نوازشریف،احتساب عدالت اور واجدضیا کاپسینہ

پانامہ کا ہنگامہ آنے کے بعد پاکستانی سیاست میں ایک بھونچال آ گیا کیونکہ پانامہ میں وزیراعظم میاں نوازشریف کے بچوں کا نام آیا تھا کہ انہوں‌ نے مبینہ طور پر آف شور کمپیناں بنائی اور ان کے ذریعے جائیداد خریدی ، اس کے بعد وزیراعظم نے اوپر تلے قوم سے تین خطاب بھی کئے اور پارلیمنٹ میں اپنی پوزیشن کلیئر کرنے کی بھی کوشش کی.

اپوزیشن بالخصوص عمران خان کسی طور یہ ماننے کو تیار نہیں تھے ، وہ اس کیس کو سپریم کورٹ میں لے گئے ، سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے اس کیس کو سنا ، ازاں بعد لارجز بنیچ ٹوٹا اور کیس نئے آنے والے چیف جسٹس پر چھوڑ دیا گیا.

جسٹس ثاقب نثار نے چیف جسٹس کی حثیت سے حلف اٹھایا تو انھوں نے اس کیس کو ہنگامی بنیادوں پر سننا شروع کیا ، جرح کے دوران بہت ساری کہانیاں سامنے آئیں ، ججز کے وکیلوں کے ساتھ دلچسپ مکالمے بھی زبان زدعام ہوئے . کبھی کہا جاتا ایسا فیصلہ دیں گے کہ تاریخ یاد رکھے گی ، کبھی کہا جاتا کہ جو کاغذات ثبوتوں کے طور پر پیش کیے جا رہے ہیں ان میں پکوڑے رکھ کر بیچے جائیں وغیرہ وغیرہ .

سپریم کورٹ نے کیس سننے کے بعد جے آئی ٹی بنائی ، جس میں خفیہ ایجنسیوں کے لوگ بھی شامل تھے ، اس جے آئیٹی کی سربراہی واجد ضیاء کر رہے تھے ، مجھے اس کیس سے ذاتی طور پر کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ کیا ہو رہا ہے کیونکہ یہ میری صحافتی ذمہ داریوں میں شامل نہیں تھی ، حالات سے باخبر ضرور تھا مگر میری زیادہ دلچسپی اس میں اس وقت پیدا ہوئی ، جب مجھے میرے ادارے نے پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ احتساب عدالت کی خبریں کور کرنے کی ذمہ داری سونپی.

اب تک میں اس کیس کی 78 سے زائد سماعت کو کور کر چکا ہوں ، اس میں میاں نواز شریف اور مریم نواز 61 مرتبہ عدالت میں پیش ہوئے استغاثہ کے وکیل خواجہ حارث اور امجد پرویز اب تک ایون فلیڈ لندن اپارٹمنٹس سے متعلق نیب کے گواہان پر اپنی جرح تقریباً مکمل کر چکے ہیں .

میں کیس کی سماعت شروع ہونے سے لے کر ملتوی ہونے تک وہاں رہتا ہوں ، کیس کی سماعت احتساب کورٹ کے جج محمد بشیر کر رہے ہیں ، جی وہی محمد بشیر جنہیں ایک ہی سیٹ پر بیٹھے ساتواں سال شروع ہو چکا ہے ، قانونی طور پر احتساب جج تین سال سے زائد عرصہ اس سیٹ پر نہیں رہ سکتا ، اس کا تبادلہ کر دیا جاتا ہے.

سماعت شروع ہونے سے قبل میاں نواز شریف اپنی صاحبزادی مریم نواز اور دوسرے زعماء کے ساتھ کمرہ عدالت میں آدھا گھنٹہ پہلے آ جاتے ہیں ، وہ میڈیا کے نمائندوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہیں ، تلخ سوالات کا بھی تحمل سے جواب دیتے ہیں.

ان 78 دنوں میں کیا ہوا؟ استغاثہ کے وکیل جرح کے دوران سچائی کو سامنے لے آئے کہ نہیں یا دال میں کچھ کالا ہے؟ نیب کے گواہ واجد ضیاء جب کمرہ عدالت میں اتے تو اپنے ساتھ چار بڑے بڑے صندوق لے کر آتے جو سیل ہوتے ، ان صندوقوں کو ایک ایک کلو کے تالے لگے ہوتے جن کی چابیاں بھاری بھرکم قسم کے سیکورٹی گارڈز کے پاس ہوتیں. واجد ضیاء کے ہاتھ میں ایک خاص قسم کا بریف کیس ہوتا ہے جسے وہ ہر وقت اپنے سینے کے ساتھ لگا کے رکھتے ہیں ، جرح کے دوران واجد ضیاء خلا کو گھورتے رہتے اور پھر آسانی کے ساتھ کہہ دیتے کہ ایسا نہیں .

سماعت کے دوران جج کے رویے سے کبھی ایسا محسوس نہیں ہوا کہ وہ جانبدارانہ ہیں ، ہاں جرح کے دوران نیب کے گواہ واجد ضیا پانی کا بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں ، ان کی جبین بھی یخ بستہ کمرے میں پسینے سے تر ہوتی ہے ، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے ضمیر پر بہت بڑا بوجھ ہے جسے وہ کہنا چاہتے ہیں مگر بوجہ مجبوری کہہ نہیں پا رہے ، اب تک جتنی بھی سماعت ہوئی اور ہم نے 78 دنوں میں جو دیکھا کہ اس کیس میں کچھ خاص نہیں مگر تاثر یہ مل رہا ہے کہ میاں نواز شریف خاندان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے .

جے آئی ٹی نے تحقیقات بھی مفروضوں پر کی تحقیق کی گہرائی میں نہیں گئے جو جہاں سے ملا اسے ریکارڈ کا حصہ بنا لیا اور جے آئی ٹی کی تحقیقات میں شریف خاندان کے خلاف ٹھوس شواہد نہیں ہیں . ایسا لگتا ہے کہ فیصلہ کرنے والی طاقتیں کوئی اور تھیں، ان کو استعمال کیا گیا اور کیا جا رہا ہے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے