکے ہیں‘ آپ نے بھی اب وہی کام شروع کر دیا ہے۔

میں عمران خان کی نیت اور قابلیت پر شک نہیں کرتا‘ یہ ہو سکتا ہے قوم کو واقعی ترقی کا ورلڈ کپ بھی جتوا دیں لیکن نیک نیتی کے باوجود عقل اور پلاننگ کا سوال اپنی جگہ قائم رہتا ہے‘ آپ پورے ملک میں بارہویں جماعت تک ایک سلیبس کرنا چاہتے ہیں‘ آپ کر دیں لیکن یہ ہو گا کیسے ؟ ملک میں اس وقت صرف 1200کیمبرج اسکول ہیں اور ان کے لیے بھی استاد پورے نہیں ہو رہے ‘ ایک ٹیچر تین تین اسکولوں میں پڑھاتا ہے‘ آپ جب ملک کے دو لاکھ 28 ہزار 719اسکولوںکو بیکن ہاؤس بنائیں گے تو استاد کہاں سے آئیں گے؟

کیمبرج کا اچھا استاد دس پندرہ سال میں تیار ہوتا ہے‘ قوم پندرہ سالوں میں کیا کرے گی اور کیا ہماری یونیورسٹیاں اتنی تعداد میں استاد تیار کر لیں گی؟ بیکن ہاؤس کا عام استاد لاکھ سے دو لاکھ روپے تنخواہ لیتا ہے‘ کیا آپ ملک کے14 لاکھ70 ہزاراساتذہ کو لاکھ لاکھ روپے تنخواہ دے لیں گے؟ اگر ہاں تو پھر پیسہ کہاں سے آئے گا؟اور اگر یہ بھی آ جائے گا تو کیا باقی سرکاری محکمے کم تنخواہوں پر خاموش رہیں گے؟ عمران خان کے پاس ان سوالوں کا کیا جواب ہے؟ چنانچہ میرا مشورہ ہے پلیز آپ عوام کو بے وقوف نہ بنائیں۔

عمران خان سیاحت کی انڈسٹری سے امید لگا کر بیٹھے ہیں‘ ہم اب ٹورازم انڈسٹری کی طرف آتے ہیں (ٹورازم کی مثال کل ملاحظہ کیجیے)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے