کیا صرف مولوی انتہا پسند ہوتا ہے؟

انتہا پسندی کیا ہے؟ کیا یہ صرف وضع قطع کا نام ہے یا اس کا تعلق انسانی رویوں سے ہے؟

کیا صرف ایک مولوی ہی انتہا پسند ہو سکتا ہے ؟ کیا انتہا پسندی کی علامات میں کہیں لکھ دیا گیا ہے کہ جس کے سر پر ٹوپی ہو ، جو عمامہ باندھتا ہو ، جس کی شلوار ٹخنوں سے اوپر ہو ، جس مخلوط محفلوں کا رسیا نہ ہو ، جو کسی مدرسے کا طالب علم ہو، جو انگور کی بیٹی کے ذائقے سے نا آشنا ہو بس وہی ہے جو انتہا پسند ہو سکتا ہے ؟

کیا ایک ایسا شخص انتہا پسند نہیں ہو سکتا جو کلین شیو ہو، جینز پہنتا ہو ، خود کو سیکولر کہتا ہو، سوٹ زیب تن کرتا ہو، تائی لگاتا ہو، کلب میں جاتا ہو ، ویلنٹائن ڈے پورے اہتمام سے مناتا ہو ، مسجد میں بھی جس کا کم کم ہی آتا ہو اور جو شراب ہی نہیں خنزیر کے گوشت کے ذائقے پر بھی سیر حاصل گفتگو فرما سکتا ہو؟

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ نیوز چینلز جائیں اور آسمان سے تارے توڑ کر لائیں ۔ ان کا حکم یہ بھی نہیں تھا کہ تمام نیوز چینلز فرہاد بن جائیں اور زہد و تقوی کی نہریں کھود ڈالیں ۔ بس اتنا ہی کہا تھا کہ دن میں پانچ مرتبہ اذان نشر کی جائے اور ایسے پروگرام بند کیے جائیں جو رمضان کے احترام کے تقاجوں کے منافی ہوں ۔ کتنے ہیں جنہوں نے اس حکم کی تعمیل کی؟

چند روز قبل پیمرا کو تنبیہہ کرنا پڑی کہ ٹی وی چینلز اذان نشر کرنے کے عدالتی حکم کی تعمیل کریں ۔اور آج جس وقت میں یہ سطور لکھ رہا ہوں اسلام آباد ہائی کورٹ برادرم وقاص ملک کی توہین عدالت کی درخواست سن رہی ہے کہ عدالت نے میڈیا کو پانچ بار اذان نشر کرنے کا حکم دیا اور یہ حکم آزاد میڈیا نے پامال کر دیا ۔ یہ ایک واقعہ بتا رہا ہے کہ چینلز کی زمام کار جن کے ہاتھ میں ان کی نفسیاتی گرہ کتنی شدید ہے ۔

یہ چینلز بلیو ایریا میں کھڑے سکندر کی تو گھنٹوں لائیو کوریج کرتے ہیں یہاں تک کہ ایک نیوز کاسٹر شدت اشتیاق سے چیخ پڑا تھا : دیکھیے ناظرین یہ ہمارے سامنے سکندر رفع حاجت کے لیے جھاڑیوں کا رخ کر رہا ہے۔ یہ مناظر صرف ہم آپ کو دکھا رہے ہیں ۔ اس طرح کی جملہ شعبدہ بازیوں کا وقت ہے لیکن اذان نشر نہیں کی جا سکتی بھلے توہین عدالت کی کارروائی ہی کا سامنا کیوں نہ کرنا پر جائے۔۔۔۔۔ مجھے بتائیے تو سہی انتہا پسندی اور کس بلاکا نام ہے؟

نیوز چینلز کو پاکستان میں جب لائسنس ملتا ہے تو اس کی کچھ ’’ ٹرمز اینڈ کنڈیشنز ‘‘ ہیں جو پیمرا آرڈی ننس کے آرٹیکل 20 میں طے کر دی گئی ہیں ۔ اس میں کہا گیا ہے کہ جس شخص کو نیوز چینل کا لائسنس دیا گیا وہ اس بات کا پابند ہو گا کہ فحاشی و عریانی ، بے ہودگی یا کوئی ایسی چیز نشر نہیں کرے گا جو معاشرے کی عمومی اخلاقیات سے فروتر ہو۔ یہ شرائط اب کوئی یاد دلائے تو کہا جاتا ہے ہم نے تو یہی دکھنا ہے تم زیادہ حاجی ہو تو ٹی وی نہ دیکھو۔ کیا یہ رویہ انتہا پسندی نہیں ہے؟

اسی آرٹیکل میں کہا گیا کہ کوئی ایسا پروگرام نشر نہیں ہو گا جس میں تشدد، فرقہ واردیت ، انتہا پسندی اور نفرت پر مبنی مواد شامل ہو ۔ یہاں کسی ٹاک شو میں مہمان دوسرے کو تھپڑ جڑ جائے تو اس کی باقاعدہ خبرنامے میں بھی بار بار تشہیر کی جاتی ہے اور بظاہررونی صورت بنا کر ناظرین کو بتایا جاتا ہے کہ دیکھیے ہمارے شو میں یہ ہو گیا ۔ کیا یہ رویہ انتہا پسندی نہیں؟

بعض اوقات احباب کندھے اچکا کر پوچھتے ہیں کہ یہ روزنامہ 92 نیوز ہر روز مذہبی صفحہ کیوں شائع کرتا ہے ؟ احباب اسے گاہے مذہبی شدت پسندی کا نام دیتے تو گاہے ملائیت کا ۔ لیکن ان کی توجہ اس جانب مبذول کرائی جائے کہ جناب اخبارات میں سالوں سے شوبز کا صفحہ روز شائع ہوتا ہے کیا کببھی آپ نے اس پر بھی اعتراض کیا تو وہ آپ پر شدت پسندی کی پھبتی کس دیتے ہیں ۔ کیا یہ رویہ بذات کود انتہا پسندی نہیں؟

آپ کسی محفل میں انگریزی بولیے۔ تلفظ اور ادائیگی درست نہ ہو تو لوگ آپ کا مذاق اڑائیں گے ۔ مجھے یاد ہے جب میں انگریزی ادب کا طالب علم تھا تو لنگوئسٹکس کی کلاس میں استاد محترم منہ کے آگے کاغذ رکھ کر آوازیں نکالتے تھے کہ فلاں انگریزی آواز اس طرح ادا ہو گی ۔ تب حیرت سے میں سوچتا کہ زبان اگر اظہار کا ایک وسیلہ ہے تو پھر یہ فضول کی مشق کیوں ؟ ایک دفعہ سوال پوچھ لیا تو جواب ملا انگریزی ایسے بولنی چاہیے جیسے انگریز بولتا ہے ۔

میں نے عرض کی کہ جس یونیورسٹی میں ہم بیٹھے ہیں اس کا سربراہ عرب ہے اور اس کی ابھی تک ’’ ڈی‘‘ اور ’’ ٹی‘‘ ٹھیک نہیں ۔ وہ ڈے کو دے اور ٹرم کو ترم بولتا ہے۔ اس کا کیا کیا جائے۔ جواب میں ایک طنزیہ مسکراہٹ کے سوا کچھ نہ تھا ۔ انگریزی آنی چاہیے ضروری نہیں کہ لہجہ بھی انگریز جیسا ہو۔ انگریز ہمارے لہجے میں اردو نہیں بول سکتا اور عرب انگریزکے لہجے میں انگریزی نہیں بول سکتا تو یہ فضول کی مشقت کیوں اٹھائی جا رہی ہے ۔ ان اعتراضات کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا ۔آج بھی لہجے کی نقالی تہذیب یافتہ ہونے کی علامت ہے ۔ لیکن اسی اہتمام سے کوئی عربی بول لے اور رمضان کو رمدان کہہ لے تو سیکولر لابی اس کا مذاق اڑانا شروع کر دیتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ بھی ایک انتہاپسندانہ رویہ نہیں؟

ٹاک شوز کا جو عمومی ماحول ہے وہ ایسا ہی ہے جیسا نور پور تھل میں ملک نور خان بٹیرے لڑا رہا ہو ۔ گالی، تضحیک ، دشنام اور حتی کہ ہاتھا پائی ۔ جس شو میں یہ واردات ہو جائے اس کا صرف اینکر ہی نہیں پورا چینل اس چوہے کی طرح سینہ پھلا کر چلتا ہے جس نے پوچھنے پر بتایا تھا کہ شیر کا قتل ہو گیا اور ایف آئی آر میں چونکہ میرا نام بھی ہے ۔ اس لیے چوڑا ہو کر پھر رہا ہوں ۔ کیا ان رویوں کا فروغ اور مکالمے کے روایتی کلچر کو تباہ کرنا بذات خود انتہا پسندی نہیں؟

ہمارے ہاں سیکولر لابی دستور کے احترام کی بہت بات کرتی ہے۔ اور جمہوری رویوں کی مالا چبتی ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ قرارداد مقاصد کی تذلیل کرتی ہے جو خالص جمہوری عمل کے نتیجے میں وجود میں آئی ۔ آئین کے احترام کا درس دیا جاتا ہے لیکن آئین کی اسلامی شقوں کا تمسخر اڑایا جاتا ہے۔ بھاشن دیے جاتے ہیں کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا یہ بات نہیں مانی جاتی کہ آرٹیکل 2 کے تحت ریاست کا مذہب اسلام ہو گا ۔ کیا یہ رویہ بھی اپنی نوعیت کی بدترین انتہا پسندی نہیں؟

آئین ایک عہد اجتماعی ہے جس جس نے اسے پامال کیا ، اس سے یاان کی اولاد سے پوچھ لیجیے۔ کیا وہ اس کی مذمت کرتے ہیں ۔ گوہر ایوب سے پوچھیے، برادرم اعجازلحق سے سوال کیجیے اور خود جناب پرویز مشرف کو زحمت دیجیے ۔ کیا کسی کو اس پر ندامت ہے؟ اگر نہیں ہے تو پھر بتائیے تو سہی انتہا پسندی اور کیا ہوتی ہے؟

اہل اقتدار کا نامہ اعمال تعفن دے رہا ہے لیکن کیا ان میں سے کوئی ایک یہ حقیقت تسلیم کرنے کو تیار ہے؟ کیا ہر رہنما کے حصے کے بے وقوف اپنے رہنما کی ہر حرکت کا دل و جان سے دفاع فریضہ سمجھ کر نہیں کرتے؟ کیا یہ رویہ انتہا پسندی نہیں؟

مذہبی انتہا پسندی ایک حقیقت ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ صرف مولوی انتہا پسند نہیں ہوتا۔ انتہا پسندی کا تعلق وضع قطع سے نہیں رویوں سے ہے اور ہم سب کے رویے ناتراشیدہ ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے