منگل کے روز سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے آرمی پبلک سکول پر ہونے والے حملے کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانے کا حکم دیا اور انکوائری رپورٹ دو ماہ میں جمع کرانے کی ہدایت بھی کی . کمیشن میں کم ازکم پشاور ہائی کورٹ کے ایک جج کو شامل کرنے کی ہدایت کی۔
عدالت میں اے پی ایس واقعے میں جاں بحق ہونے والے طلبا کے والدین کی بھی کثیر تعداد موجود تھی . ان میں سے اے پی ایس حملے میں شہید ہونے والے ایک طالب علم کے والد فضل خان ایڈوکیٹ نے آئی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ” میں نے چیف جسٹس صاحب کو کہا کہ مجھے پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس پر یقین نہیں ہے کہ وہ ہمیں انصاف دیں گے جس پر چیف جسٹس نے سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے مجھے کمرہ عدالت سے باہر نکل جانے کا حکم دیا” .
آئی بی سی کے ساتھ مزید گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ” پشاور ہائی کورٹ میں ہمارے کیسزز ساڑے تین سال سے پنڈنگ ہیں جس کی وجہ سے ہمیں پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس پر یقین نہیں ہے. اس سے پہلے چیف جسٹس صاحب نے آئی جی پی کے سربراہی میں کمیٹی بنادی جو ہم نے مسترد کردی کیونکہ اس سے پہلے والے آئی جی پر ہمارے تحفظات تھے”.
فضل ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ وہ سپریم کوٹ کے تین یا پانچ رکنی بینچ کے کمشن چاہتے ہیں کیونکہ اس کیس میں طاقتور ادرے ملوث ہیں جس کی انکوائرے کرنا کسی ایک جج کا کام نہیں.
احسان اللہ احسان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے فضل خان ایڈوکیٹ نے کہا کہ ” اس سے مہمانوں کی طرح سلوک کرنا اے پی ایس کے شہیدوں کے ساتھ زیادتی ہے.احسان اللہ احسان کو مجرموں کی طرح ہتھکڑیوں میں پیش کیا جائے”.