صرف ایک ہفتے کی مہلت۔ سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس میں عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کے لئے وفاقی حکومت کو صرف ایک ہفتے کی مہلت دی ہے۔ صرف ایک ہفتے میں وفاقی حکومت کو 1990ء کے انتخابات میں دھاندلی کے الزام میں سابق آرمی چیف اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی کے ساتھ ساتھ اُن سیاستدانوں کے خلاف بھی کارروائی کرنی ہے جنہوں نے 1990ء اور 1993ء میں یونس حبیب کی فراہم کردہ رقم میں سے حصہ وصول کیا۔
جن سیاستدانوں نے رقوم وصول کیں اُن میں سب سے اہم نام نواز شریف کا ہے اور اسی لئے اُن کے کچھ حامیوں کا خیال ہے کہ اصل ٹارگٹ ایک دفعہ پھر نواز شریف ہیں۔ نیتوں کا حال تو صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے لیکن میری ناقص رائے میں اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کے بعد انتخابات میں خفیہ اداروں کی مداخلت کے راستے بند کرنا آسان ہو جائے گا۔ اصغر خان کیس کا فیصلہ بڑی اہم دستاویز ہے۔ 2012ء میں لکھے گئے اس فیصلے کو دوبارہ پڑھیں تو ایسا لگتا ہے کہ 2018ء میں سپریم کورٹ ایک دفعہ پھر ووٹ کی عزت بچانے کی کوشش میں ہے۔
سپریم کورٹ کے جج صاحبان ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے لگانے سے تو رہے لیکن وہ ووٹ کی عزت کیلئے اُسی جماعت سے عملی اقدامات کا تقاضا کر رہے ہیں جو ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ لگا رہی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت اگر چاہے تو ایک ہفتے میں اصغر خان کیس کے عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کر کے اپنے مخالفین کے اس دعوے کو ہوا میں اُڑا سکتی ہے کہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ محض ایک دھوکہ ہے۔ اس سلسلے میں خود نواز شریف کو ایک جرأت مندانہ موقف اختیار کرنا چاہئے کیونکہ اُن کا کہنا ہے وہ اب نظریاتی ہو چکے ہیں۔ نظریاتی لوگ ماضی کی غلطیوں کے اعتراف پر شرمندہ نہیں ہوتے۔ نواز شریف 1990ء کے انتخابات میں آئی ایس آئی سے رقم لینے کا بے شک اعتراف نہ کریں۔
اُنہیں اس الزام کو مسترد کرنے کا حق حاصل ہے لیکن وہ یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ اُن کی پارٹی کی حکومت اصغر خان کیس میں عدالتی فیصلے پر ایک ہفتے میں عمل کرے۔ ایسا کہنے سے نواز شریف کو نقصان نہیں فائدہ ہو گا۔ ویسے بھی وہ بطور وزیر اعظم اس معاملے میں ایف آئی اے کو اپنا بیان ریکارڈ کروا چکے ہیں۔ اس کیس کی کارروائی کا نتیجہ کچھ بھی ہو نواز شریف اسمبلی کی رکنیت سے نااہل ہو چکے ہیں اور احتساب عدالتوں کی کارروائی کا بھی اصغر خان کیس سے کوئی تعلق نہیں۔ اصغر خان کیس کے فیصلے پر عملدرآمد کی صورت میں اُن جماعتوں کو زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے جنہوں نے پانامہ کیس میں نواز شریف کو نااہل قرار دینے کا مطالبہ کیا تھا۔
یہ ناچیز پاکستان کے تمام صحافیوں، سیاسی کارکنوں، وکلاء اور آئین و قانون کی بالادستی پر یقین رکھنے والے شہریوں سے استدعا کرتا ہے کہ اصغر خان کیس کے فیصلے کو ایک دفعہ ضرور پڑھیں۔ یہ فیصلہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اردو اور انگریزی میں موجود ہے۔ یہ فیصلہ کسی ایک ادارے یا ایک پارٹی کے خلاف نہیں ہے یہ فیصلہ صرف اور صرف پاکستان اور جمہوریت کے حق میں ہے۔ اس مقدمے کی کہانی قومی اسمبلی کے فلور پر ایک سابق فوجی افسر میجر جنرل ریٹائرڈ نصیر اللہ بابر نے شروع کی۔
بابر صاحب ایک بہادر فوجی افسر تھے۔ انہوں نے 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں دشمن کے 70فوجیوں کو قیدی بنا لیا اور ستارہ جرأت حاصل کیا۔ 1971ء کی جنگ میں وہ دشمن کا گولہ لگنے سے زخمی ہوئے۔ وہ گیارہ ستمبر کو قائد اعظمؒ کے یوم وفات پر بانی پاکستان کے لئے قرآن خوانی کیا کرتے تھے اور میں گواہ ہوں کہ 2007ء میں پرویز مشرف کے ساتھ پیپلز پارٹی کے این آر او کی اُنہوں نے مخالفت کی تھی۔ بابر صاحب نے 1994ء میں وزیر داخلہ کے طور پر قومی اسمبلی میں اسد درانی کا ایک حلف نامہ پیش کیا جس میں انہوں نے کچھ سیاستدانوں کو رقوم دینے کا اعتراف کیا تھا۔
نصیر اللہ بابر نے 1996ء میں اپنا الزام دہرایا تو 16جون 1996ء کو ایئر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان نے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو خط لکھا اور نصیر اللہ بابر کے بیان کی روشنی میں اسد درانی اور اسلم بیگ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ خط کے ساتھ روزنامہ جنگ 12جون 1996ء کا تراشہ بھی منسلک کیا گیا۔ اصغر خان بھی پاکستان کے قومی ہیرو تھے جو صرف 36سال کی عمر میں پاکستان ایئر فورس کے سربراہ بنائے گئے اور جنہوں نے پی آئی اے کو کھڑا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ نصیر اللہ بابر کی شروع کی گئی کہانی کو اصغر خان سپریم کورٹ میں لائے اور پھر آئین کی دفعہ 184کی ذیلی شق 3کے تحت اس پر کارروائی شروع ہو گئی، پھر ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر کمال عالم خان صاحب نے عدالت کو درخواست بھیجی اور مقدمے میں فریق بنانے کی استدعا کی۔
انہوں نے بتایا کہ 1990ء کے انتخابات سے قبل پیپلز پارٹی کے مخالف سیاستدانوں میں جن افسران کے ذریعہ رقوم تقسیم ہوئیں اُن میں دو بریگیڈیئر اور چار لیفٹیننٹ کرنل شامل تھے۔ بعد ازاں ان میں سے ایک بریگیڈیئر (ر) حامد سعید عدالت میں آئے اور انہوں نے کچھ ایسے نام بھی بتائے جو اسد درانی کے حلف نامے میں شامل نہ تھے۔ اصغر خان کیس کے فیصلے کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ آئی ایس آئی کو سیاست میں کوئی فوجی حکمران نہیں لایا تھا بلکہ یہ کام ذوالفقار علی بھٹو نے 1975ء میں شروع کیا اور آئی ایس آئی میں سیاسی سیل بنایا۔
اصغر خان کیس کے فیصلے میں جن سیاستدانوں کے نام نظر آتے ہیں اُن میں نوازشریف کے علاوہ الطاف حسین، جاوید ہاشمی اور عابدہ حسین اہم ہیں۔ لیاقت جتوئی اور مصطفیٰ کھر اب تحریک انصاف میں شامل ہو چکے ہیں۔ ارباب غلام رحیم اور مظفر حسین شاہ جی ڈی اے میں شامل ہیں۔ اسماعیل راہو کا نام منسلکہ دستاویزات میں ہے وہ اب پیپلز پارٹی میں ہیں۔ حفیظ پیرزادہ کا نام بھی ہے لیکن انہوں نے یہ رقم خود نہیں لی تھی یہ رقم جی ایم سید اور اُن کے ساتھیوں کو پہنچائی گئی۔ جماعت اسلامی اور آفاق احمد کا نام بھی موجود ہے۔ ان سب کو جواب دینا ہے۔
اصغر خان کیس کے فیصلے میں صاف صاف کہا گیا ہے کہ فوجی افسران کو سیاست سے گریز کرنا چاہئے اور اگر اُنہیں سیاست میں مداخلت کا حکم دیا جائے تو وہ یہ حکم ماننے کے پابند نہیں۔ اس فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم نے صدر سے وہ اختیارات لے لئے جن کے ذریعہ صدر فوج کو سیاست میں مداخلت کیلئے استعمال کرتا تھا۔
اصغر خان کیس کے فیصلے کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اسلم بیگ نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے نام پر کارروائی روکنے کی کوشش کی لیکن عدالت نے کارروائی جاری رکھی تاکہ قومی مفاد کے نام پر آئین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے جرائم بے نقاب کئے جائیں۔ اس فیصلے میں ایک جگہ میرا ذکر بھی آتا ہے کیونکہ میں نے عدالت کو ایک ایسی انکوائری رپورٹ کی نقل فراہم کی جو وزارت قانون سے غائب کر دی گئی تھی۔ اصغر خان کیس کے فیصلے پر عملدرآمد سے کسی ایک ادارے، پارٹی یا فرد کو فائدہ نہیں ہو گا بلکہ ووٹ کی عزت اور آئین کی بالادستی کا راستہ ہموار ہو گا۔ اس کیس میں اسلم بیگ اور اسد درانی کے خلاف کارروائی کے بعد پرویز مشرف بھی نہیں بچ پائیں گے لہٰذا مسلم لیگ (ن) ایک نظریاتی جماعت کے طور پر ایک ہفتے میں فیصلے پر عملدرآمد کی حمایت کر دے تو یہ قوم پر احسان ہو گا۔