مبارک ہو لیکن…..

…..مبارک ہو…..ن لیگ کی ترقی بری طرح ’’لیک‘‘ کرگئی ہے یعنی نیو اسلام آباد ایئرپورٹ کی چھتیں ایک بارش برداشت نہ کرسکیں اور جگہ جگہ سے بری طرح لیک کرنے لگیں۔خاکروب اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود پانی خشک کرنے میںناکام رہے۔

اربوں روپے کے اس منصوبہ میں گھٹیا میٹریل اور گھٹیا کارکردگی کا اس سے بہتر ثبوت اور کیاہوسکتا ہے؟ ’’اک واری فیر شیر‘‘مبارک ہو….. میں نے اپنی گنہگا رآنکھوں سے ایک مقامی ٹی وی چینل کی سکرین پر یہ روح پرور نظارہ دیکھا کہ رمضان بازاروں میں میئر لاہور مبشر جاوید گلی سڑی گھٹیا سبزیا ںاور پھل اٹھااٹھا کر پھینک رہے ہیں۔

میئر پر اک عجیب وحشت طاری تھی جو مجھے بہت پسند آئی۔ برکت مارکیٹ، مکہ کالونی اور غالب مارکیٹ سے باب ِ پاکستان کے رمضان بازار تک بدنیتی، بددیانتی اور سفاکی کے شہکار تھے یا ہمارے حقیقی اجتماعی چہرے کے اشتہار تھے جس نے لارڈ میئر لاہور کرنل (ر) مبشر کو غصہ، جھنجھلاہٹ، بے بسی میں مبتلا کردیا۔ روزہ دار، روزہ داروں کوکیا بیچ رہےتھے؟ اور یہ بھی ہم ہی ہیں جو گراں فروشی کو گناہ نہیں سمجھتے، باٹ بھی اصل سے کم وزن کے ہوتے ہیں اور تول میں بھی ڈنڈی ماری جاتی ہےکیونکہ ہم نہیں جانتے کہ مارکیٹ کانام ’’برکت مارکیٹ‘‘رکھ دینے سے برکت نصیب نہیں ہوتی۔

حصول برکت کے لئے اپنے اندر کےسانپ بچھو مارنا پڑتے ہیں۔ گناہ وثواب کی حقیقی روح کو سمجھنا پڑتا ہے لیکن اپنی تو دنیا ہی نرالی ہے۔مبارک ہو….. چربی کی تہوں میں لپٹے ہوئے ان نام نہاد لیڈروں سے بیش قیمت سرکاری گاڑیاں واپس منگوائی جارہی ہیں جن کے نہ پیٹ بھرتے ہیں نہ گھر نہ بینک نہ نیتیں۔

عوام کی کھال اتارنے کے بعد بھی ناجائز مال مفت کی ہوس کم نہیں پڑتی کہ ’’دل بے رحم ‘‘ بھی نہیں، ان کے جمہوری اور نوری سینوں میں تو دلوں کی جگہ تجوریاں نصب ہوتی ہیں۔ سپریم کورٹ کا حکم ہے کہ سرکاری گاڑیوں پر انتخابی مہم نہیں چلانے دیںگے۔ پوچھا گیا ’’شہبازشریف کو بلٹ پروف گاڑی کس قانون کےتحت دی گئی؟‘‘ یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ مولانا فضل الرحمٰن کو بلٹ پروف گاڑی کے ساتھ ڈبل کیبن بھی دی گئی حالانکہ ان کے پاس تو بہت دولت ہے،اپنی سیکورٹی کا انتظام خود کیوں نہیں کرتے؟ گاڑیاںواپس نہ کرنے والوںکو روزانہ ایک لاکھ، ہفتہ بعد دو لاکھ جرمانہ ہوگا۔ ایف بی آر افسروں سے لگژری گاڑیاں واپس لینے اور ’’نیب‘‘ کوتحقیقات کا حکم بھی دیا گیا…..

’’قدم قدم پر لوٹ پڑی تھی اور چوروں کو چھوٹ بڑی تھی‘‘مجھے سو فیصد یقین ہے کہ سقوط کے بعد وحشی تاتاریوں نے اس بے رحمی سے اہل بغداد کوبھی نہیں لوٹا ہوگا جس بے رحمی سے بے شرم اشرافیہ ملکی وسائل کو لوٹتی ہے اور کیا آپ جانتے ہیں کہ جب یہ قسمیں کھا کھاکر کہتے ہیں کہ…. ’’ہم نےکرپشن نہیںکی‘‘توبخدا یہ درست کہہ رہے ہوتےہیںکیونکہ یہ کرپشن کو کرپشن سمجھتے ہی نہیں، یہ حرام کا مال حرام نہیں اپنا حق یا خراج سمجھ کر وصول کرتے ہیں تو ظاہر ہے ’’کرپشن‘‘کہاں سے آگئی؟

جیسے کئی محکموںمیں رشوت کو ’’سپیڈ منی‘‘کہہ کر حلال کرلیا جاتا ہے اور کہتے یہ ہیں کہ ہم رشوت نہیں، بروقت کام کردینے کا انعام وصولتے ہیں۔مبارک ہو…..آواز یہ بھی سنائی دیتی ہے کہ چک شہزاد اسلام آباد کے محلات کو بل ڈوز کیوں نہ کردیاجائے۔ وجہ یہ کہ چک شہزاد کا CONCEPT توبالکل ہی مختلف تھا۔ یہاں اسلام آباد کے لئے تازہ سبزیاں پھل اگائے جانے تھے، زیادہ سے زیادہ فارم ہائوسز کی گنجائش تھی لیکن چک شہزاد کےشہزادوں نے اصل آئیڈیا روند کرمحلات کھڑے کرلئے لیکن مبارک ہو کہ اس طرف بھی کسی کادھیان تو گیا۔

مبارک ہواس تاریخ ساز، تاریخ شکن جملہ پر بھی کہ الحمد للہ ’’یہ ٹیلی فونوں پر فیصلے کرنے والی عدلیہ نہیں‘‘ اور مبارک ہو اس پر بھی کہ جمہوریت کے نام پر جیبیں کترنے والے کٹہروں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ اصغر خان کیس زور و شور سے جاری ہے اورجعلی معززین باری باری ایکسپوز ہوچکے جس پر ایاز امیر کے کالم کا یہ جملہ نہیں بھولتا کہ اسی کیس نے توراتوں رات جاوید ہاشمی کو ’’مخدوم‘‘ بنایا تھا….. یہ سب خادم مخدوم ایک ہی غلیظ تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔اور اس پربھی مبارک ہو کہ عزت مآب چیف جسٹس نے خدیجہ پرحملہ کے ملزم کی بریت کا ازخود نوٹس لےلیا۔

ہائی کورٹ نے ملزم شاہ حسین کو بری کرنے کا حکم دیا تھا۔مبارکبادیں تو بہت ہیں لیکن میں دودھ کا جلا ہوں جو چھاچھ کو بھی پھونکیں مارنے پر مجبور ہے….. میں سانپوں کاڈسا ہوا ہوں اس لئے رسیوں سے بھی ڈرتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ یہ سارے سلسلے رستے میں ہی نہ رہ جائیں کیونکہ آوے کا آوا جس بری طرح بگڑ چکا ہے، اسے ٹھیک کرنے….. ٹریک سے پوری طرح اترچکی "70”بوگیوں پر مشتمل اس ٹرین کو دوبارہ ٹریک پر لانے کے لئے ہر پیغام بہت ’’لائوڈ اینڈکلیئر‘‘ ہونا ضروری ہے۔محتاط تیزرفتاری کے ساتھ سزائیں اس طرح کہ علامتی جلاد تین تین شفٹوں میں کام کرتے نظر آئیں۔

غلاظت اس قدر ہے کہ بدبو کا احساس بھی مرچکا۔اس گندگی کی صفائی دھلائی کسی ڈبل یا ٹرپل ایکشن ڈٹرجنٹ سے ختم نہیں ہوگی، اسے تیزاب سے غسل دینا ہوگا۔بہت کچھ مبارک ہو….. لیکن کیا کروں کہ سانپ کا ڈسا اور دودھ کا جلا اچھی طرح جانتا ہوں کہ مرض اس بری طرح بگڑ چکا کہ بہت ہی ہیوی قسم کی ڈوز درکار ہوگی۔ اشرافیہ سے عوام تک کام بہت لمبا، بہت مشکل اوربہت پیچیدہ ہے لیکن ناممکن ہرگز نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے