آئی ایس آئی اور راء کے سابق سربراہوں کی ملاقاتیں اورباتیں

کسی نے ٹھیک کہا ہے

؎ نکل جاتی ہے جس کے منہ سے سچّی بات مستی میں

فقیہہِ مصلحت بیں سے وہ رندِ بادہ خوار اچّھا
کل رات ٹی وی پر جنرل مشرف کے منہ سے ایک دو سچّی باتیں نکلی ہیں،انھوں نے درست کہاکہ ’’پوری قوم کو اس بات سے صدمہ ہو اہے کہ ہماری آئی ایس آئی کا (سابق) سربراہ دشمن ملک کی ایجنسی RAWکے سربراہ کے ساتھ ملکر کتاب لکھیّ‘‘ ہماری آئی ایس آئی کے ایک اور سربراہ (جنرل احسان)کو RAWکے سابق سربراہ سے بغلگیر ہو کر قہقہے لگاتے دیکھ کر بھی قوم کوکو ئی خوشی نہیںہوئی۔فوٹو میںاگر جنرل احسان کی جگہ کو ئی سیاستدان ہوتاتو اُس پر آتش و آہن برس رہے ہو تے اور وہ غداری کے الزام میں شائد گرفتار بھی ہو چکا ہوتا۔

پولیس اور آرمی کے کئی دوست،جوانٹیلی جنس ایجنسیوں میں کام کرتے رہے ہیں،بتاتے ہیںکہ کسی شخص (ٹارگٹ) سے راز یا حقائق اگلوانے کے لیے ناؤنوش اورساغر و مینا کا وافر بندوبست کیا جاتا ہے۔کثرتِ مے نوشی کے بعد انسان اپنا سینہ کھول دیتاہے اور وہ باتیں بھی اگل دیتاہے جو عام حا لات میں وہ اپنے قریبی دوستوں کے ساتھ بھی شیئر کر نا مناسب نہیں سمجھتا۔

نئی آنے والی کتاب”Spy Chronicales and Illusion of peace” سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اسد درانی اور ان کے بھارتی ہم منصب یعنی RAWکے سربراہ امرجیت سنگھ دلت کے افکا روخیالات پر مشتمل ہے جسمیں ایک بھارتی صحافی ادتیا سِنہا نے moderatorکا کردار اداکیا ہے۔اے ایس دلت بتاتے ہیں کہ’’ پہلی چند میٹنگوں میں ہم تین لوگ تھے، میں،وکرم شود (راء کے ایک اور سابق سربراہ ) اور جنر ل اسد درانی۔ ہم ان خوشگوار لمحات سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ جنر ل صاحب نے کہا ’’یہ میٹنگیں تو چلتی رہیں گی ہم تینوں کو بات چیت کے لیے بالکل علیحدہ بیٹھنا چایئے‘‘۔ ہم تینوں وسکی کے گلاس بھر کر علیحدہ بیٹھ گئے ۔جنرل درانی نے جو باتیں بتائیں اُسپر میں حیران رہ گیا،کیونکہ خفیہ اداروں والے آسانی سے اندر کی بات نہیں بتاتے۔ حتیٰ کہ (میرے کولیگ راء کے سابق سربراہ) وکی کو بھی جنرل صاحب کی صاف گوئی پر بڑی خوشگوارحیرت ہوئی۔ دوسری میٹنگ کے بعد وکرم یورپ چلا گیا اور ہم دونو ں رہ گئے، ہمارے درمیان ایک تعلق استوار ہو گیا۔

دُلت کہتاہے ’’ 2011میں اسلام آباد میں جب ہم نے جنرل درانی صاحب کی کار سے بلیک لیبل وسکی کی بوتل نکالی اور پینے کے لیے میرے کمرے میں آگئے تو انھوں نے کہا ’’ اگر ہمارے درمیان ایک سمجھوتہ طے پا جائے تو کیسارہے؟ یعنی کہ اگر ممبئی حملے جیسا واقعہ دوبارہ ہوتو ہمیں معلوم ہو کہ بھارت جوابی وار کریگا جسطرح کہ وزیر اعظم مودی نے سرجیکل اسٹرائیک کیا۔‘‘ یہ باتیں سن کر میری حیرانی کی انتہا نہ رہی کہ آئی ایس آئی کا ایک سابق سربراہ خود بھارت کی طرف سے سرجیکل اسٹرائیک کی تجویز دے رہا ہے۔

ہماری ملاقاتیں جاری رہیں۔پھر ہم استنبول میں اکٹھے ہوئے جہاں ایک سابق سفارتکا ر پیٹرجو نز نے تجویز دی کہ آپ دونوں مشترکہ طور پر کچھ لِکھّیں۔اس کے نتیجے میں کشمیر پیپر لکھاگیا‘‘۔ اس موقع پر سِنہا نے پوچھا کہ ایسی میٹنگوں یا مشترکہ پیپرز کا حکومتی یا عسکر ی حلقوں سے کیسا ردِ عمل آیا؟ دُرّانی صاحب نے جواب دیاNot a word’ ‘ (کسی نے ایک لفظ تک نہ کہا)میں نے راء کے سابق سربراہ کے ساتھ ملکر اسامہ بن لادن کی ہلاکت پر تجزیہ کیا جوہمارے سرکاری موقف سے مختلف ہے،اسپر بھی میری کبھی سرزنش نہیں کی گئی۔

کتاب میںجنر ل درانی نے وہ واقعہ بھی بتایا جس میں دلت صاحب نے جنر ل درانی کے بیٹے کی بھار ت میں مدد کی تھی۔ درانی صاحب بتاتے ہیں کہ’’ میرا بیٹا عثمان ایک جرمن کمپنی میں پچھلے بیس سال سے کا م کر رہا ہے،اس نے بھار ت میں آفس کھولا اور نئی ریکروٹمنٹ کے لیے کو چی گیا۔ چار پانچ روز میں اپنا کا م ختم کر نے کے بعد وہ فرینکفرٹ جانے کے لیے ممبئی ائیر پورٹ پر پہنچاتوامیگریشن اسٹاف نے اس کا پاکستانی پاسپورٹ دیکھ کرروک لیا کیونکہ کو چی سے ممبئی آنے کے لیے اسے پولیس حکام سے اجازت لینا تھی جو اُس نے نہیں لی تھی، فلائیٹ لینے میں ناکامی پرنوجوان عثمان نے اپنے والد کو فون کیا۔اور انھوں نے اپنے دوست اے ایس دُلت سے مدد طلب کی ۔دُلت صاحب نے راء کے افسران اور ممبئی میں کچھ پولیس حکام سے بات کی ۔

(یاد رہے کہ RAWپا کستانی آئی ایس آئی کیطرح ملٹری ایجنسی نہیں بلکہ سولین انٹیلیجنس ایجنسی ہے اور عموماً اس کا سربراہ انڈین پولیس سروس کا آئی جی رینک کا کوئی افسر ہوتاہے)جنہوں نے جنرل درانی کے بیٹے کی مدد کی ، اور عثمان کو جرمنی کے لیے روانہ کرد یا۔ جنرل درانی نے اسپر دُلّت صاحب کا تہہِ دل سے شکریہ اداکیا۔دونوں نے اتفاق کیا کہ ذاتی دوستی مشکل وقت میں بہت کام آتی ہے۔ دونوںکی گفتگو سے محسوس ہوتا ہے کہ ملاقاتوںمیں سردار دُلّت ہو شیاری سے کا م لیتارہا اور محتاط رہا جب کہ بلیک لیبل سے جنرل درانی کچھ زیادہ ہی مستفیض ہوتے رہے،اسی لیے وہ ہر حسّاس موضوع پرزیادہ بولتے رہے اور دُلت احتیاط سے لب کشائی کرتارہا۔

سنہا کے ایک سوال کے جواب میں جنرل اسد درانی نے کہا کہ ’’نواز شریف کو میر ے بارے میں شکوک تھے اور ان کا میرے بارے میں خیال تھا کہ اس شخص پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا، چھ ماہ کے اندر انھوں نے اپنا با اعتماد شخص تعینات کر دیااور میں نے عہدہ چھوڑ دیا۔

ایک موقع پر سنہا نے پوچھا کہ لوگ کہتے ہیں ’’ آئی ایس آئی ریاست کے اندر ایک ریاست کی حیثیّت رکھتی ہے‘‘۔ جنر ل درانی نے جواب دیا کہ ’’آئی ایس آئی کے اثر ورسوخ میں 1980میں افغان جہاد کی وجہ سے بہت اضافہ ہوا، اس کی پوری دنیا میں بڑی شہرت اور ساکھ ہے ،آئی ایس آئی کا عراق اور کویت کی فوجی طاقت کا اندازہ سی آئی اے سے بہترنکلا جسے امریکی حکام نے بھی تسیلم کیا ۔اس کے برعکس سیاسی میدان میں آئی ایس آئی کے اندازے اکثرغلط نکلے ہیں جسطرح کہ 1970 میں یحییٰ اور اس کی ٹیم کا اندازہ غلط نکلا۔اور1990 کے الیکشن میں ہمارے اندازے غلط ثابت ہوئے۔حقیقت یہ ہے کہ گر اس روٹ لیول کی معلومات پو لیس کے پاس زیادہ ہو تی ہیں۔اس سلسلے میں کوئی ایجنسی پولیس کی اسپیشل برانچ کا مقابلہ نہیں کر سکتی‘‘

’’لال مسجد میں چند عسکر یت پسند عورتیں اور بچے تھے۔لا ل مسجد والا آپریشن ایک ناکام اور تباہ کن آپریشن ثابت ہوا، اس میں اسپیشل فورسز کے کمانڈوز کو استعمال کرنا چایئے تھا ان کی جگہ رینجرز کو استعمال کیاگیا جنہوں نے پو ری جگہ کو ہی جلادیا۔‘‘

اسامہ بن لادن کی گرفتاری کے بارے میںدرّانی کہتے ہیں “آئی ایس آئی کو اسامہ کا پتہ چل گیا تھا اور انھوں نے اسے باہمی طے شدہ پروگرام کے مطابق امریکیوں کے حوالے کیا،اس لیے پاکستان پر نا اہلی کا الزام لگایا جاسکتا ہے،اسامہ کو چھپانے کا نہیں ‘۔امریکیوں کو ڈاکٹر آفریدی (جوپولیواسٹاف کے روپ میں پھرتاتھا)کے ذریعے ہی نہیں ایک پا کستانی انٹیلی جنس آفیسرکے ذریعے بھی اسامہ کا پتہ چل چکا تھا، میں نہیں جانتا کہ اس نے پچاس ملین ڈالر لیے یا نہیںمگر وہ پاکستان سے غائب ہوچکا ہے ۔اگرجنرل کیانی نے پیسے لیے ہیں توپھر میں اس کے خلاف مہم چلاؤنگا “جنرل درانی یہ کہنا چاہ رہے ہیںکہ سابق آرمی چیف امریکیوں سے پیسے بھی لے سکتاہے،یہ بڑی غیر ذمّے دارانہ باتیں ہیں۔ ایک میٹنگ میں سِنہانے کہا کہ ’’بھارتیو ں کے نزدیک آئی ایس آئی کے سربراہوں میں جنرل حمید گل سب سے خطرناک سمجھے جاتے تھے ‘‘۔

اس پر درانی نے کہا کہ’’ وہ ایک پروفیشنل ،ذہین اور بہت پڑھے لکھے آدمی تھے،انکا تاریخ کا گہرامطالعہ تھا،دُلت نے راء اور آئی ایس آئی کی ناکامیوں کا ذکر کرتے ہوے کہا کہ داؤد ابراہیم ،حافظ سعید اور مسعود اظہر کو حاصل نہ کرسکنا ہماری ناکامیاں ہیںجب کہ کشمیرمیں آئی ایس آئی ناکام ہوئی ہے، کشمیر کا مسئلہ محنت طلب اور صبر آزماہے اس کے لیے پاکستان کو صبر، انتظار اور ھمدردی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔دُلت نے کہا ڈکٹیٹروں کے لیے آسانی ہو تی ہے کہ وہ کسی کو جواب دہ نہیں ہوتے ،منتخب لیڈروں کو عوامی جذبات کا خیال رکھنا ہو تا ہے۔یہی وجہ ہے کہ امن کے لیے وزیر اعظم مودی شروع کرتا ہے پھر چھوڑ دیتاہے ،شروع کر تاہے اور چھوڑ دیتا ہے کی پالیسی پر گامزن ہیں‘‘۔

دُلت صاحب کہتے ہیں کہ’’ پاکستانی حکمرانوں میں سے ہمارے لیے سب سے اچھے جنرل مشرفّ تھے ‘‘مگر جب سنہا نے پوچھا کہ پاکستان میں آپ کا پسندیدہ سیاستدان کون ہے؟ توانھوں نے جواب دیا، ’’بی بی‘‘سنہا نے پوچھا جنرل صاحب سرینگر کب جاسکیں گے ؟دلت نے جواب دیا ’’جب میں مری جاسکونگا اُسوقت جنرل صاحب سرینگر جا سکیں گے۔ ’’جنر ل درانی نے کہاانکا مری جانا تو کوئی بڑامسئلہ نہیں ہے،دلت نے کہا میں نے ایک بار مذاقاً پوچھا تھا کہ کیا میں مری جاکر بیئر پی سکونگا؟ تو جنرل صاحب نے کہا تھا ’’ میں آپ کو اسلام آباد میں مری ووڈکا پلاؤنگا۔‘‘

کلبھوشن یادیو کا فوری طور پر ٹی وی پر انٹر ویو نشر کرنے پر د’لت نے آئی ایس آئی کوکریڈٹ دیا اور اسے اسی طرح کا کارنامہ قرار دیا ’’جیساکہ ہم نے کا رگل کی جنگ میں جنرل مشرف اور جنرل عزیز کی ٹیپ شدہ گفتگو نشر کردی تھی‘‘۔ بلوچستان میں بھارتی دخل اندازی کے بارے میں جنرل درانی کے خیالات نامناسب بھی ہیں اور تشویشناک بھی۔ درانی صاحب فرماتے ہیںکہ ’’ہم بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے بارے میں مبالغہ آرائی کرتے ہیں، اس کے بعد موصوف ایک مذموم حرکت یہ کرتے ہیں کہ اسے کشمیر سے تشبیہہ دے دیتے ہیں ۔جس پر دُلّت خوشی سے جھوم اُٹھتا ہے اور کہتا ہے “I am glad you compared it with Kashmir”(مجھے خوشی ہے آپ نے بلوچستان کو کشمیر سے تشبیہہ دی)۔

موجودہ حالات میں دونوں ملکوں کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سابق سربراہان کی میٹنگوں کا اس سے زیادہ کو ئی فائدہ نہیں کہ دو افراد کچھ دیرخوشگوار لمحات سے لطف اندازہوسکیں، اورکتاب سے چارپیسے کمالیں۔ ہمارے سفارتکارجن ملکوں میں تعینات ہوتے ہیں اگروہ یا ان کے بیٹے وہاں کا روبار شروع کردیں تو سفیر وہاں کے ادنیٰ حکام کے بھی محتاج ہوجائیں گے اس صورت میں وہ سفارتکاری خاک کریں گے؟ اس پر سخت پابندی لگنی چایئے۔نیزسابق آرمی چیف یا آئی ایس آئی کے سابق سربراہ پر کسی دوسرے ملک میں نوکری کرنے پر سخت پابندی ہونی چایئے۔تاکہ جام اور دام کی خاطر وہ نیشنل سیکیوریٹی کے رازنہ اگلتا پھرے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے