یہ بھی لفظوں کے سوداگر ہیں

ہم اب ٹورازم کی طرف آتے ہیں‘ عمران خان ہمیشہ شمالی علاقوں کو سوئٹزرلینڈ کہتے ہیں‘ ہمارے شمالی علاقے بے شک سوئٹزرلینڈ سے زیادہ خوبصورت ہیں لیکن سیاح سوات کے بجائے انٹرلاکن جاتے ہیں‘ کیوں؟ اس کا جواب زرمت ہے۔

زرمت (Zermatt) سوئٹزر لینڈ کا خوبصورت پہاڑی ٹاؤن ہے‘ یہ سولہ سو میٹر کی بلندی پر واقع ہے‘ ٹاؤن کو پولوشن سے بچانے کے لیے گاڑیوں کا داخلہ بند ہے‘ سیاح سوئٹزرلینڈ کی بلند ترین چوٹی پر پہنچنے کے لیے یہاں آتے ہیں‘ یہ چوٹی 4634 میٹر بلند ہے‘ حکومت نے وہاں تک چیئر لفٹس اور کیبل کار پہنچا دی ہے‘ سیاح کیبل کار پر بیٹھتے ہیں اور دس منٹ میں ساڑھے چار ہزار میٹر پر پہنچ جاتے ہیں۔

حکومت نے ٹاؤن کو ملک کے دوسرے حصوں سے ملانے کے لیے 1891ء میں ریلوے لائین بچھائی تھی‘ یہ علاقہ 125 برس سے ریلوے کے ذریعے پوری دنیا سے منسلک ہے چنانچہ ریلوے کنکشن کی وجہ سے صرف یہ شہر ہر سال پاکستان کی کل کاٹن ایکسپورٹس سے زیادہ سرمایہ کماتا ہے۔

زرمت سے سینٹ موریس تک ’’گلیشیئر ایکسپریس‘‘ چلتی ہے‘ یہ نو گھنٹے لیتی ہے اور یہ دنیا کی بہترین سیاحتی ٹرینوں میں شامل ہے‘ آپ کو سوئٹزرلینڈ کے کیلنڈرز اور ٹکٹس پر ایک ٹرین نظر آئے گی‘ یہ ٹرین ’’گلیشیئر ایکسپریس‘‘ ہے‘صرف یہ ٹرین پاکستان کی ٹوٹل اسپورٹس ایکسپورٹس سے زیادہ کماتی ہے‘ سوئس ریلوے اور روڈز کو دنیا کے بہترین انفرااسٹرکچر کا اعزاز حاصل ہے۔

گورنمنٹ نے 1847ء میں زیورچ سے بڈین تک 16کلومیٹر ٹریک بچھا کر سوئس ریلوے کی بنیاد رکھی‘ ہم اس وقت 1857ء کی جنگ آزادی کی تیاری کر رہے تھے‘ سوئٹزرلینڈ نے 1882ء میں 2106 میٹر بلندی پر گوتھارڈ پاس تک ریلوے ٹرین پہنچا دی‘ 1906ء میں سمپلن پاس تک ٹرین پہنچ گئی اور سوئس انجینئرز 1916ء تک پہاڑ کاٹ کر گلیشیئرز تک ٹرینیں لے گئے‘ ہم اپنا پہلا یوم آزادی منا رہے تھے تو سوئس حکومت اس وقت تک پورے ملک کے ریلوے کو بجلی پر کنورٹ کر چکی تھی۔

سوئٹزرلینڈ نے اب 58 کلو میٹر طویل پہاڑی ٹنل بنائی ہے‘ یہ گوتھارڈ بیس ٹنل کہلاتی ہے اور یہ دنیا کی لمبی اور گہری ترین ٹنل ہے‘ سوئٹزرلینڈ نے اڑھائی ارب ڈالر سے سوئس تاریخ کی سب سے مہنگی ٹرین سروس بھی بنائی ہے‘ یہ ’’ڈبل ڈیکر ٹرین سروس‘‘ ہے اور یہ بمبارڈائیر (Bombardier) کہلاتی ہے‘ یہ وہ وجوہات ہیں جن سے سوئٹزرلینڈ رقبے میں پاکستان سے 20 گنا اور آبادی میں 25 گنا چھوٹا ہونے کے باوجود صرف سیاحت سے 18 سے 20 بلین ڈالر کماتا ہے اور یہ ریونیو سوئٹزرلینڈ کے ریلوے‘ سڑکوں‘ پلوں‘ فیری سروسز اور کیبل کارز کی دین ہے۔

یہ ہوٹل اور ریستوران انڈسٹری کی مہربانی ہے اور یہ سوئس لوگوں کی فطرت میں موجود صفائی‘ عاجزی اور سیاحوں سے محبت کا کمال ہے‘ ہم اگر سوئس کلچر سے سوئس انفرااسٹرکچر نکال دیں تو سوئٹزرلینڈ دو ماہ میں کلرسیداں بن جائے اور دنیا کے سیاح تو دور خود سوئس لوگ بھی بھاگ جائیں۔

میں عمران خان سے اتفاق کرتا ہوں پاکستان سیاحتی خزانہ ہے اور ہم اگر یہاں صرف سیاحتی انڈسٹری ڈویلپ کر لیں تو ملک کا مقدر بدل جائے گا‘یہ بھی درست ہے دنیا میں صرف دس ملک ہیں جن کو قدرت نے سب کچھ دے رکھا ہے اور ہم ان دس ملکوں میں آتے ہیں‘ ہمارے پاس گیارہ سو کلو میٹر لمبی کوسٹل لائین ہے۔

ہمارے پاس صحرا‘ میدان‘ دریا‘ چراہ گاہیں‘ پہاڑیاں‘ گلیشیئر‘ ندیاں‘ آبشاریں‘ جنگل اور جھیلیں ہیں‘ سوئٹزرلینڈ کی بلند ترین چوٹی صرف 4634 میٹر بلند ہے جب کہ پاکستان کے پانچ پہاڑ 8 ہزار میٹر سے بلند ہیں اور30 پہاڑ6 ہزار سے 8 ہزار میٹر کے درمیان ہیں‘ سوئٹزرلینڈ کے پاس صرف الپس کا ایک پہاڑی سلسلہ ہے جب کہ پاکستان میں کوہ ہمالیہ‘ کوہ ہندوکش اورکوہ قراقرم دنیا کے تین بڑے پہاڑی سلسلے ہیں‘ پاکستان تاریخی لحاظ سے بھی شاندار مقام ہے‘ مہرگڑھ کی تہذیب 9 ہزار سال پرانی ہے۔

ہندوستان میں مورتیوں کی صنعت نے مہرگڑھ میں جنم لیا تھا‘ دانت کا پہلا آپریشن اور پہلی منظم کھیتی باڑی بھی مہرگڑھ میں ہوئی تھی‘ موہن جو داڑو اور ہڑپہ کی سویلائزیشن پانچ ہزار سال پرانی ہے‘ ہندوستانی یہاں سے نقل مکانی کر کے گنگا اور جمنا گئے اور یوں گنگا اور جمنا کی تہذیبیں پیدا ہوئیں‘ چکوال کے پہاڑوں سے فوسل دریافت ہوتے ہیں‘ بلوچستان قدیم تہذیبوں کا نکتہ اتصال تھا‘ دریائے سرسوتی چولستان کے صحرا میں زمین کے اندر چلا گیا‘ آج تک اس کے آثار موجود ہیں۔

ہندو مذہب نے دیپالپور‘ قصور‘ لاہور اور راج کٹاس میں جنم لیا‘ رامائن یہاں لکھی گئی‘ ٹیکسلا‘ تخت بائی اور سوات بودھ تہذیب کے مراکز تھے‘ مارگلہ کی پہاڑیوں میں بودھوں کی تیسری بڑی یونیورسٹی تھی‘ ہندوستان کی سب سے بڑی منڈی لاہور میں تھی اور یہ علاقہ سکندر اعظم‘ چنگیز خان اور امیر تیمور دنیا کے تین عظیم فاتحین کے زوال کی وجہ بنا‘ یہ یہاں سے واپس گئے اور پھر قدموں پر کھڑے نہیں رہ سکے۔

غرض پاکستان تہذیب‘ تاریخ‘ جغرافیہ اور قدرتی مناظر سیاحت کے چاروں عناصر کا خوبصورت امتزاج ہے اور ہم اگر صرف سیاحتی انڈسٹری کو ڈویلپ کرلیں تو پاکستان کو کسی دوسری صنعت کی ضرورت نہیں رہے گی لیکن سوال پھر یہ ہے‘ یہ ہوگا کیسے؟ ہم اصل حقائق اور اپنی اوقات دیکھے بغیر لمبے لمبے دعوے کیوں کر دیتے ہیں؟

آپ کو یاد ہوگا‘ پاکستان جنرل ضیاء الحق کے انقلابی دور سے پہلے دنیا کی بیس بڑی سیاحتی منازل میں شامل تھا‘ لاکھوں سیاح کراچی آتے تھے‘ کیوں؟ کیونکہ کراچی میں شراب خانے‘ کلب اور جواء خانے تھے اوریہ شہر ’’سیاحوں‘‘ کو سستا پڑتا تھا‘ پاکستان ہپیوں کی گزر گاہ بھی تھا‘ کیوں؟ کیونکہ یہ اس گولڈن روٹ پر تھا جہاں سے ہپیوں کو چرس‘ بھنگ اور افیون مل جاتی تھی‘ ہنزہ مڈل کلاس سیاحوں کی سیاحتی منزل ہوتا تھا‘ کیوں؟ کیونکہ ہنزہ میں ہنزہ واٹر کے نام سے شراب بنتی تھی۔

یہ پوری دنیا میں مشہور تھی اور ہمارے سفارتخانے یورپ اور عرب ملکوں میں ہنزہ واٹر کے اشتہار چلواتے تھے اور دنیا بھر کے کوہ نورد بھی اس زمانے میں پاکستان آتے تھے‘ کیوں؟ کیونکہ ہمارے پاس کے ٹو اور نانگا پربت ہیں لیکن پھر یہ تمام سیاح بھاگ گئے‘ کیوں ؟ کیونکہ پاکستان میں سیاحوں کی ’’مین اٹریکشنز‘‘ بھی بند ہو گئیں اور دبئی‘ تھائی لینڈ اور ترکی بھی آباد ہو گئے‘ اب ازبکستان‘ آزربائیجان اور جارجیا بھی کھل رہے ہیں‘ مڈل کلاس سیاح اُدھر بھی جا رہے ہیں۔

ہپیوں کا سارا سامان یورپ میں دستیاب ہو گیا چنانچہ یہ بھی اپنے اپنے ملکوں میں بیٹھ گئے‘ ہنزہ میں صرف ہنزہ رہ گیا اور یورپ میں ایسے ہزاروں ہنزہ تمام تر جدید سہولتوں کے ساتھ موجود ہیں چنانچہ پھر سیاحوںکو لاکھوں روپے خرچ کر کے یہاں آنے کی کیا ضرورت ہے؟ اور پیچھے رہ گئے کوہ نورد تو ان کو ہمارے دہشتگرد بھائی بھی کھا گئے اور نیپال‘ بھارت اور چین نے ان کو ہم سے زیادہ سہولتیں بھی دینا شروع کر دیں ۔

چنانچہ یہ لوگ بھی اُدھر چلے گئے اور ہم خالی ہو گئے لیکن چلیے ہم ان حقائق کے باوجود یہ مان لیتے ہیں ہم پاکستان کے شمالی علاقوں کو سوئٹزرلینڈ بنا دیں گے مگر کیسے؟ سوئٹزرلینڈ کو سوئٹزرلینڈ سوئس انفرااسٹرکچر نے بنایا‘ الپس کا پہاڑی سلسلہ یورپ کے 8 ملکوں میں ہے لیکن یہ ملک مل کر بھی سوئٹزرلینڈ کے سیاحتی ریونیو کا دس فیصد نہیں کما رہے‘ کیوں؟

کیونکہ ان کے پاس سوئس ریلوے‘ سوئس روڈز‘ سوئس پل‘ سوئس فیری سروس اور سوئس کیبل کار نہیں ہیں چنانچہ سیاح سستا ہونے کے باوجود آسٹریا‘ اٹلی‘ جرمنی اور فرانس کے الپس میں نہیں جاتے‘ یہ دوگنی رقم خرچ کر کے سوئٹزرلینڈ جاتے ہیں‘ ہم اگر اپنے سوات‘ ہنزہ‘ استور‘ سکردو‘ ناران اور چترال کو سوئٹزر لینڈ بنانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ان علاقوں میں سوئس انفرااسٹرکچر بچھانا ہوگا‘ ہمیں چترال تک ریل کی پٹڑی پہنچانا ہوگی۔

ہمیں پورے شمالی علاقہ جات کو سڑکیں‘ ہوٹل‘ ریستوران‘ بجلی اور گیس دینا ہو گی اور ہمیں سیاحوں کو وہ ’’سہولتیں‘‘ بھی فراہم کرنا ہوں گی جو اسلامی ملک ہونے کے باوجود ترکی‘ ازبکستان‘ شام‘ اردن‘ مصر‘ عمان‘ کویت اور یو اے ای دے رہے ہیں اور جس راہ پر اب سعودی عرب گامزن ہے‘ یہ 500 بلین ڈالر سے دنیا کا جدید ترین اور موسٹ لبرل سیاحتی شہر بنا رہا ہے‘ اس شہر میں وہ تمام گناہ‘ گناہ نہیں ہوں گے جنھیں ہمارا مذہب گناہ سمجھتا ہے‘ کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں؟

اگر ہاں تو بھی ہم سارے شمالی علاقوں کو ریلوے سے کیسے جوڑیں گے؟ ہم 43 سال میں لواری ٹنل مکمل نہیں کر سکے‘ آج بھی وہاں کام جاری ہے اور ہم اگر واقعی اپنے شمالی علاقہ جات کو سوئٹزرلینڈ بنانے کے لیے سوئس انفرااسٹرکچر بچھانے کا فیصلہ بھی کر لیں تو بھی دو سوال پیدا ہوتے ہیں‘اس کے لیے رقم کہاں سے آئے گی؟

کیا ہم قرضے لیں گے یا ہم لاہور کی اورنج لائین ٹرین کی طرح چین کے ساتھ ’’بلٹ اور آپریٹ‘‘ جیسے معاہدے کریں گے؟ اگر ہاں تو پھر میاں برادران میں کیا خرابی ہے؟ یہ بھی یہی کر رہے ہیں‘ ہم نے ان کے گلے میں بدنامی کی گھنٹیاں کیوں باندھ دیں؟ دوسرا‘ اگر ہم نے مستقبل میں بھی انفرااسٹرکچر ہی بچھانا ہے تو پھر میاں برادران کا کیا قصور تھا‘ یہ بھی تو یہی کر رہے تھے۔

یہ سڑکیں‘ پل‘ انڈر پاسز‘ بجلی کے کارخانے‘ میٹرو‘ ٹرین‘ ائیرپورٹ اور بندرگاہیں بنا رہے تھے‘ ہم نے انھیں برا بنا کر نکال دیا لیکن کل جب عمران خان یہ کام کریں گے تو یہ اچھے ہو جائیں گے! کیوں؟ ہم یہ اعلان کیوں نہیں کر دیتے‘ ہمیں میاں برادران کے طریقہ کار پر کوئی اعتراض نہیں‘ ہمیں بس ان کی شکل پسند نہیں‘مسئلہ ختم ہو جائے گا۔

عمران خان کوآگے بڑھنے سے پہلے یہ مان لینا چاہیے یہ بھی ملک کے لاکھوں انقلابیوں کی طرح خیالی جنت کے سیاح ہیں‘ یہ بھی خوابوں میں قلعے تعمیر کرتے ہیں اور ان کا ہر قلعہ خواب کے ساتھ ہی ٹوٹ جاتا ہے‘ پلاننگ خوابوں کے پہلے سیاحوں کے پاس بھی نہیں تھی اور منصوبہ ان کے پاس بھی کوئی نہیں‘ یہ بھی لفظوں‘ دعوؤں اور نعروں کے سوداگر ہیں چنانچہ پہلے سوداگر بھی لفظ بیچ کر چلے گئے اور یہ بھی نعرے بانٹ کر رخصت ہو جائیں گے ہاں البتہ اس سوداگری میں فواد چوہدری اور نعیم الحق امیر ہو جائیں گے اور بس۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے