مہلت کم ہے!

گزشتہ کالم میں عمران خان صاحب کے گیارہ نکات میں سے چھ کا تجزیہ کرکے،باقی پانچ کاتجزیہ اگلے کالم پر چھوڑا تھا۔ ابھی میری تحریر مکمل بھی نہیں ہوئی کہ جنگ کے صفحے پر فواد چوہدری کے عون چوہدری جیسے کالم نگارنے اپنے باس کی فرمائش پر حقائق کے برعکس خیبرپختونخوا کو جنت اور پرویز خٹک کو قائداعظم ثانی ثابت کرنے کے لئے، حقائق کو مسخ کرکے جوابی کالم لکھ ڈالا ۔ ان جیسے لوگوں کی وجہ سے صحافت روز بروز بے وقعت ہوتی جارہی ہے کیونکہ صحافی کا روپ دھار کر جو لوگ عون چوہدری بن جاتے ہیں اور وہ بھی عمران خان نہیں بلکہ فواد چوہدری کے لئے تو پھر صحافت کی کیا عزت رہ جائے گی ۔

حالانکہ وہ یہ نہیں سوچتے کہ یہ فواد چوہدری اگر اگلے الیکشن میں کسی اور کے ترجمان بن جائیں تو پھران کا کیا بنے گا ۔ زندگی رہی تو باقی پانچ نکات کا بھی جائزہ لینا ہے اور صحافتی عون چوہدری کے اٹھائے گئے نکات کا بھی جواب دینا ہے لیکن درمیان میںایک سنجیدہ معاملہ پیش آیا ہے جو پاکستان کی سلامتی سے بھی متعلق ہے، کروڑوں انسانوں کی زندگیوں سے بھی جبکہ اس حوالے سے مہلت بھی بہت کم ہے ۔ وہ ہے فاٹا انضمام کا معاملہ ۔

اس لئے غیرسنجیدہ سیاستدان کے غیرسنجیدہ دعوئوں اور اس پر فواد چوہدری جیسے غیرسنجیدہ ترجمان اور ان کے عون چوہدری کے کالموں کے غیرسنجیدہ معاملات کومستقبل پر چھوڑ کر آج فاٹا کے انضمام کے حوالے سے کچھ سنجیدہ گزارشات سامنے رکھنا چاہتا ہوں ۔

گزشتہ روز فاٹا اصلاحات کمیٹی (جس میں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی بھی تشریف رکھتے ہیں) کے اجلاس کے بعد قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اعلان کیا کہ آج سے فاٹا ڈویلپمنٹ فنڈزختم کردیا جاتا ہے۔ اکتوبر میں بلدیاتی انتخابات ہوں گے جبکہ اسی اسمبلی سے فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کے لئے قانون سازی کی جائے گی ۔ میرے نزدیک یہ اقدام نہایت خوش آئند ہے لیکن حسب روایت دودھ دے کر حکومت نے مینگنی کی بھی ملاوٹ کرلی کیونکہ وزیراعظم صاحب نے سب سے ضروری اقدام یعنی صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے حوالے سے ابہام چھوڑ دیا جبکہ اوپر سے مذکورہ میٹنگ میں شریک وزیراعلیٰ پختونخوا پرویز خٹک نے یہ اعلان داغ دیا کہ فاٹا کا ادغام 2019میں کیا جائے گا۔

حالانکہ فاٹا کے انضمام کی پہلی سیڑھی یہی ہے کہ اگلے انتخابات میں فاٹا کے اندر بھی خیبرپختونخوا اسمبلی کے لئے انتخابات ہوں جبکہ اس کے بغیر انضمام یا مین اسٹریمنگ کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا ۔ سردست ہم فاٹا کا پختونخوا کے ساتھ انضمام ان اداروں اور افرادکے ذریعے کروانا چاہتے ہیں کہ جو اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں اور دلی طور پر کبھی نہیں چاہیں گے کہ یہ خواب شرمندہ تعبیر ہو۔ مثلاً اس وقت یہ کام دو اداروں یعنی گورنر ہائوس اور وزارت سیفران کی ذمہ داری ہے ۔

موجودہ نظام کے تحت گورنر مالی معاملات میں فاٹا کا بادشاہ ہے جبکہ فاٹا سیکرٹریٹ کے افسران اور پولیٹکل ایجنٹ چھوٹے چھوٹے والی ہیں ۔ عدالتی دائرہ اختیار فاٹا تک بڑھ جانے کے بعد اب اگر قومی احتساب بیورو گورنر ہائوس اور پولیٹکل ایجنٹس کے گزشتہ پانچ سالوں کے معاملات کی چھان بین کرے تو پتہ چل جائے گا کہ اصل کرپشن ہوتی کیا ہے ۔ یہ جوگزشتہ روز وزیراعظم نے فاٹا ڈویلپمنٹ فنڈز کے خاتمے کا اعلان کردیا تو کیا فاٹا سے باہر پاکستانی جانتے ہیں کہ یہ کیا چیز ہے اور اگرپاکستانی صرف اس کی تفصیل جان لیں تو ہر کوئی پکار اٹھے گا کہ فاٹا کے خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام میں ایک منٹ کی تاخیر نہیں ہونی چاہئے ۔

ہوتا یوں ہے کہ فاٹا میں ہر پولیٹکل ایجنٹ کو یہ قانونی اختیار حاصل تھا کہ وہ اپنے اور اپنے ماتحت اداروں کے اخراجات کے لئے عوام سے ٹیکس جمع کریں ۔اس ٹیکس کی شرح اور جمع کرنے کے طریق کار کا تعین وہ خود کرتا ہے ۔ چنانچہ فاٹا کے اندر جانے والے آٹے کی ہر بوری ، سبزی ، سیمنٹ غرض ہر طرح کی ضروریات زندگی ،جو اس ایجنسی کے اندر خیبرپختونخوا کی طرف سے یا افغانستان کی طرف سے داخل ہوتی ہیں، پر پولیٹکل ایجنٹ اپنی مرضی کے مطابق ٹیکس لیتا ہے ۔ اسمگلنگ کی اشیاء میں سے اپنا حصہ اس کے علاوہ ہوتا ہے ۔ اس کا نہ آڈٹ کیا جاتا ہے ، رسید دی جاتی ہے اورنہ کوئی اس سے یہ پوچھ سکتا ہے کہ اس نے ٹیکس یا بھتے کی شرح کس بنیاد پر مقرر کی ہے ۔

اسی طرح نہ ان سے یہ حساب لیا جاتا ہے کہ اس نے کہاں خرچ کیا ۔ یہ تھا فاٹا ڈویلپمنٹ فنڈ،جس کے خاتمے کا وزیراعظم نے اعلان کیا۔ نام کتنا پیارا اور دھندہ کتنا گندا ۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت بھی پولیٹکل ایجنٹ کی پوسٹ تیس سے لے کر پچاس کروڑ میں فروخت ہوتی ہے جبکہ گورنر بن جانے کے بعد کسی شخص کے یار دوست بھی اربوں میں کھیلنے لگ جاتے ہیں ۔

اب ان حالات میں کیا کوئی گورنر دل سے یہ چاہے گا کہ فاٹا کا پختونخوا کے ساتھ انضمام ہو اور ان کی یہ بادشاہت ختم ہو۔ یا پھر اگر کوئی گورنر چاہے بھی توانکے فاٹاسیکرٹریٹ کے سرکاری افسران جو مستقل رہتے ہیں، ایسا چاہیں گے ۔ اسی طرح سیفران کی وزارت کا کوئی کام نہیں سوائے اس کے فاٹا اور گلگت بلتستان وغیرہ کے فنڈز اس کے ذریعے تقسیم ہوتے ہیں ۔ اب کیا یہ وزارت اپنے یہ اختیارات سرنڈر کرکے اپنے آپ کو محض ڈاک خانے میں بدلنا چاہے گی؟ ۔یوں فاٹا انضمام پر عمل درآمد کے لئے ضروری ہے کہ اگلے انتخابات میں فاٹا سے اراکین صوبائی اسمبلی آکر وہاں بیٹھ جائیں تاکہ وہ سسٹم کا حصہ بن کر مرکز سے بھی اپنا حق طلب کرسکیں، گورنر سیکرٹریٹ سے بھی اور صوبے سے بھی ۔

حقیقت یہ ہے کہ اس کام میں قانونی اور انتظامی لحاظ سے کوئی بڑی رکاوٹ نہیں لیکن اسٹیٹس کو کے علمبردار حکومتی عہدیدار اور بیوروکریٹ اسے خواہ مخواہ مشکل بنارہے ہیں ۔ مثلاً مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے ذہنوں میں یہ خدشہ ڈالا جارہا ہے کہ فاٹا میں صوبائی سمبلی کے انتخابات کے لئے نئی حلقہ بندیاں کرنی ہوں گے جس پر وقت لگے گا اور اس کی وجہ سے انتخابات ملتوی ہوسکتے ہیں ۔

اب پہلی گزارش تو یہ ہے کہ فاٹا میں قومی اسمبلی کے انتخابات تو ہونے ہیں اور اس کے لئے تمام انتظامات الیکشن کمیشن اور سیکورٹی فورسز کو کرنے ہوں گے یہی انتظامات صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے لئے بھی کام آئیں گے ۔ اِس میں جن قبائلیوں نے آکر ووٹ ڈالنا ہے اور انہوںنے اسی وقت ایک اضافی ووٹ صوبائی کے لئے بھی ڈالنا ہوگا ۔ دوسری بات یہ ہے کہ قومی اسمبلی کی حلقہ بندیوں کا معاملہ ابھی فائنل نہیں ہوا اور اس پر اعتراضات جاری ہیں ۔ میری معلومات کے مطابق الیکشن کمیشن وہاں پر صوبائی اسمبلی کے لئے حلقہ بندیوں کا کام ایک ہفتے میں کرسکتا ہے ۔ کراچی، پنجاب اور بلوچستان میں نئی حلقہ بندیوں کا معاملہ زیادہ متنازع ہے لیکن فاٹا میں تو صوبائی حلقوں پر کوئی تنازع ہی نہیں ہوگا کیونکہ وہ نئے بنیں گے ۔ باقی ملک میں توامیدواروں کے پہلے سے بنے ہوئے حلقوں میں ردوبدل کردیا گیا ہے لیکن فاٹامیں تو نئے حلقے بنیں گے اور جیسے بھی ہوں ، وہاں پر نئے امیدوار اس کو غنیمت جانیں گے ۔

صوبائی اسمبلی کے انتخابات اس لئے بھی ضروری ہیں کہ سردست سب سے زیادہ ضرورت فاٹا کے نوجوانوں کو پاکستان اور پاکستان کی قومی جماعتوں سے جوڑنے کی ہے اور یہ کام صرف صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے ۔ مثلاً صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہونے کی صورت میں جنوبی وزیرستان کو آٹھ دس صوبائی اسمبلی کی سیٹیں مل جائیں گی ۔

ظاہر ہے بیس تین سیاسی مزاج کے نوجوان پی ٹی آئی کے ، بیس تیس جے یو آئی کے ، بیس تیس اے این پی کے اور اسی طرح دیگر جماعتوں کے پارٹی ٹکٹ کے خواہشمند ہوں گے ۔ پھر درجنوں کی تعداد میں مختلف جماعتوں کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں آجائیں گے لیکن سب سے بڑی ضرورت اس وقت اس تناظر میں بھی ہے کہ جتنی فاٹا انضمام میں تاخیر کی جائے گی۔

اتنی پشتون تحفظ موومنٹ جیسی تحریکوں کے لئے جگہ بنے گی ۔ مثلاً منظور پشتین خود فاٹا مرجر کے لئے کوشاں رہے اور ان کی تنظیم محسود تحفظ موومنٹ نے اس کے لئے بڑی جدوجہد کی ہے ۔ ان کے دست راست ڈاکٹر سید عالم محسود فاٹا مرجر کے لئے کوششوں میں مجھ سے بھی دو قدم آگے تھے ۔ اسی طرح اولسی تحریک جو اب فاٹا پختون تحفظ موومنٹ کا حصہ بن چکی ہے، نے بھی فاٹا مرجر کے لئے تاریخی جدوجہد کی ۔ جب ان لوگوں کی فریاد کو نہ سنا گیا تو وہ پختون تحفظ موومنٹ جیسی تحریک پر مجبور ہوئے ۔

اب اگر فاٹا کے ادغام میں تاخیر کی جاتی ہے ، وہاں کے لوگوں کو آئینی اور سیاسی حقوق نہیں دئیے جاتے ہیں اور ان کو قومی دھارے میں لاکر قومی سیاسی جماعتوں سے منسلک نہیں کیا جاتا تو پختون تحفظ موومنٹ کے رویے میں بھی مزید شدت آئیگی جبکہ اس سے زیادہ سخت زبان میں بات کرنے والی تنظیمیں بھی جنم لے سکتی ہیں ۔ اس لئے مزید ٹال مٹول سے کام لینے کی بجائے اگلے ہفتے ہنگامی بنیادوں پر فاٹا کے ادغام کے تمام نکات بشمول صوبائی اسمبلی کے انتخابات سے متعلق قانون سازی ہونی چاہئے ۔

قانون سازی میں کوئی رکاوٹ اس لئے نہیں ہونی چاہئے کیوںکہ یہ سفارشات خود مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے تیار کی ہیں جس کے مولانا فضل الرحمان صاحب حصہ اور اچکزئی صاحب دست راست ہیں۔ پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی، اے این پی اور جماعت اسلامی تواگلے انتخابات سے قبل مکمل انضمام کا مطالبہ کررہی ہیں۔ اس لئے سینیٹ اور قومی اسمبلی سے قانون سازی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔ بس معاملے کو اسمبلی اور سینیٹ کے سامنے لانے کی دیر ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے