تحریک انصاف کے ”الیکٹیبلز“

مجھے یقین ہے کہ اس کالم کے باقاعدہ قارئین کی اکثریت کو میرے بیان پر اعتبار نہیں آئے گا۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے میں 2018ء کے انتخابات میں عمران خان اور ان کی تحریک انصاف کو مناسب اکثریت کے ساتھ جیتتے ہوئے دیکھنے کا خواہش مند ہوں۔ یہ خواہش ”اب پتہ چلا؟“ والی کمینگی پر مشتمل نہیں ہے۔ پورے خلوص سے سوچتا ہوں کہ شاید مذکورہ کامیابی کی بدولت وطنِ عزیز میں کچھ نیا دیکھنے کو ملے۔ 1985 سے 2002 تک اس ملک میں ہوئے ہر انتخاب کو دور دراز قصبوں کی گلیوں کی خاک چھانتے ہوئے دیکھنے کا تجربہ ہوا۔ اس سے قبل اندرا گاندھی کے قتل کے بعد بھارت کے 1984 میں ہوئے عام انتخابات کو ٹرین کے تیسرے درجے میں بیٹھ کر رپورٹ کرنے کا موقع نصیب ہوا تھا۔ برسوں تک پھیلی مشق نے انتخابی حرکیات سے مناسب حد تک متعارف کروا دیا۔ اس مشق سے نچوڑے معیار کی بنیاد پر پاکستان کے موجودہ انتخابی منظر نامے پر جب بھی منطقی انداز میں غور کروں تو تحریک انصاف کے بارے میں اس کالم کی ابتداءمیں بیان کردہ میری خواہش پوری ہوتی نظر نہیں آرہی۔

لاطینی امریکہ کا مگر ایک بہت ہی تخلیقی مفکر تھا Bono۔اس نے Lateral Thinkingکاتصور متعارف کروایا تھا۔ مشاہدے اور تجزیے کی صلاحیتوں کو انقلابی انداز میں استعمال کرنے والے اس مفکر کا اصرار تھا کہ لوگوں کی اکثریت اپنے گرد بہت تیزی اور شدت سے ابھرتی نئی حقیقتوں کو اس لئے نہیں سمجھ پاتی کیونکہ وہ Path Dependentہوتی ہے۔ کئی نسلوں سے ایک مخصوص ڈگر پر سوچنے کی عادی۔ روزمرہّ زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی تگ ودو میں مصروف لوگ یہ سوچ ہی نہیں پاتے کہ ذہن انسانی میں نئی منزلیں دریافت کرنے کے بے پناہ امکانات موجود ہوتے ہیں۔ ان منازل کو لیکن صدیوں سے طے شدہ ڈگر پر چلتے ہوئے دریافت نہیں کیا جا سکتا۔ نئی ڈگر نظر بھی آجائے تو اس پر پاﺅں رکھنے سے خوف آتا ہے۔کفار مکہ کو جب بتایا گیا کہ ان کے ہاتھوں سے تراشے ہوئے بت ان کی عبادت کے لائق نہیں۔ دیوہیکل مگر بھاری پتھر کی طرح ساکت یہ مجسمے ان کا مقدر بگاڑنے یا سنوارنے کی قوت نہیں رکھتے۔ اس پیغام کے جواب میں وہ حیران ہوجاتے اور عادتاَ جواب دیتے کہ ہمارے آباﺅ اجداد ان ہی بتوں کی پرستش کرتے چلے آرہے ہیں۔ ”کیا وہ دیوانے تھے؟“ کفار مکہ کا یہ رویہ Path Dependencyکے تصور کو بآسانی سمجھنے میں مدد گار ثابت ہوسکتا ہے۔

بہرحال 1985 سے 2002 کے انتخابات کے قریبی مشاہدے سے نچوڑے تجربات کا غلام ہوا میرا ذہن اکثر یہ بھی سوچتا ہے کہ شاید میں تحریک انصاف کے امکانات کو اپنی Path Dependencyکی وجہ سے صاف انداز میں دیکھ نہیں پا رہا۔ دو روز قبل اسی سوچ میں غرق تھا کہ ایک موقر معاصر میں منصور آفاق صاحب کا کالم پڑھا میں انہیں ہرگز نہیں جانتا۔ مجھے خبر نہیں کہ وہ برسوں کی رپورٹنگ کے تجربات سے گزرنے کے بعد میری طرح کالم نویسی کے شعبے میں در آئے ہیں یا ان کی کالم نویسی کا باعث کسی اور شعبے میں مہارت ہے۔ وہ شعبہ کیا ہے مجھے اس کا علم نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنے کالم میں 100 کے قریب قومی اسمبلی کے حلقوں کا ذکر کیا اور ان کے لئے تحریک انصاف کی جانب سے متوقع امیدواروں کے نام بھی بتا دئیے۔ یہ سب نام ہماری انتخابی سیاست میں ناقابلِ تسخیر Electables شمار ہوتے ہیں۔ ان کی شکست کا تصور محال ہے۔ منصور آفاق صاحب کے کالم کو لہذا اشتیاق سے دوبار پڑھا اور دل کو تسلی ہوگئی کہ اس کالم کی ابتداء میں بیان کردہ میری خواہش کی تکمیل کے امکانات روشن ہوچکے ہیں۔ انسانی دلوں میں شیطان مگر وسوسے ڈالتا رہتا ہے۔ فارغ انسان کا ذہن ویسے بھی شیطان کی ورکشاپ بتایا جاتا ہے۔

ویک اینڈ تھا۔ ان دنوں ٹویٹر اور فیس بک بھی نہیں دیکھتا۔ گرمی شدید تھی۔ دل اُکتایا ہوا تھا۔ کتاب پڑھنے کی طرف مائل نہ ہوا۔ ریموٹ اٹھا کر ACکے ٹمپریچر کو بڑھاتا اور کم کرتا رہا۔ کمرے میں ٹھنڈک زیادہ ہوجاتی تو چھینکیں شروع ہوجاتیں۔ ان سے گھبرا کر ٹمپریچر بڑھاتا تو ہوا لو جیسی محسوس ہوتی۔ آفاق صاحب کا کالم ذہن میں رہا۔ اسے پڑھتے ہوئے جو اطمینان ہوا تھا وسوسوں کی نذر ہونا شروع ہو گیا۔ Electables کی فہرست پر غور کیا تو لودھراں یاد آگیا۔ تحریک انصاف کے جہانگیر ترین صاحب کی سپریم کورٹ کے ہاتھوں تاحیات نااہلی کے بعد وہاں ایک ضمنی انتخاب ہوا تھا۔جہانگیر صاحب کے فرزند وہاں سے امیدوار تھے۔ نون کے لاحقے والی مسلم لیگ نے قومی سطح کے لئے نسبتاَ ایک اجنبی شخص کو ٹکٹ دیا۔ وہ شخص جس کا نام غالباَ اقبال تھا حیران کن اکثریت کے ساتھ کامیاب ہوا۔ اس کامیابی نے نون کے لاحقے والی مسلم لیگ کے کئی جہاں دیدہ اور انتخابی سیاست کے ماہر شمار ہوتے رہ نماﺅں کو بھی حیران کردیا تھا۔ سوال میرے ذہن میں لودھراں کے ضمنی انتخاب کے نتیجے پر نگاہ رکھتے ہوئے یہ اُٹھ کھڑا ہوا کہ منصور آفاق صاحب کے بتائے ناموں کی فتح کو یقینی کیوں تصور کیا جائے۔

1988 کی انتخابی مہم کے دوران مجھے نوا بشاہ اور سانگھڑ کے اضلاع میں تین دن گزارنے کا موقع ملا تھا۔ غلام مصطفےٰ جتوئی ذاتی حوالوں سے میرے بہت مشفق بزرگ تھے۔ میں ان کی ”مہمان داری“ کو رد کرنے کی جرات سے محروم تھا۔ ان کی دی گاڑی اور ڈرائیور کے ساتھ حلقے میں گھوما تو تقریباً ہر شخص نے اعلان کیا کہ وہ اپنا ووٹ پیپلز پارٹی کو دے گا۔ شہروں میں بیٹھے مجھ ایسے ”دانشوروں“ کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھا دی گئی ہے کہ جنوبی پنجاب اور سندھ کے جاگیر دار بہت ”جابر“ ہوتے ہیں۔ ان کے حلقوں میں شہری نہیں رعایا بستی ہے یہ بے کس ہاری دل کی بات زبان پر نہیں لاتے۔ مجھے لیکن ہر سوال کا جواب بغیر لگی لپٹی لگائے دیا گیا۔ وہاں سے لوٹنے کے بعد بھی لیکن مجھے ہمت نہ ہوئی کہ The Nationکے لئے فیلڈ رپورٹنگ کرتے ہوئے غلام مصطفےٰ جتوئی کی شکست کا واضح طورپر اعلان کر دوں۔ منافقانہ انگریزی میں لکھا تو فقط اتنا کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی Wave بہت تگڑی ہے اور غلام مصطفےٰ جتوئی جیسے لوگ بھی اسکے مقابلے میں ڈٹے رہنے میں بہت دقت محسوس کررہے ہیں۔

پیر پگاڑا مرحوم کے زیر اثر گردانے حلقوں میں بھی ایسی ہی صورت حال دیکھنے کو ملی تھی۔ذات کا رپورٹر ہوتے ہوئے میری دیانت دارانہ رائے ہے کہ فیلڈ میں جائے بغیر 2018 کے انتخابات کے نتائج کے بارے میں پیش گوئی سے احتراز برتا جائے۔ فیلڈ میں جانے سے قبل ان سوالات کے بارے میں بھی ذہن کو صاف رکھنے کی شدید ضرورت ہے جن کے جوابات حلقوں کی خاک چھانتے ہوئے تلاش کرنا ہیں۔ میرے ذہن میں اس ضمن میں جو چند سوالات ہیں ان میں سے اہم ترین یہ ہے کہ عمران خان صاحب کا بنیادی پیغام ”تبدیلی“ تھا۔ ان کی ساری جدوجہد ان Electablesکے خلاف تھی جو ان کی دانست میں ”چوروں اور لٹیروں“ پر مشتمل اسمبلیوں میں رکنیت کی ”باریاں“ لیتے رہتے ہیں۔ اس پیغام کی بدولت عمران خان اور تحریک انصاف نے 2013کے انتخابات کے دوران ایم کیو ایم کا قلعہ تصور ہوتے کراچی میں حیران کن حد تک ووٹ لئے تھے۔ ڈاکٹر عارف علوی کی کامیابی اس پیغام کے موثر ہونے کا مظہر تھی۔ سوات سے مراد سعید کی نمو بھی ایسی ہی ایک مثال تھی۔ سوال اُٹھتا ہے کہ تحریک انصاف کے بیانیے سے متحرک ہوئے جس ووٹر نے 2013 میں چکوال کے سردار غلام عباس کو ووٹ نہیں دیا تھا اب کی بار اسی سردار کو محض اس وجہ سے ووٹ کیوں ڈالے گا کہ موصو ف نے بالآخر بنی گالہ میں حاضری دے کر خود کو ”مشرف بہ عمران“ کرلیا ہے؟ Path Dependencyکا مارا میرا وسوسوں بھرا ذہن اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کو بے چین ہے۔ کاش مجھے گھر کے ٹھنڈے کمرے سے باہر آنے کی ہمت عطا ہوجائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے