سفارتی استثنیٰ کے پانچ عجیب و غریب واقعات

امریکی سفارت کار کرنل جوزف امینوئل ہال کو اسلام آباد میں ایک موٹر سائیکل سوار پاکستانی نوجوان کو اپنی گاڑی سے کچل کرنے ہلاک کرنے کے واقعے میں ملوث ہونے کے باوجود ملک چھوڑنے کی اجازت دیے جانے پر بہت سے لوگ سوشل میڈیا پر برہمی کا اظہار کر رہے ہیں۔

کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ شاید پاکستان کی کمزوری ہے کہ امریکہ ایک بار پھر اپنے شہری کو چھڑا لے گیا۔ لیکن اصل صورتِ حال یہ ہے کہ کرنل جوزف کو ویانا کنونشن کے تحت سفارتی استثنیٰ حاصل تھا جس کے باعث ان پر پاکستانی قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا۔

دنیا میں ایسی کئی مثالیں پیش آ چکی ہیں جہاں سفارت کار کسی اور ملک کے قوانین توڑتے ہوئے پکڑے گئے، لیکن جب ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جانے لگی تو انھوں نے سفارتی استثنیٰ کا سہارا لینے کی کوشش کی۔ ایسی ہی چند مثالیں پیشِ خدمت ہیں:

[pullquote]1 لیبیا کے سفارت کار کی فائرنگ سے پولیس افسر کی ہلاکت[/pullquote]

1984 میں لندن میں لیبیا کے سفارت خانے کے باہر ایک احتجاجی مظاہرہ ہوا جس میں اس وقت لیبیا کے حکمران معمر قذافی کے خلاف نعرے لگائے گئے۔

لندن میٹروپولیٹین پولیس کی 25 سالہ اہلکار ایوون فلیچر وہاں اپنے فرائض نبھا رہی تھیں کہ یکایک سفارت خانے کی کھڑکی سے فائرنگ ہوئی اور فلیچر ماری گئیں۔

پولیس نے سفارت خانے کو گھیرے میں لے لیا، لیکن سفارتی قوانین کی وجہ سے وہ اندر داخل نہیں ہو سکے، اور نہ ہی وہ اس بات کی تفتیش کر سکے کہ گولی کس نے چلائی تھی۔

11 دن کے تعطل کے بعد بالآخر برطانیہ نے لیبیا کے کئی سفارت کاروں کو ملک چھوڑنے کا کہا اور اس کے بعد لیبیا اور برطانیہ کے درمیان سفارتی تعلقات منقطع ہو گئے جو قذافی کی ہلاکت کے بعد کہیں جا کر بحال ہوئے۔

[pullquote]2 زائر کے سفارت خانے کا کرایہ دینے سے انکار[/pullquote]

جس زمانے میں جمہوریہ کانگو کا نام زائر ہوا کرتا تھا، اس کے نیویارک میں واقع سفارت خانے نے ایک عجیب و غریب کام کیا۔

یہ سفارت خانہ ایک نجی عمارت میں قائم تھا، لیکن 1992 میں جب مالک نے خاصے عرصے سے واجب الادا کرایہ مانگا، جو اس وقت تک چار لاکھ ڈالر سے تجاوز کر چکا تھا، تو سفارت کاروں نے سفارتی استثنیٰ کی آڑ لے لی۔ یہی نہیں، بلکہ انھوں نے اصرار کیا کہ وہ کرایہ دیے بغیر اسی عمارت میں قیام جاری رکھیں گے۔

آخر یہ معاملہ عدالت پہنچا، جہاں جج نے فیصلہ صادر کیا کہ یہ معاملہ سفارتی استثنیٰ میں نہیں آتا۔

[pullquote]3 آئی ایم ایف کے سربراہ کا مبینہ جنسی حملہ[/pullquote]

مئی 2011 میں فرانسیسی سفارت کار اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے سابق سربراہ ڈومینیک سٹراس کان کو نیویارک میں اس وقت گرفتار کر لیا گیا جب انھوں نے مبینہ طور پر ہوٹل کی ایک ملازمہ پر جنسی حملہ کیا۔

پولیس کے سامنے سٹراس کان نے دعویٰ کیا کہ انھیں آئی ایم ایف کے سربراہ کی حیثیت سے سفارتی استثنیٰ حاصل ہے۔

تاہم بعد میں معلوم ہوا کہ یہ سفارتی استثنیٰ صرف ‘دفتری نوعیت کے امور’ سے متعلق ہے اور ہوٹل کے کمرے میں جنسی حملہ دفتری نوعیت کے امور کے زمرے میں نہیں آتا۔

اس سے پہلے کہ مقدمہ چلتا، سٹراس کان نے بالا ہی بالا ملازمہ سے ڈیل کر کے جان بچا لی، تاہم وہ اپنا کریئر بچانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔

[pullquote]4 دہشت گردی کا شبہ[/pullquote]

2010 میں ایک قطری سفارت کار محمد المددی امریکی شہر واشنگٹن ڈی سی سے ڈینور جا رہے تھے کہ انھوں نے باتھ روم میں جا کر پائپ پینا شروع کر دیا۔ جب ایک فضائی میزبان نے دھواں نکلتے دیکھا تو انھوں نے المددی سے پوچھ گچھ کی، جس پر انھوں نے کہہ دیا کہ وہ اپنے جوتوں کو آگ لگانا چاہتے تھے۔

اس سے کچھ عرصہ قبل ‘جوتا بمبار’ (shoe bomber) کا واقعہ سامنے آیا تھا جس میں ایک شخص نے اپنے جوتے کے تلے میں رکھے بم کی مدد سے جہاز میں دھماکہ کرنے کی کوشش کی تھی۔

اس واقعے کی اطلاع ہوا باز کو دی گئی جس نے دہشت گردی کے خطرے کا پیغام بھیج دیا اور دو 16 طیاروں نے اس جہاز کو گھیرے میں لے لیا گیا۔ اس معاملے کی ہنگامی نوعیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت کے امریکی صدر براک اوباما کو بھی اس واقعے کی اطلاع دی گئی۔

تاہم سفارتی استثنیٰ کے باعث المددی کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں کی جا سکی۔

[pullquote]5 قونصل خانے میں جوا خانہ[/pullquote]

2006 میں سنگاپور میں سینیگال کے اعزازی کونسلر بینی کنسی نے قونصل خانے کی عمارت کے ایک خالی کمرے میں غیر قانونی طور پر کسینو کھول دیا۔ بعض اخباری رپورٹوں کے مطابق اس سے انھیں لاکھوں ڈالر کی آمدن ہونے لگی۔

جب سنگاپور کی پولیس پوچھ گچھ کے لیے آئی تو بینی کنسی نے سفارتی استثنیٰ کا کارڈ کھیل دیا۔ تاہم بعد میں تحقیقات سے پتہ چلا کہ انھیں مکمل سفارتی استثنیٰ حاصل نہیں تھا کیوں کہ وہ اعزازی کونسلر تھے اور رضاکارانہ طور پر کام کر رہے تھے۔

[pullquote]بشکریہ بی بی سی اُردو[/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے