طوفان کے مرکز میں۔ خاموشی کا کنسرٹ

’’ٹی ہاؤس میں ایک تختی نصب کر دی گئی۔ ’حضرات سیاسی گفتگو سے اجتناب کریں‘۔ شام کو میں ٹی ہاؤس پہنچا تو معمول کے خلاف خاموشی کا سماں تھا۔ باتیں ہو رہی تھیں مگر احتیاط کے ساتھ۔ کوشش تھی کہ مارشل لا کو موضوع بحث نہ بنایا جائے۔ مگر پھر یوں ہوا کہ کسی نے مارشل لا پر کوئی اڑتا سا تبصرہ کیا۔

کسی نے گول مول فقرہ کہا۔ کسی نے اشاراتی انداز میں کوئی بات کی۔ رفتہ رفتہ حجاب اٹھتا گیا۔ اور جب گیارہ بجے کے قریب ٹی ہاؤس بند ہو رہا تھا تو بحث اپنے عروج پر تھی کہ مارشل لا صحیح لگا ہے یا غلط لگا ہے۔‘‘

یہ اقتباس انتظار حسین کی خود نوشت "چراغوں کا دھواں” سے لیا گیا ہے۔ ذکر اکتوبر 1958ء کے دوسرے ہفتے کا ہے۔ یہ وہ دن تھے جب ن م راشد نے شکوہ کیا تھا کہ اس ملک میں ’آوازوں کا رزق‘ ختم ہو گیا ہے۔ آوازوں کا رزق ختم ہونے سے پیدا ہونے والا قحط سمجھنے کے لیے ایک چھوٹا سا ذاتی واقعہ عرض ہے۔ تین دہائیاں پہلے جہلم ایک چھوٹا سا خوبصورت قصبہ تھا۔ ہم چند دوست جہلم اور کھاریاں کے بیچ بہتے دریا کے مشرقی کنارے پر ایک نیم روشن ریستوراں میں ڈگ ڈگ ہلتی لکڑی کی چرچراتی کرسیوں پر بیٹھے تھے۔

تازہ مچھلی بھونے جانے کی خوشبو ہوا میں پھیلی ہوئی تھی۔ ہمارے بیچ برطانیہ سے آئی ہوئی ایک نوجوان موسیقار خاتون بھی موجود تھی۔ میں اب اس خاتون کےخدوخال یاد نہیں کرنا چاہتا۔ بڑھاپے کی پہلی اذیت یہ ہے کہ خوبصورتی کی یادداشت ناگزیر طور پر دکھ میں ڈھل جاتی ہے۔ رات بھیگ رہی تھی اور ہماری گفتگو کا سلسلہ پھیلتا جا رہا تھا جیسے پچیس چھبیس برس کی عمر کے لڑکے لڑکیوں میں اکثر ہوتا ہے۔ ابن انشا نے لکھا تھا، ’انشا جی، اس عمر کے لوگ تو بڑے سیانے ہوتے ہیں‘۔ ثروت حسین نے اپنے رنگ میں اس عمر کا نوحہ لکھا تھا، "یہ سامان تو مجھ سے یکجا پھر نہیں ہوگا”۔ ایک ہاتھ میں سلگتا ہوا سگریٹ اور دوسرے میں چائے کا کپ تھامے موسیقار خاتون نے اچانک دونوں ہاتھ اٹھائے اور ہم بے وقوفوں کے ٹولے سے پوچھا، موسیقی کیا ہوتی ہے؟ ہم سب نے موسیقی کے بارے میں انٹ شنٹ اگل دیا۔ مہمان خاتون نے سب سنا اور آہستہ سے کہا، ’موسیقی خاموشی کو ترتیب دینے کا نام ہے‘۔

جہاں آوازوں کا رزق ختم ہو جائے، وہاں شور بڑھ جاتا ہے اور موسیقی مرتب کرنا ممکن نہیں رہتا۔ بیسویں صدی میں یہودی منوہن (Yehudi Menuhin) سے بڑا وائلن بجانے والا پیدا نہیں ہوا۔ 1916ء میں نیویارک میں جنم لینے والے منوہن نے دوسری عالمی جنگ کے آخری برسوں میں اچانک خاموشی اختیار کر لی تھی۔ یہ خاموشی موسیقی کی اس صنف سے تعلق رکھتی تھی جسے مزاحمت کا گیت کہا جاتا ہے۔ جنگ ختم ہوئی تو 1947ء میں یہودی منوہن اپنا وائلن اٹھائے برلن آن پہنچا۔ اس کے حلقے میں سخت تنقید کی گئی کہ وہ ہولو کاسٹ کے ظلم کو اتنی جلدی کیسے بھول سکتا ہے۔ منوہن کا جواب بہت معنی خیز تھا۔ ’میں موسیقی سے جرمنی کی روح بحال کرنا چاہتا ہوں‘۔ چند برس پہلے وہ فنکار کی خاموشی سے زخم کی نشاندہی کر رہا تھا اور اب اپنے مضراب سے سروں کا مرہم بکھیر رہا تھا، زخموں پر پھاہا رکھ رہا تھا۔

1930 میں فرانس پیدا ہونے والی مونیک سرف (Serf Monique ) ایک یہودی لڑکی تھی۔ اس کا بچپن پیرس کے مضافاتی جنگلوں میں نازی سپاہیوں سے بھاگتے رہنے میں اور اپنے باپ کے ہاتھوں جنسی ہراسانی کی اذیت جھیلنے میں خرچ ہو گیا۔ جنگ ختم ہوئی تو اس نے موسیقی کی تعلیم حاصل کی۔ اپنا نام بدل کر باربرا رکھ لیا۔ باربرا جو ہمیشہ سیاہ لباس پہنے اسٹیج پر نمودار ہوتی تھی۔ ساٹھ کی دہائی میں فرانس اور جرمنی میں تعلقات کی بحالی کی بات چل رہی تھی۔ جنگ بیس برس پہلے ختم ہو چکی تھی لیکن غصہ اور ندامت پہلو بہ پہلو موجود تھے۔

ایک طرف شکایت تھی کہ ہم پر یہ ظلم کیوں کیا گیا۔ دوسری طرف مکمل شکست کی ندامت تھی اور یہ سوال تھا کہ خود کو تہذیب کی رہنما سمجھنے والی قوم سے انسانی تاریخ کا اتنا بڑا جرم کیسے سرزد ہوا؟ اس موقع پر باربرا نے جرمنی جانے کا فیصلہ کیا، اس نے فرانس کے دریاؤں، جرمنی کے پھولوں اور جوان دلوں کے ایسے گیت گائے جو ٹھیک پچاس برس بعد بھی جرمن چانسلر گیرہارٹ شیروڈر کو یاد تھے۔

چانسلر شیروڈر 1964ء میں ڈاکٹریٹ کے طالب علم تھے اور اس کنسرٹ ہال میں موجود تھے جہاں باربرا سرف نے گاٹن جن (Goettingen) قصبے میں مفاہمت کا گیت گایا تھا۔ چانسلر شیروڈر کہتے تھے ’باربرا کی آواز میں اس فنکار کا نازک احساس ٹپکتا تھا جسے اپنے دکھ کی خبر تھی اور دوسروں کے درد سے آشنائی تھی‘۔ اپنے درد کو دوسروں کے دکھ میں حل کئے بغیر ہنر کی ارغواں پیالی اپنا درشن نہیں دیتی۔

تاریخ، سیاست اور موسیقی میں ایک مشترک نقطہ پایا جاتا ہے، یہ دریاؤں کی صورت آگے بڑھتے ہیں اور ہر نقطے میں ماضی کی بازگشت اور مستقبل کا امکان بیان کرتے ہیں۔ تاریخ کو ماضی سے منقطع نہیں کیا جا سکتا۔ موسیقی میں انترہ استھائی سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ سیاست اپنے سے پہلے گزرنے والوں پہ یکسر پانی پھیر کر نئے سرے سے پہیہ ایجاد کرنے کا کام نہیں۔ بحران، ہنگامے اور سرکاری اہلکاروں میں نقطہ اشتراک یہ ہے کہ وہ بارش کے بعد جگہ جگہ کھڑے پانی کے چھوٹے چھوٹے تالابوں کی مانند ایک دوسرے سے منقطع ہوتے ہیں۔ ان میں ایک میعادی کیفیت پائی جاتی ہے۔ روایت کا تسلسل نہیں ہوتا۔ ماضی نامعلوم اور مستقبل گمنام۔ سیاسی کارکن تاریخ کا شعور رکھتا ہے، اس مانجھی کی طرح جو دریا میں منجدھار بھی پہچانتا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ دریا پہاڑوں سے نکلتے ہیں، میدانوں سے ہوتے ہوئے سمندروں میں گر کر ایک دائرہ مکمل کرتے ہیں۔ یہودی منوہن، باربرا سرف اور عابد میر کی طرح کے یہ لوگ خاموشی کو مرتب کرتے ہیں اور اپنے پیچھے ایک گیت چھوڑ جاتے ہیں۔ ٹی ہاؤس کے کونے میں نصب تختی بے معنی ہو جاتی ہے۔

جس پر لکھا تھا، ’سیاسی گفتگو منع ہے‘۔ انسانی گفتگو میں سیاست اسی طرح ضروری ہے جیسے ہریالی کے لئے زیر زمین پانی۔ سیاسی گفتگو روک دی جائے تو مکالمہ ختم ہو جاتا ہے۔ لاہور میں رہنے والوں کے لئے کوئٹہ کا حال احوال معلوم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کنڈیارو کے اوطاق میں بیٹھنے والوں کو وزیرستان کے حجرے کی خبر نہیں پہنچتی، ایک المیہ باقی رہتا ہے جسے ہمارے عہد میں اردو کے عظیم نثر نگار اسد محمد خان نے اپنے افسانے ’طوفان کے مرکز میں‘ کچھ یوں بیان کیا ہے؛

’’تو ہم مرکز میں تھے جو شانت اور تقریباً unruffled ہوتا ہے… مگر ابھی ہم وہیں تھے جو بیرونی محیط سے فیلڈ مارشل کا بیٹا کئی سو ٹرکوں کا جلوس لے کر بندر روڈ سے طوفان کے مرکز میں داخل ہوا اور اسے درمیان سے قطع کرتا، unruffled دائرے کو توڑتا، میوزیکل فاؤنٹین کی طرف نکل گیا۔ طوفان کا مرکز اتھل پتھل ہو گیا۔ وہ… جسے برسوں، گندھاروں بعد، سفید ریشمی واسکٹ کی اوپری جیب میں میرون کلر کا رومال اڑس کے اسپیکر کی کرسی پر بیٹھنا تھا… بوڑھی فاطمہ جے پر اپنے پپا کی concocted فتح کا جشن مناتا، اپنے (سروس؟) ریوالور سے بے حساب گولیاں چلاتا، طوفان کے محفوظ دائرے کو ہمیشہ کے لیے دو نیم کرتا سنسناتا ہوا، صاف نکل گیا۔

تیس ٹرکوں پر تو صرف اس کے وہ کارندے سوار تھے جو بید کی گھومی ہوئی چھڑیوں سے ڈھول تاشوں پر ضربیں لگا رہے تھے کہ درگہ… درگہ… درگہ… درگہ… اور ہم سمجھ گئے کہ عافیت کا دائرہ اب کہیں نہیں رہا۔ اور عافیت ایکterm relative ہے، اور جتنے دن بھی رہنا ہے براہ راست سنسناہٹوں کے بیچ رہنا ہے… تو اب ہم وہیں ہیں‘‘۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے