پاکستان کے شدید مالیاتی مسائل نگران حکومت کے لیے باعث تشویش

پاکستان میں اگلے ماہ ہونے والے عام انتخابات سے قبل ملک کو درپیش شدید نوعیت کے اقتصادی مسائل اور بےتحاشا تجارتی خسارے کے باعث نگران حکومت میں ریاست کے مالیاتی استحکام سے متعلق گہری تشویش پائی جاتی ہے۔

پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے منگل بارہ جون کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق اس جنوبی ایشیائی ملک میں اگرچہ اس وقت آئندہ قومی انتخابات کی تیاریاں زوروں پر ہیں، لیکن ایک طرف ماہرین اور نگران حکومت کے علاوہ شاید ہی کسی کا دھیان گیا ہو۔ یہ پہلو پاکستان کو درپیش شدید نوعیت کے اقتصادی اور مالیاتی مسائل سے متعلق ہے، جو آئندہ ہفتوں اور مہینوں میں اس ایٹمی طاقت کو ایک بڑے بحران سے دوچار کر سکتا ہے۔
منگل بارہ جون کے روز اسلام آباد میں جسٹس ریٹائرڈ ناصرالملک کی قیادت میں قائم نگران وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا کہ ملکی تجارتی خسارے کو کم کرنے کے لیے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر استعمال کیے جائیں گے۔ لیکن بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ان ذخائر میں پہلے ہی تیزی سے کمی ہو رہی ہے۔

نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق خدشہ ہے کہ پاکستان کو مالی ادائیگیوں میں توازن کے حوالے سے ایک بحران کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایسی صورت میں حکومت دو ہزار تیرہ کے بعد سے دوسری مرتبہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یا آئی ایم ایف سے نئے قرضے مانگنے پر مجبور بھی ہو سکتی ہے۔

نگران پاکستانی وزیر خزانہ شمشاد اختر نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کو بتایا، ’’پاکستان کو اس وقت بیرونی تجارت میں 25 ارب ڈالر کے خسارے کا سامنا ہے۔ ہمیں اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے زر مبادلہ کے ذخائر استعمال کرنا پڑیں گے۔ اس کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔‘‘

شمشاد اختر، جو بین الاقوامی سطح کی ایک معروف ماہر اقتصادیات ہیں، نے کہا، ’’اقتصادی مسائل اور تجارتی خسارہ وہ بڑی پریشانیاں ہیں، جس کا موجودہ نگران حکومت کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘‘

دوسری طرف یہ بات بھی اہم ہے کہ شمشاد اختر نے پاکستانی دارالحکومت میں آج یہ بات اس وقت کہی، جب اس سے محض چند ہی گھنٹے قبل ملک کے مرکزی بینک نے پاکستانی روپے کی قدر میں 3.7 فیصد کمی کا اعلان بھی کر دیا تھا۔ یہ کمی پاکستانی کرنسی کی قدر میں گزشتہ برس دسمبر سے لے کر اب تک کی جانے والی تیسری کمی ہے۔ شمشاد اختر کے مطابق پاکستان کا مسئلہ صرف تجارتی خسارہ ہی نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ریاست کے ذمے وہ قرضے بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہیں، جو مجموعی قومی پیداوار کے 70 فیصد تک پہنچ چکے ہیں۔ مزید یہ کہ پاکستان کی معیشت میں ترقی کی شرح بھی بہت تسلی بخش نہیں ہے۔

گزشتہ منتخب حکومت نے مالی سال 2017-18 کے لیے7.8 فیصد کی شرح نمو کا ہدف مقرر کیا تھا لیکن یہ شرح 5.8 فیصد رہی، یعنی حکومتی اہداف سے دو فیصد کم۔ دوسری طرف پاکستان کے لیے ملک میں مقامی طالبان اور دیگر عسکریت پسند گروپوں کی خونریز کارروائیاں اور توانائی کا وہ بحران بھی بہت نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں، جو سرمایہ کاری کے ماحول، صنعتی پیداوار اور مجموعی طور پر قومی معیشت کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے