احتساب عدالت کی کہانی: کیا نواز شریف مزید انکشافات کرسکتے ہیں؟

صبح کی ٹریفک کو شکست دے کر اسلام آباد کے مغربی کونے میں واقع احتساب عدالت پہنچنا کسی چیلنج سے کم نہیں ہوتا۔ وزارت عظمیٰ کے منصب پر براجمان رہنے والے نواز شریف سے اہم سوالات کرنا بھی سفر کی بنیادی مقاصد میں سے ایک ہوتا ہے۔ احتساب عدالت میں شریف خاندان کے خلاف ریفرنسز کی سماعت کی کوریج پر مامورصحافی ہر دن کے موضوع کے اعتبار سے نواز شریف سے سوالات کرتے ہیں، کچھ سوالات کے جوابات نہیں بھی ملتے لیکن وہ صحافی ہی کیا جو ایک کے بعد دوسرا سوال نہ پوچھے۔ یہ دورانیہ چند منٹ کا ہوتا ہے پھر عدالتی کاروائی کا آغاز ہوتے ہی سب خاموشی سے نہ سنائی دیے جانے والے دلائل کو سننے کی کوشش کرتے ہیں۔ نواز شریف مسلسل اپنے ہاتھوں میں سرخ کیسنگ والا آئی فون تھامے رہتے ہیں جیسے خبریں اور پیغامات پڑھ رہے ہوں۔ وٹس ایپ کا استعمال اور دلچسپ پوسٹس کا تبادلہ بھی نواز شریف کے مشاغل میں شامل ہے۔

پانامہ ریفرنسز میں اب ضابطے کی کاروائی باقی رہ گئی ہے، ایک ہی طرح کی باتیں ہر روز دہرائی جارہی ہوتی ہیں جیسے حفظ کی کلاس چل رہی ہو۔ نواز شریف کی قانونی ٹیم سمجھتی ہے کہ ایک ریفرنس کو پھیلا کر چھ ریفرنسز تک پھیلا دیا گیا جس کی وجہ سے روز ایک طرح کے الزامات دہرائے جاتے ہیں۔ وکیل صفائی خواجہ حارث عدالت کو متعدد بار یہ کہہ چکے ہیں کہ پانامہ جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کا ایک ساتھ بیان نہ قلمبند ہونے کی وجہ سے مقدمات کی سماعت میں غیر ضروری طوالت اور مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ جج محمد بشیر غور سے سنتے ہیں اور پھر کاروائی آگے بڑھانے کا کہتے ہیں۔

مریم نواز کو دائیں پہلو میں لیے نواز شریف عدالت پہنچتے ہی وہاں پر موجود عملے سے بھی ضرور مصافحہ کرتے ہیں۔ صحافی ان کے بیٹھتے ہی سوالات کا سلسلہ شروع کردیتے ہیں۔ غیر رسمی گفتگو میں حال احوال اور موسم سے بات شروع ہو کر ہر موضوع کا احاطہ کرتی نظر آتی ہے۔ نواز شریف ذاتی طور پر تقریبا تمام ہی صحافیوں سے واقف ہیں لیکن سوالات ہر طرح کے ہوتے ہیں اور پھر ان کے جوابات کو بھی من وعن رپورٹ بھی کیا جاتا ہے۔ نواز شریف نے غلط رپورٹنگ کی شکایت کبھی نہیں کی شاید یہی اعتماد ہے کہ وہ ان صحافیوں سےتسلی سے بات کرتے ہیں۔ بائیں بیٹھے پرویز رشید اور دائیں جانب سے مریم نواز بھی ان کی مدد کرتی نظر آتی ہیں۔ عدالت میں تقریبا تمام میڈیا چینلز اور اخبارات کی نمائندگی موجود ہوتی ہے اور ہر ایک کو سوال پوچھنے کا بھی میسر رہتا ہے۔ نواز شریف تسلسل سے سوالات کا جوابات دیتے ہیں البتہ کچھ سوالات پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کرتے۔ نواز شریف نے صحافیوں سے یہ وعدہ بھی کررکھا ہے کہ وہ مناسب وقت پراہم انکشافات بھی کریں گے تاہم وہ یہ بھی پوچھ لیتے ہیں کہ میڈیا ان کی باتوں کو سنسر تو نہیں کرے گا؟

نواز شریف نے اپنے دور حکومت میں تحریک انصاف اور طاہرالقادری کی عوامی تحریک کی طرف سے 2014 میں 126 دنوں کے دھرنوں سے متعلق بھی اہم انکشافات کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ انہوں نے کھل کر اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ظہیرالاسلام کا نام لے کر کہا ان صاحب سے متعلق بھی کہنے کو ان کے پاس بہت کچھ ہے جو وہ ضرور بتائیں گے۔ ایک سوال پر سینیٹر مشاہد حسین سید، جو آج کل پھر نوازشریف کے قابل اعتماد ساتھی بن گئے ہیں، نے کہا جنرل ظہیر نے انہیں اپنے تھنک ٹینک کے سیمینار میں دعوت نہیں دی البتہ ان کے 2014 کے دھرنوں کے پیچھے کردار سے متعلق بھی اچھی خاصی ریسرچ کی ضرورت ہے۔ میرے سوال پر نواز شریف بولے بہت کچھ معلوم ہے مناسب وقت پر اظہار بھی کردیا جائےگا۔

آصف زرداری کے اخباری بیان– جس میں انہوں نے نواز شریف پر الزام عائد کیا کہ ان کے کہنے پر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اینٹ سے اینٹ بجانے والا بیان دیا گیا تھا– پر ردعمل دینے سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ چونکہ اخبارات اور میڈیا میں ان کا بیان آیا جس کی تردید فوری نہیں آئی تو اس وجہ سے انہوں نے جواب دیا البتہ جب ایک صحافی نےا ن کی توجہ عبوری حکومت سے متعلق جنرل ظہیر کے میڈیا کی زینت بننے والے فارمولے کی طرف دلائی تو مریم نواز نے فوری کہا ابھی پڑھا نہیں ہے۔ نواز شریف نے بھی یہی موقف اختیار کیا کہ تفصیل سے پڑھ کر جواب دونگا۔

ملک میں سرگرم جہادی گروپوں سے متعلق بھی ان کا موقف ہے کہ وزیراعظم ہوتے ہوئے انہوں نے دہشتگردی کا قلع قمع کیا اور ملک کوامن کا تحفہ دیا۔ ان کا دعوی ہے کہ تمام دہشتگردی کے خلاف آپریشنز کا فیصلہ بھی ان کی حکومت کا تھا۔ ڈان کو انٹرویو دینے سے قبل بھی ممبئی حملوں سے متعلق انہوں نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ دنیا آج پاکستان کا بیانیہ ایسے عناصرکی ملک میں موجودگی کی وجہ سے تسلیم نہیں کرتی۔ انہوں نے چینی اور روسی صدور کا حوالہ بھی دیا۔ صحافیوں نے مزید تفصیلات سے متعلق پوچھا اور ڈان لیکس کا بھی ذکر کیا تو مسکرا کرغالب کے شعر کا یہ مصرعہ بھی پڑھ ڈالا آگے آگے دیکھیے، ہوتا ہے کیا؟

یہ غیر رسمی گفتگو ٹکرز کی صورت میں ٹی وی اسکرینوں پر لال پیلے رنگ بکھیرتے اور جلوے دکھاتے گزر گئی کوئی ٹس سے مس نہ ہوا۔ البتہ جب ڈان میں ایکسکلیوسو کے ساتھ صفحہ اول پر یہ خبر انٹرویو بن کر سامنے آئی تو طوفان بپا ہوگیا۔ قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کرکے نواز شریف کے بیان کی مذمت بھی کی گئی اور ان کے بیان کو غلط اور گمراہ کن بھی کہا گیا۔ شاید وجہ یہ تھی کہ پاکستانی اسکرینوں پر اردو والے ٹکرز بھارتی میڈیا کے سر کے اوپر سے گزر کر بحر ہند میں جا غرق ہوئے۔

عوامی جلسوں سے خطاب کرنے کے لیے بھی نواز شریف اور مریم نواز عدالت سے ہی روانہ ہوتے ہیں۔ نواز شریف کہتے ہیں کہ عوام ان کے ساتھ ہے۔ انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد متنازعہ فیصلوں کو ختم کردیں گے۔ بنیر جلسے کے اگلے دن مریم نے بتایا کہ چھوٹا شہر ہونے کے باوجود بنیر جلسے میں عوام کی بڑی تعداد موجود تھی۔ نواز شریف نے فاتحانہ نظروں سے دیکھا اور کہا بن جانا چاہیے اب قومی کمیشن تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔ سماء ٹی وی کے رپورٹر فیاض محمود نے کہا اگر کمیشن بھی پانامہ جے آئی ٹی طرز کا بن گیا تو پھر کیا کریں گے؟ ڈان لیکس کےمتاثرین میں شامل سینیٹر پرویز رشید ہنس پڑے اور پوچھا کیا قومی کمیشن میں بھی ہیرے ہوںگے؟ نواز شریف خاموش رہے اور یہ نہیں بتایا کہ ان کے ذہن میں کمیشن کی ہیت کیا ہے؟ کس طرز کا کمیشن ہو؟ لگتا ہے کہ بات خلائی مخلوق سے آگے نکل گئی ہے۔ نواز شریف کا لب ولہجہ سخت ہونے کے ساتھ ساتھ براہ راست بھی ہوتا جارہا ہے۔ نواز شریف غداری سے متعلق الزامات پر بہت برہم ہیں۔ "مجھے غدار کہلایا جارہا ہے؟ جس نے ملکی وقار کی خاطر نیوکلیئر دھماکے کروائے اور دیگر بڑے ترقیاتی منصوبوں کی بنیاد رکھی، کیا وہ غدار ہو سکتا ہے یا وہ جن کی وجہ سے ملک دولخت ہوگیا اور جو ملک میں internal strife کا سبب بنے ہوئے ہیں”؟ قومی کمیشن بنا کر یہ بھی معلوم کرنا چاہیے کہ ملک میں دہشتگردی کی بنیاد کس نے رکھی؟ نہ صرف نواز شریف نے ڈان لیکس کوحقیقت قراردیتے ہوئے کہا ہم نے قومی سلامتی کمیٹی میں ان کو بتایا بھائی اپنے گھر کو سدھارو، اپنے آپ کو ٹھیک کرو، دنیا میں ہم isolate ہوچکے ہیں۔ اس ملک کو ایسے مقام تک پہنچا دیا گیا کوئی ایک ملک بھی ہمارا دوست نہیں رہا۔ میرے اس سوال پر کہ آپ پانچ سال سے حکومت میں رہے، وزیر اعظم رہے، کسی ایک ملک کو بھی دوست نہ بناسکے؟ نوازشریف نے جواب دیا ہم نے بہت کوششیں کیں پاکستان کا مقدمہ ہر جگہ پیش کیا لیکن بات ذات کی نہیں ہوتی ہے۔ "آپ خواجہ آصف سے پوچھیں دنیا ہمارے بارے میں کیا کہتی ہے”؟ اب نواز شریف وزیراعظم شاید خاقان عباسی، وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف، سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار یا کسی اور پارٹی رہنما کے موقف کو بالا طاق رکھ کر اپنا مافی الضمیر پیش کرتے ہیں۔ ابھی تک نواز شریف 1990 کے انتخابات میں بے نظیر بھٹو کے خلاف آئی ایس آئی کی طرف سے بھاری رقوم کے معاملے میں اظہار خیال نہیں کرتے صرف یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہر کیس میں نشانے پر نواز شریف ہی ہوتا ہے۔ عمران خان اور چیف جسٹس ثاقب نثار نواز شریف کے خاص نشانے پر ہوتے ہیں۔ نواز شریف ابھی بات کررہے ہوتے ہیں کہ جج محمد بشیر ایک کونے سے کمرہ عدالت میں داخل ہوتے ہیں جس کے بعد ریفرنسز پر باقاعدہ سماعت شروع ہو جاتی ہے۔ واجد ضیاء دائیں طرف کٹہرے میں کھڑے ہوکر بیان قلمبند کروا رہے ہوتے ہیں، ان کے ساتھ نیب کے پراسیکیوٹرز کی ٹیم موجود ہوتی ہے اور ایک اہکار ان کے سر پر موجود رہتا ہے۔ صحافیوں کو واجد ضیاء سے دور رکھا جاتا ہے۔ عدالت کی بائیں طرف وکیل صفائی اپنی ٹیم کے ساتھ واجد ضیاء کا ایک ایک لفظ خود کچی پنسل سے اپنے صفحات پر لکھتے ہیں، بیان کے جس حصے پر اعتراض کرنا ہوتا ہے اس پر خاص رنگ کی پنسل پھیر لیتے ہیں اور آخر میں عدالت کو اپنا اعتراض لکھواتے ہیں۔ اس کاروائی کے دوران فریقین میں نوک جھونک اور مسکراہٹوں کا تبادلہ بھی ہوتا رہتا ہے۔ جج محمد بشیر تسلی سے فریقین کو سنتے ہیں اور اختلاف کی صورت میں ان کے درمیان صلح بھی کرواتے ہیں۔ سیکورٹی اہلکاروں کی بڑی تعداد کمرہ عدالت میں موجود رہتی ہے۔ عدالتی عملہ ایک خاص رجسٹر پر نواز شریف سے حاضری سے متعلق دستخط کرواتا ہے۔ سماعت میں وقفے سے پہلے جج محم بشیر استثنی کی درخواست پر دستخظ کرکے باقاعدہ نواز شریف اور مریم نواز کو واپس جانے کی اجازت دے دیتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے