تماشے بدل جائیں گے

انسانی معاشروں اور تہذیبوں میں اپنی تمام تر جدوجہد کا وسیلہ‘ حتمی طور پر یہی ثابت ہوا ہے کہ قومیں ایک دوسرے سے بڑھ کر اپنی طاقت‘ مختلف صورتوں میں جمع کریں اور ایک دوسرے پر سبقت حاصل کریں۔ مگر جس نقطۂ نگاہ سے بھی ہم دیکھتے ہیں آج کے زمانے تک یہ کوشش نظر آتی ہے کہ طاقت کے نئے نئے ذرائع حاصل کئے جائیں۔ طاقت میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا ابھی تک جو سب سے بڑا وسیلہ ہے‘ وہ ہے ایک دوسرے پر برتری۔ یہ برتری افراد اور قومیں متعدد طریقوں سے حاصل کرتی ہیں۔ جب کسی تہذیب نے ترقی کی جانب پیش قدمی کی تو اس کی بنیاد تھیں‘ انسان کی جسمانی طاقتیں۔ ایک عرصے تک ممالک اور سلطنتیں‘ پتھر اور لوہے کے ذریعے دوسروں پر سبقت حاصل کرتی رہیں۔

اگر آپ پرانے زمانے کے ہتھیار دیکھیں تو طاقت کی ابتدائی تلاش میں پتھروں کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا تھا۔

پتھروں سے شروع ہو کر موجودہ ایٹمی طاقت تک مقصد ایک دوسرے کی طاقت پر غالب آنا تھا۔ سب سے پہلی طاقت آزمائی انسان کا انسان پر غلبہ حاصل کرنا تھا۔ اس کی شکلیں کئی ہیں۔ ابتدائی طور پر ہاتھوں‘ پیروں اور سروں کے ہتھیار آزمائے جاتے تھے۔ یہ آزمائشیں محض دو چیزوں میں کی جاتی تھیں۔ دوستانہ طاقت آزمائی کے لئے تفریحی دائو پیچ لگائے جاتے۔ ایسے مقابلوں میں ہاتھوں‘ پیروں اور سر کی ٹکر ابتدائی ہتھیار تھے لیکن انسان کی یہیں پر تسلی نہیں ہوتی تھی۔ تفریح طبع کے لئے انسان کے انفرادی طور سے اور آگے چل کر لشکروں کی صورت میں‘ سارے معرکے بے نتیجہ زور آزمائی کی صورت میں ہوا کرتے۔ جب محض دست و پا کے ذریعے مقابلہ آرائی کر کے جیت اور ہار کے فیصلے ہوا کرتے تھے‘ تو یہ پہلا طویل جنگی حربہ تھا۔

محض انسانی جسم کے مختلف حصوں کی مدد سے‘ مقابلہ آرائی ہوا کرتی تھی۔ یقینی طور پر پہلے مرحلے میں دست و پا سے کام لیا جاتا۔ پھر یہی دست و پا نئی نئی ہنر مندیوں سے آگے نکل گئے اور پتھر اور لاٹھی کا استعمال شروع ہوا۔

ایک طرف خنجر سے آگے بڑھتے ہوئے نیزے تک پہنچے۔ ایک طرف نیزوں اور خنجروں کے ذریعے مقابلہ آرائی ہوئی اور دوسری طرف کشتی کے نئے نئے طریقے ایجاد ہونے لگے۔ ظاہر ہے کہ انسانی مقابلہ آرائی میں نئے ذرائع استعمال ہونا شروع ہو گئے تھے۔ یہ دور پتھروں سے شروع ہوا اور خنجروں اور نیزوں تک آگے بڑھا۔ انسانی مہارتوں کے نئے انداز اختیار کئے گئے۔ یہاں انسان کی جسمانی طاقتوں کے استعمال میں نئے فنی مظاہرے ایجاد ہوئے۔ پہلے محض دو ہاتھوں اور دو پیروں سے مقابلہ آرائی ہوتی اور پھر یہی طریقے نئے نئے انداز اختیار کرنے لگے۔ یہ تلوار کا زمانہ تھا۔ اس دور میں لڑائیاں انفرادی مقابلوں سے آگے بڑھ کر اجتماعی ہو گئیں۔ ساتھ ہی ساتھ برچھوں اور دور سے پھینکے گئے خنجر نما ہتھیاروں کا استعمال شروع ہوا۔ دور سے پتھر پھینکنے اور خنجر چلانے کی مہارتیں پھر متروک ہوتی گئیں۔ اب اس زمانے کے ہتھیار عجائب گھروں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ پھر باردو کا زمانہ آیا۔

انسانی اعضا کے ذریعے لڑنے کا دور طویل عرصے تک رائج رہا۔ افریقہ اور دیگر کئی ملکوں میں جنگوں کے ابتدائی طریقے استعمال ہوتے رہے۔ جو ممالک تحقیق اور جستجو کے سائنسی طریقے اختیار کرتے گئے‘ وہ آگے بڑھتے رہے۔ جو ہتھیاروں میں پسماندہ رہے‘ وہ بہت پیچھے رہ گئے۔ افریقہ میں آج بھی ابتدائی نوعیت کے ہتھیاروں کا استعمال جاری ہے لیکن جن افریقیوں کو ابھی تک بارود کے جدید ذرائع استعمال کرنے کے مواقع میسر نہیں آئے‘ وہ آج بھی کھلے میدانوں میں ایک دوسرے سے لڑنے میں مصروف ہیں۔ دوسری طرف جدید سائنسی ہتھیاروں کی ایجادات ہوتی رہیں اور جنگوں کے انداز بھی بدلتے گئے۔ اب کسی انسان کو ختم کرنے کیلئے اس کا ہدف ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ امریکہ میں بیٹھ کر سائبیریا کے برفانی غاروں میں چھپے ہوئے انسان کو نشانہ بنانا ہو تو آج یہ بھی ممکن ہے۔ یہاں تک پہنچ کر اب تباہی کی آخری حد تک پہنچانے والا بارودی گولہ‘ محض مشینوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔

اس وقت چین اور امریکہ دو ایسی اقوام ہیں‘ جو اپنے اپنے ملکوں میں بیٹھ کر ایک دوسرے کو بھاری نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ چین اور امریکہ کے لئے بارود کا استعمال کرۂ ارض کے کسی بھی کونے تک‘ آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ ان دونوں ملکوں کے لئے پرانی طرز کے ہتھیار نئی صدی شروع ہونے سے پہلے بے کار ہو جائیں گے۔ اب ہوا کی لہریں سپر سانک طیاروں کی جگہ لیا کریں گی۔ انسان کی فطرت سے اب قتل و غارت گری کے وحشیانہ طور طریقے‘ ترقی یافتہ اقوام کے لئے متروک ہو جائیں گے۔ البتہ ابھی تک تلواروں اور نیزوں سے جنگیں لڑنے والے اپنی طرف سے جو جدید ہتھیار بنایا کریں گے‘ وہ زیادہ سے زیادہ ڈکوٹا جہازوں میں بم لاد کر لاتوں سے نیچے دھکیلا کریں گے۔

مگر ایسے انسان تب تک‘ آج کی حالت میں تو نہیں رہ پائیں گے۔ تباہیوں کی لہریں اتنی ہولناک اور تباہ کن ہوں گی کہ قتل و غارت گری کی جنگ متروک ہو کر رہ جائے گی اور آنے والی نسل کا المیہ ہی یہ ہو گا کہ کسی قوم کو‘ کسی دوسری نسل انسانی کو ملیامیٹ کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اور کسی کو ایک ملک سے مال و دولت لوٹ کر‘ دوسرے ملک میں نہیں جانا پڑے گا۔ وہ ایک نئی دنیا ہو گی۔ زندگی سے لطف اندوز ہونے کے دوسرے طریقے ہوں گے۔ حالات نئی سے نئی شکلیں اختیار کرنے لگیں گے اور پھر اللہ جانے کتنے برسوں کے بعد‘ وہ مہذب قومیں مختلف سیاروں پر نمودار ہوں گی؟ جن کے مشاغل بھی نئے ہوں گے اور تفریحات بھی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے