داماداعلی، الخزینی اور ڈاکٹر عبدالسلام

قومی اسمبلی میں قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ فزکس کے بلاک  کو ڈاکٹر عبدالسلام کے نام سے تبدیل کر کے ایک  "مسلمان سائنسدان” ابو فتح عبدالرحمان العظمی کے نام سے منسوب کردیا گیا ہے قومی اسمبلی میں  یہ قرارداد سابق وزیر اعظم  نواز شریف کے داماد کیپٹن صفدر نے جمع کروائ تھی ۔ کچھ عرصہ قبل سن 2016  میں  نواز شریف نے اپنے  وزارت عظمی کے دور میں قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ فزکس کے بلاک کو ڈاکٹر عبدالسلام کے نام سے منسوب کر کے نہ صرف ان کی خدمات کا سرکاری طور پر اعتراف  کیا تھا بلکہ اس اقدام سے یہ پیغام بھی دنیا بھر میں پہنچایا تھا کہ پاکستان اب تبدیل ہو رہا ہے اور اب ہم اپنے ہیروز کو کسی مسلکی اور  عقائد پر مبنی  تعصب کے بغیر  عزت و تکریم دینا سیکھ چکے ہیں۔ لیکن آج ان کے داماد کا پروفیسر عبدالسلام کے نام کو محض اس بنیاد پر قائد اعظم یونیورسٹی سے ہٹانے کیلئے قرارداد  محض اس لئیے پیش کرنا   کہ  وہ ایک احمدی تھے یہ ظاہر کرتا ہے کہ  ہمارے ملک کے سیاستدانوں اور پالیسی سازوں نے نفرت اور تعصب کی سیاست کو آج تک خیر آباد نہیں کہا اور نہ ہی مستقبل قریب میں ان کا ایسا کوئ ارادہ ہے۔ 

 کیپٹن صفدر کی جانب سے قرارداد کا پیش کیا جانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ مسلم لیگ نواز مذہبی شدت پسندوں اور ان کے ووٹ بنک کو خوش کرنا چاہتی ہے تا کہ آنے والے انتخابات میں مذہبی ووٹ بنک سے ووٹ حاصل کر سکے۔  مولوی خادم حسین رضوی نے اپنی احتجاجی تحریک کے بعد پیش کئیے گئے مطالبوں میں سے ایک مطالبہ یہ بھی رکھا تھا کہ احمدیوں کو اسلام دشمن قرار دیتے ہوئے ان کا نام سرکاری اداروں سے منسوب کئیے جانے کے عمل کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے  ڈاکٹر صاحب کا نام فی الفور قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ فزکس  سے ہٹا دیا جائے۔ ہو سکتا ہے کہ کیپٹن صفدر اور ان کی جماعت نے یہ قدم مولوی خادم حسین رضوی کے دباو اور اس تاثر کو زائل کرنے کیلئے اٹھایا ہو کہ مسلم لیگ نواز ایک قادیانی نواز حکومت ہے اور توہین رسالت کے قانون میں قادیانیوں کو خوش کرنے کیلئے ترمیم کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ یہاں  سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مسلم لیگ نواز محض ایک معمولی سے مذہبی شدت پسند خادم حسین رضوی اور اس کے ساتھیوں کا دباو نہیں برداشت کر سکتی اور اپنے ہی اٹھائے گئے اقدامات سے دست بردار ہو جاتی ہے وہاں اس جماعت سے یہ امید کیسے باندھی جا سکتی ہے کہ یہ پس پشت قوتوں کا بے پناہ دباو برداشت کرتے ہوئے اپنے اصولوں اور موقف سے ہیچھے نہیں ہٹے گی؟ اس مذموم قرارداد کا قومی اسمبلی سے اکثریت کے ساتھ منظور ہونا اور اس پر عمران خان اور بلاول زرداری سمیت تمام بڑی جماعتوں کی مکمل خاموشی  اس حقیقت کو عیاں کرتی ہے کہ ہمارے سیاسی نمائندے محض ووٹ بنک کو بچانے کی خاطر کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں اور اپنے ہی ہیروز کو مذہبی جنونیوں کے کہنے پر ڈس اون کر سکتے ہیں

۔کیپٹن صفدر یا دیگر سیاسی رہنماوں کو شاید یہ ادراک نہیں کہ ڈاکٹر عبدالسلام کا نام سائنس اور ریسرچ کی  تاریخ کے پنوں میں درج ہے اور ہمیشہ رہے گا ۔وہاں سے اس نام کو ہٹانے کی قابلیت اور استطاعت کسی بھی سیاسی یا مذہبی شدت پسند کے پاس نہیں ہے۔ بہرحال تمام مذہبی شدت پسندوں اور نرگسیت پسندوں کیلئے آج خوشی کا دن ہو گا کہ ڈاکٹر صاحب کے نام سے منسوب شعبہ فزکس پر اب  ان کے بجائے ایک راسخ العقیدہ اور سچے  مسلمان کا نام عنقریب درج ہو جائے گا ، جس کے نتیجے میں  ستانوے فیصد سے زائد مسلمانوں پر مشتمل آبادی والے اس ملک میں اسلام کو لاحق  شدید "خطرہ ” بھی فی الفور ختم  ہو جائے گا۔ مزید براں پوری دنیا میں یہ پیغام بھی جائے گا کہ ہم کسی ایسے شخص کی خدمات کا اعتراف کرنے سے قاصر ہیں جو ہمارے عقیدے یا ہماری سوچ سے ہم آہنگی نہ رکھتا ہو۔ امید غالب ہے کہ ہمارے اس قدم کے بعد  پوری دنیا ، کیپٹن صفدر  ، قومی اسمبلی کے نمائندوں اور ہمارے معاشرے کو  مساوات ، رواداری  اور  ایک غیر متعصب سماج  ہونے کی اعلی ترین مثال قرار دے گی۔  ہم آج تک یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ  جو  قومیں اپنے ہیروز کو فراموش  دیتی ہیں تاریخ بھی بہت جلد ان کو وقت کے قبرستان میں دفن کر دیتی ہے.کسی بھی قوم کی  آنے والی نسلوں کا مان ان کے وہ بڑے لوگ اور ان کے کام ہوتے ہیں جنکو سامنے رکھ کر بچے اور نوجوان سر اٹھا کر جیتے ہیں اور پھر  اپنے اپنے شعبے میں اپنے ہیرو کو سامنے رکھتے ہوئے اس جیسا بننے کی کوشش کرتے ہیں.بدقسمتی سے ہم اپنے محسنوں اور ہیروز کو بھی یا  تو فراموش کر دیتے ہیں یا پھر تعصب کی عینک لگا کر انہیں  ذات پات مذہب اور فرقے کی بنا پر اہمیت دینے یا نہ دینے کا سوچتے ہیں. کہا جاتا ہے کہ دنیا میں سب سے خطرناک عینک تعصب کی ہوتی ہے اور ہم لوگ اس عینک کا استعمال کچھ زیادہ ہی کرتے نظر آتے ہیں.

ملک خداداد نے بلاشبہ زندگی کے ہر شعبہ میں انتہائی قابل لوگ پیدا کیئے ہیں جنہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا پوری دنیا میں منوایا ہے لیکن ہم عربی یا فارسی لوگوں کو  اپنے علاقائ ہیروز پر صرف مسلکی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر ترجیح دے کر خود اپنی آنے والی نسلوں کو ایک کنفیوژن کا شکار کر دیتے ہیں۔ڈاکٹر عبدالسلام  دھرتی کا سپوت تھا جس  نے پاکستان کے لیئے پہلا نوبل پرائز  جیتا اور دنیا بھر میں وطن کا نام روشن کیا .فزکس کے شعبہ میں الیکٹرو ویو یونیفیکیشن میں ان کی خدمات کو تسلیم کرتے ہوئے یہ اعزاز  15اکتوبر 1989 کو انہیں دیا گیا. انہیں فزکس میں تحقیقاتی کام کی بدولت سمیتھ پرائز  سے بھی  نوازا گیا   اور انکے ڈاکٹریٹ کے مقالے جو کہ  کوانٹم  الیکٹرو  ڈاینامکس کے متعلق تھا اس پر  انہیں ایڈم پرائز سے بھی نوازا گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے 1960 سے سن 1974 تک حکومت پاکستان کے سائینس ایڈوائزر کے طور پر کام کیا.اور وطن عزیز میں سائینس کے شعبے میں ریسرچ اور انفراسٹرکچر کی بنیاد رکھی۔  ڈاکٹر صاحب سپارکو کے خالق بھی تھے پاکستان ایٹامک اینرجی کمیشن میں تھیوریٹیکل فزکس گروپ کا شعبہ بھی انہوں نے ہی متعارف کروایا ۔ پاکستان کے لیئے پر امن  نیوکلیئر  انرجی حاصل کرنے میں بھی  کلیدی کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ بطور سائینس ایڈوائزر ڈاکٹر صاحب نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کے لیئے بھی اہم کردار کیا یہی وجہ تھی کہ جب 1998 میں پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیئے تو ڈاکٹر عبدالسلام کی خدمات کے اعتراف میں ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا گیا۔جب کہ بہت عرصہ عرصہ قبل حکومت پاکستان انہیں ستارہ پاکستان اور نشان پاکستان کے اعزازات سے بھی نواز چکی تھی.ڈاکٹر صاحب نے 1974 میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیے جانے کے بعد احتجاجا پاکستان کو چھوڑ کر انگلینڈ میں سکونت اختیار کر لی اور  آخری ایام تک وہیں قیام پزیر رہے ۔

 .ڈاکٹر صاحب کو محض ایک مخصوص فرقے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے نہ تو کتابوں اور نصاب میں کوئی خاص جگہ آج تک دی گئی ہے اور نہ ہی اس ضمن میں کوئی خاص کوشش تاحال سامنے آرہی ہیں. اور اب محض ان کے عقیدے کی وجہ سے ان کے نام سے منسوب قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ فزکس کا نام تبدیل کر کے ہم نے آنے والی نسلوں کے ذہن میں نفرت اور تعصب کے بیج بوتے ہوئے انہیں یہ پیغام دیا ہے کہ دوسرے انسانوں سے محبت یا نفرت  کا واحد معیار صرف اور صرف ان کا عقیدہ اور مسلک ہے .وہ انسان جس نے عمر کا بیشتر حصہ پاکستان میں سائنس  کے فروغ کیلئے صرف کیا، جس نے سائینس کے میدان میں وظائف بنا کسی رنگ نسل یا فرقے کی تفریق کے تمام مستحق پاکستانیوں میں بانٹے  اور پاکستان کو پرویز ہود بوائے ، فہیم حسین ،عبدل الحمید نیراور غلام دستگیر عالم جیسے قابل دماغ تیار کر کے دئیے  اسے محض احمدی ہونے کی بنا پر مسلسل نظر انداز کرنا اور آنے والے بچوں کو ان کے عقیدے کی وجہ سے ان کی خدمات کے بارے میں نہ بتا کر ہم بطور قوم خود اپنے ساتھ مسلسل زیادتی کر رہے ہیں. قابلیت اور علم کسی مذہب فرقے یا نسل کے محتاج نہیں ہوتے اور نہ ہی آنکھیں بند کر لینے یا کسی کی خدمات کا اعتراف نہ کرنے سے ہم اس کا قد چھوٹا کر سکتے ہیں.ڈاکٹر صاحب کو آج بھی پوری دنیا میں کوانٹم فزکس میں ان کی خدمات کے صلے میں انتہائی عزت و احترام سے دیکھا جاتا ہے نوبل پرائز جیتنے کے علاوہ انہوں نے بے شمار عالمی اعزازات بھی اپنے کام اور لگن کی بدولت حاصل کیئے .سٹیفن ہاکنگ جیسا سائنسدان بھی اپنی زندگی میں  ان کی تعریف کرتا نظر آتا  تھا  لیکن ہم لوگ محض نفرت و تعصب کے باعث ان کا نام تک کسی عمارت پر نہیں لکھا ہوا دیکھنا چاہتے۔

انسان کبھی بھی اپنی مرضی سے کسی ہندو عیسائی مسلمان یا احمدی گھرانے میں پیدا نہیں ہوتا اور  نہ ہی سائنس یا علم کسی خاص فرقے یا عقیدے کا محتاج ہوے کرتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالسلام جیسے عظیم لوگ اپنی پہچان اور شناخت کیلئے  کسی بھی قانون یا قرارداد کے محتاج نہیں ہوا کرتے بلکہ ان جیسے افراد اپنے ملک کی مثبت اور تعیری  شناخت کا سبب ہوا کرتے ہیں۔  (تحریر ” عماد ظفر)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے