دانش کی باتیں

دانش اور حکمت نوعِ انسانی کا ایک سانجھا ورثہ ہیں اسی لیے حکمت کو مومن کا گمشدہ مال بھی کہا گیا ہے اور یہ تاکید بھی کی گئی ہے کہ جہاں سے ملے اس کو حاصل کر لو لیکن جس طرح سے آج کل اسے فیس بک وغیرہ پر لٹایا جاتا ہے اور ’’ذاتی دانش‘‘ کے جو عجیب و غریب جواہر پارے بن مانگے بکھیرے جاتے ہیں ان میں سے اکثر کو دیکھ کر یہ گمان کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ متعلقہ مہربان کے پاس سر یا دماغ جیسی کوئی چیز سرے سے ہے بھی یا نہیں، بالخصوص دینی دانش کے حوالے سے عام طور پر جو کچھ دیکھنے‘ سننے اور پڑھنے میں آتا ہے وہ قابل رحم بھی ہے‘ افسوس ناک اور گمراہ کن بھی کہ ان دانش پاروں کا 90% حصہ سوائے توہمات اور ان عقائد کے فروغ کے اور کچھ نہیں ہوتا جن سے اللہ اور اس کے رسولؐ نے ہمیں سختی سے منع کیا ہے۔

رمضان کے مہینے میں گراں فروشوں کی طرح ان لوگوں کی بھی عید ہو جاتی ہے جب کہ ہم سب اس صورت حال پر کڑھتے اور چیختے چلاتے تو ضرور ہیں مگر اس کے سدباب کے لیے عملی طور پر حکومت سمیت کوئی بھی آگے نہیں بڑھتا۔ حاضر زندگی میں کم کم اور اگلی دنیا میں سو فی صد کامیابی کے جو گر اور راستے بتائے اور سمجھائے جاتے ہیں ان میں سے بیشتر کی نوعیت اور اعدادوشمار ایسے ہوتے ہیں کہ شیطان اور اس کا معاون عملہ بھی ان کو دیکھ کر ہکے بکے رہ جاتے ہیں۔

مجھے بچپن ہی سے دنیا کی مختلف قوموں اور تہذیبوں میں رائج محاوروں اور کہاوتوں وغیرہ کے مطالعے کا شوق ہے کہ ان سب کا بنیادی موضوع ایک ہی ہے یعنی ’’انسان کی ذات اور کائنات کا رشتہ‘‘ نبیوں اور روحانی مفکرین کا علم چونکہ اس میں خالق کائنات کو بھی ساتھ لے کر چلتا ہے جس سے ساری باتیں ایک نقطے میں سمٹ جاتی ہیں اور انسانی دانش ایک ایسی دانش مطلق کے تابع ہو جاتی ہے جہاں ہماری رسائی بیک وقت محدود بھی ہے اور معین بھی اور جہاں افہام و تفہیم کے وہ قوانین ایک خاص حد سے آگے بے عمل اور بے اثر ہوجاتے ہیں، سو ہم اس کو علیحدہ رکھتے ہوئے صرف انسانی دانش کے اس حصے کی بات کرتے ہیں ۔

جس کا تعلق اس مادی دنیا اور اس کے ان معاملات سے ہے جن کا ہمیں روز مرہ کی زندگی میں سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ’’دانش گردی‘‘ کا یہ علاقہ ایسا ہے کہ اس میں قدم قدم پر رنگ و نسل‘ زبان‘ مذہب علاقے اور زمانے کی قید سے آزاد ہو کر اس کرہ ارض پر بسنے والی انسان نامی مخلوق کے کچھ نمایندے ایسے ایسے سوال اٹھاتے اور ان کے جواب سمجھاتے نظر آتے ہیں کہ ان کی بات بات پر آفرین کہنے کو جی چاہتا ہے۔ برادرم عزیز فواز نیاز بھی اس شوق میں میرا ساتھی اور ہم سفر ہے اور چونکہ اس کی رسائی انفرمیشن ٹیکنالوجی کے جدید ترین ذرایع اور وسائل تک ہے اس لیے وہ میری طرح صرف کتابوں اور ’’اقوال زریں‘‘ تک محدود نہیں سو اس کی طرف سے وقتاً فوقتاً مجھے ایسے دانش پارے بذریعہ واٹس ایپ موصول ہوتے رہتے ہیں جو اس سے پہلے میری نظر سے یا تو گزرے نہیں ہوتے یا ان کے پس منظر اور پیش منظر کی تفصیلات واضح نہیں ہوتیں۔

آج اتفاق سے میں نے اس کے بھجوائے ہوئے ان ’’تحفوں‘‘ پر پھر سے نظر ڈالی تو مجھے لگا کہ آج کے اس دور کی علمی‘ تہذیبی‘ سیاسی اور فکری افراتفری کے ہنگامے میں ان باتوں کو پھیلانا اور شیئر کرنا یقیناً کسی نیکی سے کم نہیں کہ یہ ہمارے حصے کی وہ شمعیں ہیں جنھیں جلاتے رہنا رات کی اس تاریکی کا سب سے بہتر جواب ہے جس نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔ میں ان اقوال کو بیان کرنے والی شخصیات کے نام اس لیے درج نہیں کر رہا کہ اب یہ حکمت کے اس گمشدہ خزانے کی شکل اختیار کر چکی ہیں جو ہم سب کا اجتماعی ورثہ ہے اور یہ جہاں سے بھی ملے اس کو لینا ہمارا فرض بھی ہے اور حق بھی اور یوں بھی بقول شیکسپیئر ’’نام میں کیا رکھا ہے‘‘ سو ان سب محسنوں کے لیے ایک اجتماعی اور غیرمشروط دعا۔

٭دنیا میں صرف ایک سچائی ہے ’’علم‘‘ اور ایک ہی برائی ہے جسے ’’جہالت‘‘ کہتے ہیں۔

٭ دیکھا جائے تو موت زندگی کا سب سے بڑا اور قیمتی ترین ’’تحفہ‘‘ ہے

٭عقل ہم میں سے ہر ایک کو عموماً اس وقت آتی ہے جب ہم یہ جاننا شروع کرتے ہیں کہ زندگی‘ ہماری ذات اور اردگرد پھیلی ہوئی دنیا اور کائنات کے بارے میں ہمارا علم کتنا کم ہے

٭جو آدمی اپنی موجود اور میسر سہولتوں پر شکر گزار نہیں وہ کبھی اپنی خواہشات کی تکمیل پر بھی خوش اور مطمئن نہیں ہو گا۔

٭تعلیم کا مطلب صرف شعلے کو روشنی دکھانا ہے کسی مرتبان کو بھرنا نہیں٭اچھی شہرت کے لیے ضروری ہے کہ اپنے آپ کو ویسا بناؤ جیسا تم نظر آنا چاہتے ہو٭اپنا وقت دوسروں کی تحریروں اور تجربوں سے فیض حاصل کرنے میں صرف کرو کہ اس سے تمہیں وہ سب کچھ آسانی سے مل جائے گا جس کے لیے دوسروں کو سخت محنت کرنا پڑی تھی

٭علم تمہیں طاقت دیتا ہے اور کردار عظمت

٭اگر تم واقعی زندگی سے محبت کرتے ہو تو وقت کو ضایع مت کرو کیونکہ وقت ہی وہ مواد ہے جس سے زندگی تخلیق پاتی ہے٭حالات کو گولی مارو اپنے راستے اور مواقع خود پیدا کرو٭تم وہی بنو گے جو تم سوچتے ہو

٭اپنے تجسس کا پیچھا کرو اور اسے ہمیشہ زندہ رکھو

٭استقامت ایک ایسی نعمت ہے جس کا کوئی بدل نہیں٭حال پر نظر رکھو کہ سارے زمانے اسی میں ہیں٭تصور اور تخیل طاقت اور ترقی کا سرچشمہ ہیں

٭غلطیاں کرنا سیکھو٭ لمحہ موجود میں زندہ رہنا سیکھو٭چیزوں کی قدر بڑھاؤ‘ قیمت نہیں

٭اپنے لیے دوسروں سے مختلف نتائج کی تمنا سے بچو

٭علم تجربے سے آتا ہے

٭کھیل کے اصولوں کو اچھی طرح سے سمجھو کہ اسی سے تم بہتر کھلاڑی بن سکتے ہو۔

کالم کی تنگی داماں کا تقاضا ہے کہ یہاں بریک لگا دی جائے یوں بھی ایک وقت میں ان سب باتوں کی روح میں اتر کر ان کو سمجھنا کوئی آسان کام نہیں کہ ہرجملہ اپنی جگہ پر ایک جہان معنی ہے البتہ کم و بیش اتنی ہی مزید باتیں ابھی صرف فواز نیاز کے بھجوائے ہوئے پیغامات میں باقی اور محفوظ ہیں جب کہ عمومی طور پر جمع شدہ خزانے کا تو کوئی حساب ہی نہیں، کوشش کروں گا کہ وقفے وقفے سے انھیں مل کر یاد کرنے کا ایسا ہی کوئی اہتمام ہوتا رہے کہ خالص سونا اور دانش کی باتیں کبھی پرانی نہیں ہوتیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے