سیاستدان ایسی کتاب لکھتا تو غداری کے فتوے لگ رہے ہوتے: رضا ربانی

سینیٹ کے سابق چیئرمین اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی نے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کی انڈین خفیہ ادارے را کے سابق سربراہ کے ساتھ مل کر کتاب لکھنے کے اقدام کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

’سپائی کرانیکلز:را، آئی ایس آئی اینڈ الوژن آف پیس’ نامی یہ کتاب پاکستان کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی اور انڈین خفیہ ادارے ’را‘ کے سابق سربراہ اے ایس دولت کی باہمی مکالموں پر مبنی ہے۔

جمعے کو سینیٹ کے اجلاس میں نکتۂ اعتراض پر بات کرتے ہوئے رضا ربانی کا کہنا تھا کہ اگر یہ کتاب کسی عام شہری یا پاکستانی سیاستدان نے اپنے بھارتی ہم منصب کے ساتھ مل کر لکھی ہوتی تو آسمان سر پر اُٹھا لیا جاتا۔

اُنھوں نے کہا کہ کتاب لکھنے والے سیاستدان پر نہ صرف غداری کے فتوے لگ رہے ہوتے بلکہ اس کے خلاف پورے ملک میں احتجاج کا نہ رکنے والا سلسلہ بھی شروع ہو جاتا۔

نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق رضا ربانی کا کہنا تھا کہ حیرت کی بات ہے کہ ایک طرف انڈیا اور پاکستان کے تعلقات خراب ترین سطح پر ہیں جبکہ دوسری طرف ایک ایسی کتاب کی رونمائی ہو رہی ہے جو دونوں ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے سابق سربراہوں نے لکھی ہے۔

اُنھوں نے سوال اُٹھایا کہ کیا لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی نے اپنے ادارے یا وفاقی حکومت سے اس بات کی اجازت لی تھی کہ وہ اپنے انڈین ہم منصب کے ساتھ مل کر کتاب لکھ رہے ہیں؟

رضا ربانی کا کہنا تھا کہ اگر آئی ایس آئی کے سابق سربراہ نے اجازت لینا ضروری نہیں سمجھا تو کیا اُنھوں نے اس کتاب کے بارے میں وفاقی حکومت یا وزارت دفاع کو آگاہ کیا تھا؟

سینیٹ کے سابق چیئرمین کا کہنا تھا کہ یہ کوئی آسان معاملہ نہیں ہے کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان خراب تعلقات کی ایک تاریخ ہے۔

سینیٹ کے چیئرمین کے استفسار پر وزیر قانون محمود بشیر ورک کا کہنا تھا کہ اُنھیں اس کتاب کی اشاعت کے بارے میں حکومت سے اجازت لینے کے بارے میں علم نہیں ہے۔

رضا ربانی نے سوال اُٹھایا کہ کیا اسد درانی نے اپنے ادارے یا وفاقی حکومت سے یہ کتاب لکھنے کی اجازت لی تھی
سینیٹ کے چیئرمین نے وزیر دفاع سے اس بارے میں جواب طلب کر لیا ہے۔

دوسری طرف سابق وزیر اعظم اور حکمراں جماعت کے قائد نواز شریف نے لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کی اس کتاب پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔

جمعے کے روز احتساب عدالت میں میڈیا کے نمائندوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ اگر ممبئی حملوں سے متعلق ان کی طرف سے دیے گئے بیان پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا جا سکتا ہے تو پھر ایک ریٹائرڈ جنرل کی کتاب پر کیوں اجلاس نہیں بلایا جا سکتا؟

واضح رہے کہ فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی سنہ 1990 کی دہائی میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) کی تشکیل کے مقدمے میں بھی ملوث ہیں جس میں اُنھوں نے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف سمیت دیگر سیاست دانوں کو بھاری رقوم دینے کا اعتراف کیا تھا۔

میاں نواز شریف نے کہا کہ ایک کمیشن بنایا جائے جو ملکی تاریخ میں اہمیت رکھنے والے تمام واقعات کا جائزہ لے کر حقائق کو سامنے آئے۔ اُنھوں نے کہا کہ اگر آج کمیشن نہ بنا تو مستقبل قریب میں ضرور کمیشن بنے گا۔

نواز شریف کا کہنا تھا کہ کمیشن بلوچستان میں منتخب حکومت کا تختہ الٹنے اور سینیٹ کے چیئرمین کے انتخابات کا بھی جائزہ لے۔

اُنھوں نے کہا کہ موجودہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے جس طرح دس ماہ کا عرصہ گزارا ہے یہ انھی کی ہمت ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ اس ملک میں دو دو تین حکومتیں چل رہی ہیں جو دنیا میں کہیں بھی نہیں ہوتا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے