روزوں کے ساتھ ’’انصاف‘‘

عجیب زمانہ آگیا ہے، تحریک انصاف کے ترجمان چوہدری فواد صاحب نے کہا ہے کہ فوج ا ور عدلیہ تحریک انصاف کے ساتھ ہے اور اس کا کسی نے نوٹس ہی نہیں لیا، نہ آئی ایس پی آر کے ترجمان نے اس کی تردید کی اور نہ سپریم کورٹ کے ترجمان کی طرف سے اس حوالے سے کوئی بیان سامنے آیا۔

میں ذرا حسن ظن سے کام لینے والوں میں سے ہوں ،چنانچہ اس خاموشی سے میں نے’’خاموشی نیم رضامندی‘‘ والا نتیجہ نکالنے کے بجائے ’’جواب جاہلاں باشد خموشی‘‘ والا نتیجہ اخذ کیا ہے، تاہم میرے کئی بدگمان قسم کے دوستوں کا خیال ہے کہ یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے چنانچہ اس قسم کی غیر ذمہ دارانہ گفتگو کیسے نظر انداز کی جاسکتی ہے؟ چلیں دفعہ کریں اس معاملے کو، اگر کسی اور نے اسے سنجیدہ نہیں لیا تو میں’’تو کون، میں خواہ مخواہ‘‘ کا کردار کیوں ادا کروں؟

مجھے خود سمجھ نہیں آرہی کہ یہ بات درمیان میں کیسے آگئی جبکہ میرا ارادہ آج رمضان المبارک کے حوالے سے کالم لکھنے کا تھا ، دوسرے شہروں کا تو مجھے علم نہیں کہ وہاں کے کھابہ خوروں کو افطار تک کھانے پینے کی دکانوں کی ویرانی کیسی لگتی ہوگی مگر میں لاہوریوں کو جانتا ہوں، میرا ایک دوست جو سارا سال نیکیاں کمانے کے لئے ماہ رمضان کا انتظار کرتا ہے اور آخری روزے پر بآواز بلند آہ و زاری کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے میرےپیارے رمضان اب تیری آمد کے لئے ایک سال انتظار کرنا پڑے گا، مگر اس کا حال یہ ہے کہ ایک دن بحالت روزہ مجھے کہہ رہا تھا کہ یار سارا دن مجھے گردے کپورے کی ٹکا ٹک کی آوازیں سنائی دیتی ہیں، مرغ چنوں کی خوشبو آتی ہے، بھیئے کے کباب یاد آتے ہیں، گولہ کباب نظروں کے سامنے گھومتے ہیں، گوالمنڈی کے دو دو فٹ لمبے لسی کے گلاس یاد آتے ہیں، روغنی نان بار بار نظروں کے سامنے گھومتے ہیں، نہاری ، پائے ، کھد کی یاد اسے ستاتی ہے، بس تمہیں کیا بتائوں دل پر کیا گزرتی ہے؟

میں نے کہا میں جانتا ہوں تم جان بوجھ کر یہ سب کھابے یاد کرتے ہو تاکہ تمہارے روزے کے ثواب میں اضافہ ہو، یہ سن کر اس نے مجھے سینے سے لگا لیا اور کہا’’اللہ تمہارا بھلا کرے، میں خواہ مخواہ خود کو گنہگار سمجھتا تھا‘‘۔اس دوست کے علاوہ کچھ روزہ خوروں سے بھی میری علیک سلیک ہے مگر مجال ہے وہ کبھی ظاہر ہونے دیں کہ وہ روزے سے نہیں ہیں۔

ہر پانچ منٹ بعد کہتے ہیں’’یار آج روزہ بہت لگ رہا ہے‘‘ جس پر میں ان کا منہ سینہ اور پسلیاں وغیرہ ٹٹولتے ہوئے پوچھتا ہوں’’یہاں تو نہیں لگ رہا؟‘‘ اور وہ میری اس بات کا برا مان جاتے ہیں، ان میں سے کچھ اپنے روزہ دار ہونے کا یقین دلانے کے لئے بار بارکلی کرتے ہیں مگر جب کلی کا پانی باہر پھینکتے ہیں تو وہ اس سے آدھا بھی نہیں ہوتا جتنا انہوں نے کلی کے بہانے منہ میں ڈالا تھا۔ ایک صاحب شام کے وقت نڈھال حالت میں صوفے پر لیٹ جاتے ہیں اور کہتے ہیں’’میں نے سنا ہے اللہ کو روزے دار کے منہ کی بو بہت پسند ہے‘‘۔ اس پر میں ان کا منہ سونگھتا ہوں جس میں سے آم کی خوشبو آرہی ہوتی ہے۔

مجھے یاد ہے میرے بچپن میں ایک دوست جو سارا دن میرے سامنے کھاتے پیتے رہتے تھے مگر دوسروں کے سامنے خود کو صرف روزہ دار ہی نہیں، پنج وقتہ نمازی بھی ثابت کیا کرتے تھے۔ وہ جھولی میں تازہ پھول بھر کر لاتے اور صفوں میں بیٹھے ایک ایک نمازی کو پھول پیش کرتے جس کے نتیجے میں پوری مسجد کے نمازیوں کو ان کے نمازی ہونے کا یقین ہوجاتا اور جب نماز کھڑی ہونے لگتی تو ایک دفعہ پھر وضو کرنے کے بہانے وضو خانے کی طرف جاتے اور وہیں سے کھسک جاتے۔

ایک دن میں نے ان سے پوچھا’’ بردار آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟‘‘ بولے’’ یہ میری کاروباری مجبوری ہے‘‘ میں نے پوچھا’’کیا مطلب؟‘‘ بولے’’ لوگ مجھے دیندار سمجھ کر میرے ساتھ کاروبار کرتے ہیں‘‘۔ میں نے ان کی بات پوری ہونے سے پہلے کہا’’ اور اس کے بعد وہ ساری عمر اپنی ’’نشست‘‘ پر ہاتھ رکھ کر روتے ہیں‘‘ جس کی تصدیق انہوں نے بھرپور قہقہہ سے کی۔

میری ان باتوں کو انجوائے نہ کریں کہ میں نے ایک منافق معاشرے کا نقشہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ سچے دیندار بہت کم ہیں جو حقوق العباد کا خیال بھی رکھتے ہیں اور حقوق اللہ بھی پورے کرتے ہیں۔ کسی کے ظاہر پر نہ جائیں ظاہر دھوکا دینے والا ہے اور ہمارے باطن خباثت سے بھرے ہوئے ہیں! ہم انصاف کا نام لیتے ہیں اور انتخابات ووٹوں کے ذریعے نہیں جیتنا چاہتے،اداروں سے مدد مانگتے ہیں اور پوری بےشرمی سے اعلان بھی کرتے ہیں کہ ہمیں ان کی مدد حاصل ہے۔ ہم لوگوں نے خرد کا نام جنوں رکھ دیا، جنوں کا خرد
چنانچہ آنکھیں بند کرکے نہیں ہر قدم آنکھیں کھول کر اٹھانا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے