تبت میں پہلے دو دن

ہم نے جوکنگ ٹمپل سے اسٹارٹ لیا‘بیرونی دیوار کے ساتھ بودھ عورتیں اور مرد عبادت کر رہے تھے‘ یہ سیدھے کھڑے ہوتے‘ ہاتھ جوڑتے‘ سر کے اوپر خلاء میں لہراتے‘ ہاتھ‘ منہ اور سینے سے ٹکراتے‘ منہ کے بل لیٹ جاتے‘ ہاتھ جوڑ کر آگے بڑھاتے‘ ہاتھ کھول کر نیم دائرے میں اپنے پہلوؤں کے ساتھ لگاتے اور پھر اٹھ کھڑے ہوتے۔

زائرین نے ہاتھوں کو رگڑ سے بچانے کیلیے زمین پر لکڑی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے رکھے ہوئے تھے‘ یہ لیٹنے کے بعد یہ ٹکڑے پکڑ لیتے تھے‘ لکڑی کے گھسٹنے کی آواز ایک ردھم سا پیدا کرتی تھی اور یہ ردھم سیکڑوں آوازیں بن کر ماحول میں گونج پیدا کر دیتا تھا‘ مرکزی گیٹ کے ساتھ درجنوں عورتیں اور مرد بیٹھے تھے‘ ان لوگوں نے جالی کے ساتھ عنابی رنگ کی تھیلا نما چادریں باندھ رکھی تھیں۔

یہ لوگ تھیلے کے اندر بیٹھ کر دال جتنے پتھروں سے برتن مانجھ رہے تھے اور منہ ہی منہ میں بدبدا رہے تھے‘ گائیڈ نے بتایا یہ برتن مانجھتے ہوئے خود کو بتا رہے ہیں دنیا میں کوئی چیز مستقل نہیں ہوتی‘ جوکنگ ٹمپل 1959ء کے قبضے کے بعد چینی فوج کے کنٹرول میں چلا گیا ‘ فوج نے یہاں سور پالنا شروع کر دیے‘ چین میں 1980ء میں تبدیلی آئی‘ حکومت نے سخت پالیسی کی گانٹھ ڈھیلی کی‘ بودھوں کے عمائدین نے چینی صدر کو جوکنگ ٹمپل کے بارے میں بتایا اور حکومت نے ٹمپل ان کے حوالے کر دیا‘ بودھوں نے تزئین و آرائش کی۔
حکومت نے 1985ء میں لہاسا کو غیر ملکی سیاحوں کیلیے کھول دیا اور یوں دنیا جہاں سے بودھ زائرین جوکنگ ٹمپل کی زیارت کیلیے آنے لگے‘ مرکزی گیٹ کے اندر ٹمپل کا صحن تھا‘ صحن کے بائیں ہاتھ پر دلائی لامہ کا تخت پڑا تھا‘ دلائی لامہ اس تخت پر بیٹھ کر بھکشوؤں کی تقریریں سنتے تھے اور جس کی منطق سے متاثر ہو جاتے تھے وہ اس کے سر پرلامہ کی دستار فضیلت باندھ دیتے تھے‘ ٹمپل کی چھت پر دلائی لامہ کا بیڈروم بھی تھا‘ بھکشوؤں کی بحث کئی کئی دن چلتی تھی چنانچہ دلائی لامہ بحث کے اختتام تک ٹمپل میں رہتے تھے‘ صحن کے ساتھ ٹمپل کا مرکزی ہال تھا‘ اندر دیسی گھی کے چراغ جل رہے تھے۔

چراغوں کی بو صدیوں کی مہک کے ساتھ مل کر ماحول کو خواب ناک بنا رہی تھی‘ دائیں بائیں دیواروں کے ساتھ الماریاں تھیں اور الماریوں میں مہاتما بودھ کے چھوٹے بڑے سیکڑوں مجسمے تھے‘ ہر مجسمہ کروڑوں بلکہ اربوں روپے مالیت کا تھا‘ ان میں ایک بت پاکستانی بھی تھا‘ یہ قد آدم بت تھا اور یہ شاید ٹیکسلا سے تبت پہنچا تھا‘ بودھ کا بارہ سال کا بت عمارت کے مرکزی ہال میں الگ کمرے میں رکھا تھا۔

زائرین قطار بنا کر اندر جا رہے تھے‘ بت کو سجدہ کر رہے تھے اور باہر آ رہے تھے‘ غیر ملکی اس کمرے میں داخل نہیں ہو سکتے تھے چنانچہ ہم نے دور سے بت کو دیکھا‘ بت سونے کا تھا یا پھر اس پر سونا چڑھایا گیا تھا یہ معلوم نہیں ہو سکا تاہم وہ خوبصورت ضرور تھا‘ ہال کے مرکز میں سو سے زائد بھکشو بیٹھے تھے‘ یہ ایک ردھم میں دعا پڑھ رہے تھے اور دعا کے آخر میں کانسی کی پلیٹیں رگڑکر دھمک پیدا کرتے تھے‘ زائرین جھک کر انھیں سلام بھی کر رہے تھے۔

ہم ٹمپل کی چھت پر آ گئے‘ چھت پر شیروں کے مجسمے تھے‘ سووینئرشاپ تھی‘ دلائی لامہ کا مقفل بیڈ روم تھا‘ دھوپ تھی اور تصویریں اترواتے سیاح تھے‘ ہم بہت جلد بور ہو کر ٹمپل سے باہر آ گئے‘ لوگ باہر ٹمپل کا طواف کر رہے تھے‘ یہ گلیوں میں ٹمپل کے گرد چکر لگا رہے تھے‘ ہم بھی ان لوگوں میں شامل ہو گئے‘ گلی ڈیڑھ ہزار سال پرانی تھی‘ ان ڈیڑھ ہزار برسوں میں کروڑوں لوگ یہاں آئے ہوں گے اور ان کروڑوں لوگوں نے اس میڈیم سرکل میں طواف کیا ہو گا‘ میں یہ سوچتا جاتا تھا اور زائرین کے ساتھ چلتا جاتا تھا‘ ان سب کے ہاتھوں میں تسبیح تھی‘ وہ سب مہاتما بودھ کی تسبیح کر رہے تھے اور میں اپنی تسبیح پر اصل خالق کائنات کا شکر ادا کرتا جا رہا تھا۔

ہماری اگلی منزل ’’پوٹالہ پیلس‘‘ تھی‘ یہ جوکنگ ٹمپل کے بعد بودھوں کی مقدس ترین زیارت گاہ تھا‘ یہ محل شہر کے آخر میں پہاڑی پر قائم ہے‘ یہ دور سے دکھائی دیتا ہے‘ یہ ایک سوسولہ میٹر بلند تیرہ منزلہ عمارت ہے‘ 9 منزلیں سفید ہیں اور چار سرخ‘ سفید منزلوں میں کبھی تبت حکومت کے سرکاری اہلکار بیٹھا کرتے تھے‘ یہ منزلیں 50 سال سے بند ہیں جب کہ چار سرخ منزلوں میں دلائی لامہ رہتے تھے۔

دلائی لاموں کے سٹوپا اور استعمال کی چیزیں انھی چاروں منزلوں میں رکھی ہیں‘ عمارت کے ہزار کمرے اور ہزار کھڑکیاں ہیں‘ پتھریلی سیڑھیاں تہہ در تہہ اوپر جاتی ہیں‘ عمارت پتھر اور لکڑی سے بنائی گئی ہے‘ مرکزی دروازے کے اندر چار بادشاہوں کے بت ہیں‘ دو دائیں اوردو بائیں‘ یہ چاروں بت عمارت کے محافظ ہیں‘ بودھوں کا عقیدہ ہے یہ چاروں بادشاہ اس محل کو نقصان پہنچانے والوں کو نابود کر دیتے ہیں‘ چین نے قبضے کے بعد اس محل کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچایا ‘ یہ اب عالمی اثاثہ ہے۔

محل کے مختلف کمروں میں مختلف دلائی لامہ بیٹھتے اور قیام کرتے تھے‘ ان کے سونے‘ چاندی اور جواہرات سے بنے سٹوپا بھی موجود ہیں اور بت بھی‘ بھکشو بتوں کے سامنے بیٹھ کر دعائیں پڑھ رہے تھے‘ بودھوں کی مقدس کتاب کی جلدیں الماریوں میں لگی تھیں‘ زائرین الماریوں کو ہاتھ لگا کر چوم رہے تھے‘ بودھوں کی مزید دو روایتیں بھی دلچسپ ہیں‘ یہ سونے یا پیتل کے ڈرم میں کتاب کے صفحات رکھ دیتے ہیں‘ یہ ڈرم گراریوں میں فٹ کر دیے جاتے ہیں‘ زائرین انھیں گھماتے جاتے ہیں اور چلتے جاتے ہیں۔

یہ اسی قسم کا ایک چھوٹا سا جھنجھنا لے کر بھی پھرتے رہتے ہیں‘ یہ جھنجھنا اور یہ گھومتے ہوئے ڈرم ان کیلیے برکت کی حیثیت رکھتے ہیں‘ ہمیں یہ ڈرم ان کی تمام عبادت گاہوں میں دکھائی دیے‘ ایک قطار میں دس دس‘ بیس بیس ڈرم نصب تھے اور لوگ انھیں گھماتے چلے جا رہے تھے‘ پوٹالہ پیلس میں مختلف دلائی لاماز کے ڈرائنگ رومز اور مختلف ممالک کے وزراء اور سفراء سے ملاقات کے کمرے بھی تھے‘ دلائی لاماز کے استعمال کی چیزیں بھی وہاں رکھی تھیں۔

محل اندر سے تہہ در تہہ تھا‘ زائرین اندر آتے جاتے تھے اور مختلف کمروں اور دروازوں سے گزرتے جاتے تھے‘ محل کی زیارت کیلیے سیاحوں کی تعداد مخصوص تھی‘ ایک وقت میں خاص تعداد سے زائد سیاحوں کو داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی‘ میں نے وجہ پوچھی ‘ گائیڈ نے بتایا‘ محل خستہ ہو چکا ہے‘ یہ زیادہ لوگوں کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا‘ محل سے باہر نکلنے کا راستہ بیک سائیڈ پر تھا‘ محل کی پشت پر بھی تہہ در تہہ سیڑھیاں تھیں اور سیڑھیوں کے قدموں میں شہر بکھرا ہوا تھا‘ شہر وہاں سے خوبصورت دکھائی دیتا تھا‘ اوپر نیلا آسمان تھااور نیلے آسمان کے کنارے سے سفید عمارتیں شروع ہوجاتی تھیں اور یہ عمارتیں ایک دوسرے سے رگڑ کھاتی ہوئی محل کی دیوار تک آ جاتی تھیں‘ یہ ایک مبہوت کر دینے والا نظارہ تھا۔

ہماری اگلی منزل دروپنگ (Drepung) مونیسٹری تھی‘ یہ درس گاہ شہر سے باہر خشک پہاڑوں کے درمیان تھی‘ یہ پانچویں دلائی لامہ تک دلائی لاموں کی رہائش گاہ بھی ہوتی تھی‘ دلائی لامہ کا محل ابھی تک درس گاہ میں موجود ہے‘ پہاڑی کاٹ کر سیڑھیاں بنائی گئی ہیں اور سیڑھیوں کے ساتھ ساتھ پتھروں‘ اینٹوں اور پرانی لکڑی کی درجنوں عمارتیں ہیں‘ یہ تمام عمارتیں بھکشوؤں کے کلاس رومز اور رہائش گاہیں ہیں‘ میٹنگ ہال مرکز میں ہے۔

بھکشو اور لامہ اپنے دن کا آغاز اس میٹنگ روم میں عبادت سے کرتے ہیں‘ میٹنگ روم کے ستونوں پر کپڑا چڑھا تھا‘ فرش پر قالین بچھا تھا‘ قالین پر لکڑی کی چوکیاں تھیں اور چوکیوں پر بھکشوؤں کے عنابی رنگ کے گاؤن تھے‘ بھکشو عبادت سے قبل یہ گاؤن پہن لیتے تھے‘ یہ ماضی میں تبت کی سب سے بڑی درس گاہ ہوتی تھی‘ دس ہزار بھکشو یہاں تعلیم پاتے تھے‘ دلائی لامہ 1959ء میں بھارت جاتے وقت اس مونیسٹری کے اساتذہ اور کتابیں ساتھ لے گئے‘ انھوں نے اس مونیسٹری کی شاخ وہاں بھی قائم کر دی چنانچہ اب بھارت میں زیادہ بھکشو ہیں۔

ہمیں درسگاہ کا کچن دیکھنے کا اتفاق بھی ہوا‘ کچن میں دیسی گھی سے کھانا تیار ہو رہا تھا‘ یہ دیسی گھی زائرین سپلائی کرتے ہیں‘ یہ گھی گرم کر کے تھرماس میں درسگاہ میں لاتے ہیں‘ بھکشوؤں نے جگہ جگہ ٹب رکھے ہوئے ہیں‘ لوگ گھی ان ٹبوں میں انڈیل دیتے ہیں‘ یہ گھی بعد ازاں چراغ جلانے کے کام بھی آتا ہے اور کھانا بنانے کے بھی‘ مجھے زیادہ تر بھکشوؤں کے ہاتھوں اور جسموں سے دیسی گھی کی بو آ رہی تھی‘ دروپنگ کے بعد سیرا مونیسٹری ہماری اگلی منزل تھی‘ یہ بھی بودھوں کی قدیم مونیسٹری ہے۔

یہ 1419ء میں بنی تھی‘ ایریا سوا لاکھ مربع میٹر ہے‘ درس گاہ کے اندر تین کالج ہیں‘ دلائی لامہ نے بھارت میں اس مونیسٹری کی شاخیں بھی قائم کر دی ہیں‘ درسگاہ میں 8 سے 70 سال کے بھکشوؤں کو تعلیم دی جاتی ہے‘ پروگرام کی مدت کم از کم بیس سال ہوتی ہے‘ بھکشو بیس سال مونیسٹری میں رہتے ہیں‘ مہاتما بودھ نے پوری زندگی لگا کر اپنے سولہ شاگرد تیار کیے تھے‘ سیرا مونیسٹری کے میٹنگ ہال میں ان تمام کے بت موجود ہیں‘ درس گاہ میں ’’محافظ گھوڑا‘‘ بھی ہے‘ یہ گھوڑے کا بت ہے‘ بودھوں کا عقیدہ ہے گھوڑے کا یہ بت مونیسٹری کی حفاظت کر رہا ہے۔

سیرامونیسٹری کا اصل کمال بودھ بھکشوؤں کی بحث ہے‘ روز دوپہر تین بجے بھکشو میدان میں جمع ہوتے ہیں اور ان کے درمیان منطق کا مقابلہ ہوتا ہے‘ ایک بھکشو زمین پر گدی بچھا کر بیٹھ جاتا ہے‘ دوسرا اس کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے‘ کھڑا بھکشو سوال کرتا ہے اور بیٹھا ہوا بھکشو منطق کے ذریعے جواب دیتا ہے‘ یہ اگر جواب سے مطمئن ہو جائے تو یہ سیدھے ہاتھ پر الٹا ہاتھ مار کر جواب پر اطمینان کا اظہار کر دیتا ہے ورنہ دوسری صورت میں یہ سیدھے ہاتھ پر سیدھا ہاتھ مار کر عدم اطمینان کا اعلان کر دیتا ہے۔

ہم نے لاجک کا یہ مظاہرہ بھی دیکھا‘ گراؤنڈ میں دو تین سو بھکشو ایک دوسرے کے ساتھ لاجک کا کھیل کھیل رہے تھے‘ فضا ان کی تالیوں سے گونج رہی تھی اور سیاح موبائل فونز سے ان کی تصویریں اور فلمیں بنا رہے تھے‘ یہ ایک حیران کن کھیل تھا‘ لاجک کا کھیل جس میں بھکشو اپنے ہونے کو بھی منطق کے ذریعے ثابت کرتے ہیں لیکن دوسرا ان کے وجود کو تسلیم نہیں کرتا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے