کوئٹہ، عرصے بعد خوشگوار خبر

جب بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ مینجمنٹ سائنسز کوئٹہ کے جوانسال استاد ذیشان یوسف زئی نے مجھے کوئٹہ ادبی میلے میں شرکت کی دعوت دی تو میں اسے کراچی و لاہور کے ادبی میلوں جیسا ہی سمجھا ۔۔۔

اتوار کی چمکیلی صبح کو جب جہاز کوئٹہ ائیر پورٹ اتر رہا تھا تو میرے ذھن میں وسوسے اور اندیشے سر اٹھا رہے تھے چند روز قبل ہی کوئٹہ میں خوفناک دھماکوں میں پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا جاچکا تھا جبکہ ہزارہ کمیونٹی مسلسل ہدف بنا کر قتل کیے جارہے تھے جلیلہ حیدر کی بھوک ہڑتال تو ختم ہوچکی تھی لیکن اسکے لئیے آرمی چیف کو خود کوئٹہ آنا پڑا ۔۔۔

میں آخری بار دسمبر دو ہزار تین میں اس شہر آیا تھا جہاں اکتیس دسمبر کو وہ خوبصورت شام جناح روڈ اور اطراف میں چہل قدمی میں گزری تھی اور روئی کے گالوں کی اترتی برف نے سارا منظر خوابناک بنا دیا تھا ، بلاشبہ اس شام کے سحر سے میں کبھی نہ نکل سکا ۔۔۔
یہ سب سوچتے میں اپنا بیگ سنبھالے باھر آچکا تھا جہاں بلوچستان یونیورسٹی کے معزز اساتذہ جن میں ذیشان یوسف زئی اور شاہ رخ ریاض سمیت دیگر موجود تھے جنہوں نے کراچی سے آئے مہمانوں کو گرمجوشی سے خوش آمد کہا ۔۔۔

گاڑی روانہ ہوئی تو ائیر پورٹ روڈ پہنچے یہیں سے تعارف شروع ہوا علاقوں کا کہ یہاں یہ دھماکہ ہوا اور وہاں وہ ۔۔ لیکن ہم کوئٹہ کا تاثر بدلنا چاھتے ہیں ہم وہ کوئٹہ دنیا کو نہیں دکھانا چاھتے جو بموں دھماکوں اور دھویں میں کہیں کھو کر رہا گیا ہے ، یونیورسٹی کے اساتذہ کہہ رہے تھے ۔۔۔۔

ہوٹل وغیرہ سے فراغت کے بعد وقت ہی وقت تھا ، سو میں میزیابوں کے ہمراہ یونیورسٹی چلا گیا مجھے قطعی اندازہ نہیں تھا کہ حیرتوں کی کئی جہاں میرے سامنے کھلنے والے ہیں یا یوں کہئیے کہ ایک پوشیدہ خزانہ دریافت ہونے کو ہے ۔۔

یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہی قطار اندر قطار سرخ سبز نیلے پیلے پھول نظر آئے سیلقے سے سجی سنوری کیاریاں اور کشادہ رستے ، یہ پہلا باضابطہ تعارف تھا کوئٹہ کی اس جامعہ کا جو اپنے اندر خوشگوار احساس لئیے ہوئے تھا ۔۔

جیسے جیسے چلتا گیا پرعزم چہرے روشن پیشانیاں اور چمکتی آنکھوں والے طلبہ و طالبات اور انکے مشفق استاذہ نظر آںے لگے ۔۔۔

یہ سب کل کے میلے کی تیاریوں میں رضاکارانہ طور پہ مصروف ہیں اور اس ایونٹ کو یاد گار بنانا چاھتے ہیں ، میزبان نے مجھے بتایا ۔۔۔

میرے لئِے حیرت یوں تھی کہ سب میں ایک جذبہ تحرک اور زندگی کی بھرپور رمق نظر آرہی تھی ۔۔۔
یونیورسٹی سے متعلق یہ تو ابتدائی تاثر تھا مزید معلومات نے دل خوش کردیا ۔۔۔

یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر فاروق بازئی اور رجسٹرار ڈاکٹر فیصل کاکڑ نے بتایا کہ یہاں دس ہزار طلبہ و طالبات حصول علم کے لئیے آتے نو سو اساتذہ جن میں لگ بھگ سو پی ایچ ڈیز بھی شامل ہیں انہیں پڑھاتے ہیں ۔۔

اس جامعہ کے بیشتر پی ایچ ڈیز بیرونی جامعات سے تعلیم مکمل کرکے لوٹے ہیں جبکہ یونیورسٹی انکی حوصلہ افزائی یوں کرتی ہے کہ تنخواہ کیساتھ انہیں اسکالرشپ اور چھٹیاں فراہم کی جاتی ہیں اور بدلے میں صرف یہ مانگا جاتا ہے کہ یورپ امریکہ کے تعلیمی اداروں سے جو سیکھا ہے پانچ برس تک یہاں آکر پڑھانا ہے اور اس روایت پہ تسلسل سے عمل ہورہا ہے ۔۔

اسٹیٹ آف دی آرٹ یہ یونیورسٹی ماضی میں بولان ٹیکسٹائل ملز تھی جسے بند ہونے کے بعد دو ہزار دو میں یونیورسٹٰی بنایا گیا اس سرکاری یونیورسٹی کی جانب سے طلبہ کو فراہم کی جانے والی سہولتیں شاندار ہیں ملٹی میڈیا جدید پروجیکٹر ،وسیع و عریض ہال ،آرام دہ کرسیاں ،فرنیچر ، سینٹرلی ہیٹنگ سسٹم اور صفائی ستھرائی کی تو کیا ہی بات ہے ۔۔۔

اب آتے ہیں ادبی میلے کی جانب جسے ” امید نو ” کا عنوان دیا گیا تھا یہی وجہ تھی اس میں بلوچستان بھر سے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد نے شرکت کی یہاں مختلف موضوعات جن میں ادب ، شاعری ، کتب میلے ۔ آرٹ ، ثقافت ، بلوچستان کے ایشوز اور میڈیا کے حوالے مختلف سیشنز رکھے گئے تھے جس سیشن میں ، میں نے شرکت کی اسکے ماڈریٹر معروف دانشور صحافی اور اینکر وسعت اللہ خان تھے یہ ڈیجٹل رپورٹنگ اور الیکٹرانک میڈیا کی جانب سے دور دراز علاقوں کو نظر انداز کرنے سے متعلق تھا جسکے شرکاء میں میرے علاوہ صحافی علی ارقم اور سوشل میڈیا پہ متحرک ظفراللہ خان تھے ۔۔۔

سیشن اسقدر دلچسپ رہا کہ قائد اعظم یونیورسٹی کے استاد عاصم سجاد اسکے بعد شروع ہونے والے اپنے سیشن میں کئی بار کہنے پہ مجبور ہوئے کہ ” جہاں سے آرہا ہوں وہ جلسہ گاہ تھی ” یعنی وہاں تندوتیز سوال ہوئے میڈیا کے کردار پہ کھلی بات ہوئی اس حوالے سے وسعت اللہ خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا مرکزی میڈیا چھوٹے شہروں کو نظر انداز کرتا ہے اور بسا اوقات سچ چھپانے کے لئیے تین چار طرف کا دھبہ بھی برداشت کرنا پڑتا ہے .میرا کہنا تھا کہ چینلز کے مالکان ہی اصل طاقت رکھتے ہیں اور وہ کاروباری بنیادوں پہ یہ کام کررہے ہیں انہیں اشتہارات دینے والے اداروں کا بھی خیال کرنا پڑتا .ہے علی ارقم کا کہنا تھا کہ آج بھی صحافت میں مزاحمت ہوتی ہے . ظفر اللہ خان کا کہناتھا کہ سوشل میڈیا متبادل فورم ہے ،منظور پشتین ہو یا جلیہ حیدر انہوں نے اپنے رستے یہیں سے بنائے گفتگو میں یہ اضافہ بھی میں کیا کہ قیام پاکستان کے بعد فیض احمد فیض جیسے لوگ میڈیا کے سرخیل تھے اور وہ نظریات پہ سودا نہیں کرتے تھے لیکن اب تو انکی یاد بھی سرمایہ دار طبقے کے تعاون سے منائی جاتی ہے جبکہ اس زمانے کے کئی لوگ بعد میں نظریاتی انحراف کرکے سرمایہ دارانہ نظام کے سامنے مزاحمت سے گریزاں ہیں جسکی وجہ صحافت تنزلی کا شکار ہے ۔۔۔۔

ڈاکٹر قیصر بنگالی اور پروفیسر عاصم سجاد کا سیشن بھی بھرپور رہا جہاں ترقی ، اسکے فوائد نقصانات کے بارے میں بات کی گئی ڈاکٹر سجاد کے مطابق ترقی جنگیں بھی لاتی ہے اور فی الحال اسے روکنے کا کوئی راستہ بھی نہیں ہے دیکھنا ہوگا کہ بلوچستان کو حالیہ ترقیاتی منصوبوں سے کتنا فائدہ مل سکتا ہے .پروفیسر عاصم سجاد کے مطابق پاکستان کا لبرل طبقہ کمروں میں بیٹھ کر مسائل پہ بات تو کرتا ہے لیکن وہاں سے نکل کر اپنی تنظیم یا جماعت بنانے پہ توجہ نہیں دیتا اسکے برعکس مذھبی طبقہ منظم ہے اور گراونڈ پہ کام بھی کرتا ہے وہ کہتے ہیں سی پیک پہ سوال اٹھانا ہمارا حق ہے ۔۔۔۔

پشاور کے ” خماریان ” کا سیشن بھی بھرپور رہا اپنی موسیقی کے زریعے ان نوجوان نے بہت جلد اپنی شناخت بنائی ہے جبکہ پشاور زلمے کے ساتھ یہ میوزک دیتے رہے ہیں اسی طرح ایک سیشن فیض احمد فیض کے نواسے علی ہاشمی کیساتھ تھا جنہوں نے فیض سے متعلق اپنی کتاب کے بارے میں آگاہ کیا انکا کہنا تھا کہ جذبات ایک طرف رکھ کر غیر جانبدار انداز میں فیض کا جائزہ لیا ہے ایک سوال پہ انکا کہنا تھا کہ اقبال کی طرح فیض کے حوالے سے اکیڈیمی ہونی چاھئیے لیکن انہیں اس حوالے سے کوئی گلہ نہیں کیونکہ فیض کے چاھنے والے بہت ہیں اور مختلف پروگرامز تسلسل سے ہوتے رھتے ہیں ۔۔۔

سوشل میڈیا پہ ” خلی ولی ” سے شہرت پانے والے جنید بھی اس میلے کا حصہ تھے اور رونق محفل رہے
دو دن تک سجنے والے میلے کا اختتام ہوچکا ہے ، بلوچستان ہمارے لئیے اتنا ہی اجنبی بن چکا ہے جتنا کہ گوروں کے لئیے پاکستان،،، یہ المیہ اور بدقسمتی ہے .

کاش کہ ہم سمجھ سکیں کہ کوئٹہ میں سرد ہوائیں اور دھماکے ہی نہیں بلکہ اور بھی بہت کچھ موجود ہے جسے تلاش کرنا ،سامنے لانا اور انہیں ہمت و حوصلہ دینا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے ۔۔۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے