صحرا نہیں باغ

امتیاز پرویز میرے ان احباب میں سے ہیں جن سے ملاقات کے وقفوں میں تو دوری آ سکتی ہے مگر جو ہمیشہ دل سے قریب اور محترم رہتے ہیں۔ تقریباً25برس قبل بحرین کی ادبی و ثقافتی تنظیم ’’الثقافہ‘‘ کے ایک مشاعراتی نوعیت کے پروگرام کی معرفت ان سے تعارف ہوا ،وہ، افضل نجیب مرحوم اور برادرم نور پٹھان سمیت اس کے عہدیدار بھی تھے‘ ورکر بھی اور سرپرست بھی۔

معلوم ہوا کہ ان کا شعبہ بینکنگ ہے اور ان کا شمار نہ صرف اس کے ماہرین میں ہوتا ہے بلکہ بحرینی حکومت اور شاہی خاندان بھی انھیں بہت قدر کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں، موقع کی مناسبت سے بات چیت زیادہ تر شعر و ادب اور موسیقی کے گرد گھومتی رہی (کہ امتیاز بھائی اور بیگم افضل نجیب مہرو بھابی سمیت تقریباً سارے ہی میزبان موسیقی کا بھی اعلیٰ ذوق رکھتے تھے) لیکن جب بھی کبھی درمیان میں پاکستان‘ اس کی محبت اور مسائل کا ذکر آیا میں نے محسوس کیا کہ وہ اس ضمن میں بہت جذباتی‘ فعال اور دانشورانہ بصیرت کے حامل ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ آیندہ ہونے والی ملاقاتوں میں اس تاثر کو مزید تقویت ملتی رہی کہ فیصل بینک کے اعلیٰ ترین غیر بحرینی عہدیدار ہونے کے حوالے سے ان کا پاکستان آنا جانا لگا رہتا تھا ، یہاں تک کہ چند برس قبل وہ ریٹائرمنٹ کے بعد مستقل طور پر لاہور میں مقیم ہو گئے اور اب بطور ایڈوائزر کام کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا زیادہ وقت ذہنی طور پر معذور بچوں کی دیکھ بھال کرنے والے ادارے ’’لیبارڈ‘‘ کو رضا کارانہ طور پر دیتے ہیں۔

اس سارے عرصے میں، میں نے انھیں ہمیشہ ایک ایسا دردمند‘ صاحب دل‘ محبتی اور محب وطن پاکستانی پایا ہے جو ملکی اور معاشرتی معاملات پر صرف تنقید‘ غصہ یا دعا ہی نہیں کرتے بلکہ عملی طور پر اپنے مطالعے، مشاہدے‘ تجربے اور صلاحیت کی مدد سے ملکی ترقی کے لیے مثبت حل اور مسائل تلاش کرتے رہتے ہیں۔ اس ساری تمہید کی ضرورت یوں پڑی کہ چند دن قبل مجھے ان کی طرف سے کالا باغ ڈیم کی تاریخ‘ ضرورت‘ اہمیت‘ نوعیت‘ مسائل اور موجودہ صورت حال کے پس منظر میں پاکستان میں پانی کی قلت اور کمیابی کے متوقع پیش منظر سے متعلق نہ صرف کچھ تفصیلی معلومات ملیں بلکہ یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ اس ضمن میں ایک باقاعدہ مہم چلا رہے ہیں ۔
جس کا مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں کو شامل کر کے نہ صرف اس معاملے کی ’’آگاہی‘‘ کا دائرہ وسیع کرنا ہے بلکہ یہ بھی کہ حاکمان وقت‘ پالیسی سازوں اور اہل فکر و نظر کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے ایسے عملی اقدامات بھی کیے جائیں جن کی مدد سے اس باغ کو صحرا ہونے سے بچایاجا سکے۔ میں نے ان کے ساتھ ساتھ اپنے دل سے بھی وعدہ کیا کہ اگلا کالم اسی مسئلے پر لکھا جائے گا عام حالات میں شاید اس ارادے کی تکمیل میں بھی کچھ دیر سویر ہو جاتی مگر نریندر مودی کے کشن گنگا ڈیم کے افتتاح کی خبروں کی بازگشت میں پرسوں منگل کی رات کے طوفان بادوباراں نے کل صبح تک بجلی کی فراہمی منقطع کرکے ایک ایسی Wake up کال کا اہتمام کر دیا جسے ہم کئی برسوں سے مسلسل سننے کے باوجود دوبارہ آنکھیں بند کر لینے کے عادی ہو چکے ہیں۔

قیام پاکستان کے وقت علاقوں اور سرحدوں کی تقسیم میں جو سازشیں‘ کارروائیاں، بے انصافیاں اور غلط کاریاں کی گئیں ان پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے لیکن ان کے پاکستان کی معاشی ترقی اور توانائی کے وسائل پرجو اثرات مرتب ہوئے یا آیندہ ہونے جا رہے ہیں ان کے بارے میں سنجیدگی سے بہت کم دیکھا‘ سوچا‘ سمجھا ، لکھا اور کیا گیا ہے۔ سندھ طاس معاہدہ صحیح تھا یا غلط؟ اس کی بہت سی نقصان دہ شقوں پر کیوں غور نہیں کیا گیا اور جن دستاویزی بنیادوں اور دلیلوں کی آڑ میں بھارت مسلسل ہمارے دریاؤں کا پانی ہم سے چھینتا چلا جا رہا ہے، ان کے ضمن میں ہماری ہر حکومت کی غفلت کا سبب کیا تھا؟

غیروں نے اپنے حاصل کردہ دریاؤں کے ساتھ ساتھ ہمارے حصے کے دریاؤں کے پانی پر ناجائز قبضہ کرنے کے لیے درجنوں چھوٹے بڑے ڈیم بنا لیے مگر ہمیں منگلا اور تربیلا کے بعد یاد ہی نہیں رہا کہ ہماری آبادی‘ زراعت اور توانائی کے وسائل کے لیے پانی کی حفاظت‘ مقدار‘ کنٹرول اور سپلائی آیندہ چند برسوں میں کیا گمبھیر مسئلہ بننے والے ہیں جس بے دردی‘ لاپروائی‘ غیرذمے داری اور سیاسی مداری پن سے ہمارے کچھ مفاد پرست سیاستدانوں نے قوم پرستی اور علاقائی حقوق کے نام پر کالا باغ ڈیم منصوبے کو تباہ و برباد کیا ہے اور ہمارے دانشوروں‘ میڈیا اور ماہرین نے اس ضمن میں جس بے حسی اور غیر ذمے داری کا ثبوت دیا ہے اور بھارت سمیت ہماری ترقی اور وجود کی دشمن بعض عالمی طاقتوں نے اس سازش میں جو اپنا گھناؤنا کردار ادا کیا ہے ان سب کا حساب اپنی جگہ کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں اور سارا الزام کسی ایک پر دھرنے سے بھی اصل مسئلہ وہیں کا وہیں رہے گا کہ اب مرحلہ فوری طور پر عملی قدم اٹھانے کا ہے۔

میں نے 1980 میں اپنے ڈرامہ سیریل ’’وارث‘‘ میں اسی کالا باغ ڈیم کی ایک تمثیلی صورت کو قدرے مختلف انداز میں موضوع بنایا تھا لیکن آج یہ صرف چوہدری حشمت کی انا کا مسئلہ نہیں بلکہ وطن عزیز کے ہر شہری اور اس کی آیندہ نسلوں کی بقا‘ خوش حالی اور ترقی کا استعارہ ہے اور یوں اب ایک نہیں بلکہ کئی کالا باغ ڈیموں کی ضرورت ہے، سو مسئلہ نام کا نہیں اس کی ضرورت اور اہمیت کا ہے۔

میں نے چند برس قبل پانی کے اس مسئلے کے حوالے سے لکھی گئی بہاولپور کے محترم دوست بھٹہ صاحب کی کتاب پر ایک کالم کے ضمن میں بھی عرض کیا تھا کہ ہمارے نیم اصلی اور نیم خود ساختہ لسانی‘ علاقائی‘ تہذیبی اور ڈیم کی تعمیر کی وجہ سے پیدا ہونے والے متوقع زمینی اور ہجرتی مسائل کتنے بھی بڑے کیوں نہ ہوں پاکستان سے زیادہ بڑے اور اس سے زیادہ مقدم نہیں ہیں، سو آئیے سب مل کر برادرم امتیاز پرویز اور ان کے بے شمار ہم خیالوں اور خود اپنی سوچ‘ حب الوطنی اور ذمے داری کا بھی ثبوت دیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ اب ہم سب مل کر اپنے اور اپنی آیندہ نسلوں کے لیے پانی کے ایک ایک قطرے کی حفاظت کا بھرپور انتظام کریں گے اور اس کے لیے ہر اس مثبت اور تعمیری تحریک میںمنہ زبانی ہی نہیں بلکہ ہر ممکن عملی حصہ بھی ڈالیں گے کہ

فطرت افراد سے اغماض تو کر لیتی ہے

کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے