میاں محمد نوازشریف موجودہ قومی اسمبلی میں قریباً چار مرتبہ ایوان میں آئے۔ بطور قائد حزب اقتدار انہوں نے غالباً دو یا تین تقریریں کی ہیں۔ ان تقریروں کا تعلق ان کی ذاتی تجارت سے تھا۔موجودہ اسمبلی کا وقت پورا ہونے کو ہے۔ جتنا وقت باقی رہ گیا ہے‘اس میں جناب نوازشریف کے لئے کارروائی میںحصہ لینے کا” وقت‘‘ ہی نہیں ہے۔ جب وقت تھا ‘ اراکین کی فرمائشیں پوری کرنے میں نکل گیا۔
بعض ایسے بھی تھے جو وزیراعظم سے اپنا کام کہنے کے بجائے ‘دوسرے اراکین کی شکایتیں لگانے میں گزر گیا اور اب وہ میاں صاحب کی خدمت میں کوئی درخواست کریں بھی تو ان کے پاس وقت ہی نہیں۔اگر عدالتی معاملات میں انہیں رہائی مل بھی جائے تو ضابطے کی کارروائیوںمیں سارا وقت ضائع ہو جائے گا۔اگر آنے والی قومی اسمبلی کے اجلاس میں انہیں پھر سے‘ ایوان کے اندر آنے کا موقع ملا اور وہ بطور قائد حزب اختلاف بن جائیں تو یہ ان کی زندگی کا بہترین وقت ہو گا۔
ایسی وزارت عظمیٰ کا فائدہ کیا؟ جس میں بندے کو نہ تو پڑھنے لکھنے کا موقع ملے اور نہ غوروفکر کا؟ موجودہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی‘یہ تین آدمیوں کے نام نہیں۔ ایک ہی شخص ان تینوں نام سے پہچان لیا جاتا ہے۔ عموماً یہی ہے کہ اگر اتفاق سے کسی بندے کے نام تین ہو جائیں تو ان میں سے ایک ہی نام چن کر کام چلا لیا جاتا ہے۔ جیسے فیض احمد فیض کو ان کے مداحین اور پرستار صرف فیض صاحب کہہ کے یاد کرتے ہیں۔ جب تین ناموں کا رواج پڑاتو روزمرہ کی بول چال میں ایک ہی نام پر اکتفا کر لیا جاتاتھا جیسے فیض صاحب۔جابر علی جابر سے جابر صاحب۔ابتدا میں شہزاد کا نام بھی شہزاد احمد شہزاد تھا لیکن میرا کام چل نکلا۔مجھے صرف ایسا بندہ چاہئے تھا جس کے بیک وقت تین نام ہوں۔اور کمال یہ ہوتا ہے جیسے صرف ایک نام ہی سکے کی طرح چل جاتا ہو۔ ایسا نام صرف فیض صاحب کا ہی یاد آتا ہے ورنہ بناوٹی لگتا ہے۔
ہمارے ملک میں چونکہ اللہ کے فضل و کرم سے مسلمانوںکی اکثریت ہے۔ اس لئے یہاں کسی کا نام بھی صرف محمد نہیں ہوتا۔سعودی عرب میں ہر دوسرے آدمی کا نام محمد ہوتا ہے۔ اس کی وجہ محض عقیدت و احترام نہیں۔یہ مختلف قبائل کو ایک ہی نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ رواج ابھی تک ہے۔ ہر دوسرے عرب کا نام محمد ہی ہوتا ہے۔ جو پڑھ لکھ جائے ‘ وہ اس نام کے ساتھ کوئی اور نام لگالیتا ہے یا قبیلے کا نام اپنا لیتا ہے۔جو آخری نام لکھا گیا ہے ایسا شخص سب کچھ بن سکتا ہے ‘شاعر نہیں۔ محمد نوازشریف‘ جدھر سے مرضی نام شروع کر لیں‘ کامیاب تاجر ہو سکتا ہے۔ شاعر نہیں ہو سکتا۔اور جو تیسرا نام بچتا ہے وہ رسول کریم ﷺ کا ہے۔
میاں صاحب شاعر بھی ہوتے تو فرط عقیدت سے اپنا نام محمد سے کبھی نہ شروع کرتے۔یہ اپنے نام ہی سے سیٹھ ہے یا حاتم۔یہ آدمی جس کا نام محمد نوازشریف ہے‘ جتنا بھی زور لگا کر دیکھ لو‘اس میں سے شاعر نہیںنکلتا۔ موجودہ عارضی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی‘ ان تینوں میں سے ایک نام الگ کر کے دیکھ لیں۔ نہ تو یہ شاعرہو گا اور نہ ہی سیٹھ۔کوئی بھی مشہور و معروف نام رکھ لیں۔ وہ دولفظی نام بھی ہو تو اس میں سے شاعر نکالنا مشکل ہے۔آپ کسی بھی شخص کا نام شاہد خاقان عباسی رکھ کر دیکھ لیں‘ ایک آدمی کا نام نہیں نکال سکتے۔
ان تینوںمیں سے کوئی بھی ایک لفظ علیحدہ کر کے دیکھ لیں‘ اس میں سے وزیراعظم نہیں نکل سکتا۔جبکہ دوسری طرف محمد نوازشریف کے نام سے کوئی سا لفظ نکال لیں ‘ سیٹھ کے لئے بنا بنایا نام ہے۔تین ناموں والا یہ شخص پینتیس چالیس سال سے اسی نام کے ساتھ چلا آرہا ہے۔گھر والے بھی ان حضرت کے لئے شاعرانہ نام نہیں نکال سکتے۔ موجودہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے تین ناموں کو ایک ساتھ لکھ لیں‘ بندہ نہیں بنتا۔ اور وزیراعظم تو بالکل ہی نہیں بنتا۔جب بنے گا عارضی وزیراعظم بنے گا۔