ایم ایم اے کے منشور سے کشمیر غائب کیوں ؟

پاکستانی نقشہ اور کشمیر… کوئی شرم ہوتی ہے؟
آصف محمود
متحدہ مجلس عمل کے اکابرین تشریف فرما ہیں اور ان کے عقب میں لگے پاکستان کے نقشے سے کشمیر غائب ہے۔ ان اکابرین میں سے ایک وہ ہیں جو برسوں سے کشمیر کمیٹی کے سربراہ ہیں اور دوسرے وہ ہیں جن کی جماعت کشمیر کاز کے لیے قربانیوں کی ایک تاریخ رکھتی ہے۔ اگر ان کے اجتماع میں کشمیر کے ساتھ یہ ہو رہا ہے تو اندازہ کیجیے کہ ہمارے زوال پر کتنا کمال آ گیا ہے۔

معاملہ محض مجلس عمل کی خوفناک اور مجرمانہ غفلت تک محدود نہیں۔ میں چند مثالیں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں تا کہ آپ کو اندازہ ہو سکے بھارت اس پروپیگنڈا وار میں کہاں تک کامیاب ہو چکا ہے۔

احسن اقبال صاحب وزیر داخلہ رہے ہیں۔وہ ایک روزنامے میں غالبا ’’ وطن کی بات‘‘ کے نام سے کالم لکھتے تھے۔ اس میں پاکستان کا جو نقشہ چھپا ہوتا تھا وہ وہی نقشہ تھا جو بھارت دنیا میں پھیلا رہا۔احسن اقبال صاحب کی حب الوطنی پر سوال نہیں اٹھا یا جا رہا اس سادگی اور بے نیازی کی طرف اشارہ ہے جو اس باب میں ہم نے روا رکھی۔ ہمیں اندازہ ہی نہیں ہمارے ساتھ کیا واردات ہو رہی ہے۔ہم پاکستانیت کے بارے میں حساس ہی نہیں رہے۔

عمران خان صاحب کی کتاب چند سال پہلے ’’ پاکستان : اے پرسنل ہسٹری‘‘ کے نام سے ٹرانس ورلڈ پبلشرز نے چھاپی۔ اس میں پاکستان کا جو نقشہ شائع ہوا اس میں کشمیر پاکستان کا حصہ نہیں تھا۔چنانچہ عمران خان اس پرخفاہوئے اور پبلشر کو کتاب مارکیٹ سے اٹھوانا پڑی۔

ایک نجی چینل پر شاہ زیب خانزادہ نے اپنے پروگرام میں پاکستان کا ایسا ہی نقشہ دکھا دیا ۔جب اس پر احتجاج ہوا تو انہوں نے وضاحت کی کہ یہ غلطی ہو گئی اور یہ بھی بتایا کہ نقشہ تو انہوں نے’ ڈان ‘ اخبار کی سائٹ سے لیا تھا۔یہاں بھی کسی کی حب الوطنی پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی۔ مقصد صرف معاملے کی سنگینی کو واضح کرنا ہے کہ بھارت کس طرح ابلاغ کی جنگ میں ہمارے اندر تک سرایت کرتا جا رہا ہے اور ہمیں اس واردات کا احساس تک نہیں۔

کاسا پراجیکٹ کے افتتاح کے موقع پر جب وزیر اعظم نواز شریف تاجکستان گئے تو وہاں میزبانوں نے جو نقشہ آویزاں کیا اس کے مطابق بھی آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو بھارت کا حصہ دکھایا گیا تھا۔ ہمارے احتجاج پر میزبانوں نے رسمی سی وضاحت تو جاری کر دی لیکن کیا ہم نے سوچنے کی زحمت کی کہ جب بھی کوئی نقشہ ڈاؤن لوڈ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یہی بھارت والا نقشہ کیوں سامنے آتا ہے؟

ورلڈ بنک نے دسمبر 2016 میں اسلام آباد میں ایک کتاب کی تقریب رونمائی کی۔ اس کتاب کا نام تھا :”South Asia’s Turn”۔ ہمارے ہی دارالحکومت میں ہونے والی اس تقریب میں ورلڈ بنک نے ساؤتھ ایشیا کا جو نقشہ آویزاں کیا اس میں کشمیر اور گلگت بلتستان کو بھارت کا حصہ دکھایا گیا۔

بھارت نے باقاعدہ یہ نقشہ جاری کیا۔ کشمیر اور گلگت بلتستان کو بھارت کا حصہ دکھایا گیا۔اس کے لیے دنیا بھر میں لابنگ کی گئی ۔ گوگل وغیرہ پر باقاعدہ اہتمام سے اس نقشے کو پروموٹ کرایا گیا۔ گوگل کے نقشوں پر نانگا پربت اور کے ٹو تک بھارت میں دکھائے جاتے ہیں لیکن ہماری حکومتوں کو بالکل پرواہ نہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ دوسری جانب بھارت کی حساسیت کا یہ عالم ہے کہ بھارت میں اگر کوئی ایسا نقشہ کہیں چھاپ دیا جائے یا کسی اور صورت سامنے لایا جائے جس میں کشمیر اور گلگت بلتستان کو بھارت کا حصہ نہ دکھایا گیا ہو تو ’’ جیو سپیشل انفارمیشن ریگولیشن بل‘‘ کے تحت یہ ایک سنگین جرم ہے جس کی سزا 7سال تک قید اور ایک کروڑ روپے تک جرمانہ ہے۔اب ایک طرف بھارت کو دیکھیے وہ کس حد تک جا چکا ہے اور دوسری طرف اپنے نابغوں کے کمالات دیکھیے.

باقیوں کو تو چھوڑیے ، شیخوپورہ میں جماعت اسلامی کی تقریب ہوتی ہے ، امیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب سٹیج پر تشریف فرما ہو تے ہیں اور سٹیج پر جو نقشہ آویزاں ہوتا ہے اس میں کشمیر اور گلگت بلتستان غائب ہوتے ہیں۔کشمیر کے معاملے میں جماعت اسلامی کی حساسیت ایک ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے لیکن وہاں بھی اگر غلطی سے بھارت کا جاری کردہ نقشہ لگا دیا جاتا ہے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے بھارت کہاں تک وار کر چکا ہے۔

اور اب کشمیر کمیٹی کے سربراہ کی محفل میں آویزاں نقشے سے کشمیر غائب ہو چکا۔یہ ہے قومی اہمیت کے معاملات پر ہماری حساسیت۔ہم سب کو شرم آنی چاہیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے