پاکستان اور افغانستان ۔ ایک اور موقع

یہ عید افغانستان کی تاریخ کی منفرد عید ثابت ہوئی۔ جو کچھ اس عید کے موقع پر ہوا ، وہ ناقابل یقین ہی نہیں بلکہ ناقابل بیان بھی ہے ۔

حکومت اور طالبان کی جنگ بندی کے اعلان کے تناظر میں ہم توقع کررہے تھے کہ زیادہ سے زیادہ صرف تین دن خاموشی سے گزر جائیں گے لیکن یہ تو وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ طالبان پہاڑوں اور غاروں سے نکل کر کابل اور جلال آباد کی سڑکوں پر گھومیں گے اور افغان سیکورٹی فورسز جن سے وہ لڑرہے ہیں، کی طرف سے انہیں ہارپہنائے جائیں گے۔ لیکن چشم فلک نے یہ حسین نظارہ بھی دیکھا ۔

میں درجنوں کی تعداد میں ہلمند، قندھار ، ننگرہار ،قندوز اور دیگر صوبوں کے مختلف مقامات کی ویڈیوز اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا کہ جن میں طالبان اور افغان فوج یا پولیس کے حکام ساتھ نماز عید ادا کررہے ہیں ، گلے مل رہے ہیں ، ایک دوسرے کو ہار پہنارہے ہیں اور ایک ساتھ میڈیا کو انٹرویو دے کر ایک دوسرے کو بھائی قرار دے رہے ہیں ۔ نہ درمیان میں کوئی تحریر تھی اور نہ کوئی ضامن ، صرف زبانی اعلان تھا لیکن افغان سوسائٹی کا کمال دیکھ لیجئے کہ فریقین نے ایک دوسرے پر اس حد تک اعتماد کیا اور اس حد تک زبانی اعلان کا پاس رکھا ۔

افغانستان میں کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب طالبان اور حکومتی فورسز کی لڑائی میں پچاس سے لے کر سو تک افغان لقمہ اجل نہ بن رہےہوں لیکن عید کے ان تین دنوں میں فریقین کی طرف سے ایک گولی بھی نہیں چلی (عید کے تیسرے روز جلال آباد میں جو دھماکہ ہوا اس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ) لیکن افسوس کہ امن اور جنگ بندی کی یہ فضا صرف تین دن کے لئے برقرار رہی اور افغان صدر اشرف غنی کی طرف سے جنگ بندی کی مدت میں توسیع کی پیشکش کے باوجود طالبان نے مزید توسیع کرنے سے انکار کردیا۔

یوں ایک بار پھر آگ و خون کا بازار گرم ہوگیا لیکن اس تین روزہ جنگ بندی سے کئی مثبت اور امید افزا اشارے ملے ۔ سب سے بڑا اشارہ تو یہ ملا ہے کہ اگر فریقین (طالبان اور افغان حکومت) اپنی اپنی انائو ں سے نکل کر صدق دل سے مسئلے کو حل کرنا چاہیں تو حل کرسکتے ہیں ۔ جس طرح تین دن کے لئے طالبان اور افغان فوجی، بھائی بھائی بنے تھے ، چاہیں تو ہمیشہ کے لئے بھائی بھائی بن سکتے ہیں ۔

کیونکہ اصلاً وہ بھائی ، ایک ہی مذہب کے ماننے والے اور ایک ہی مٹی کی پیداوار ہیں ۔ مذہب اور قومیت کے نام پر ان کو ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا گیا ہے لیکن اگر وہ ایک لمحے کے لئے سوچ کے زاویے بدل کر غور کرلیں تو انہیں اس حقیقت تک پہنچے میں دیر نہیں لگے گی کہ وہ دشمن نہیں بلکہ بھائی ہیں اور اصلاً دشمن کے لئے استعمال ہوکر ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے تھے ۔ دوسرا مثبت اشارہ یہ ملا کہ غیرملکی اور علاقائی طاقتوں کا اثرورسوخ اپنی جگہ لیکن معاملہ آج بھی بڑی حد تک خود افغانوں کے ہاتھ میں ہے ۔

وہ اگر صلح پر آمادہ ہوں تو بین الاقوامی اور علاقائی طاقتیں زیادہ دیر رکاوٹ نہیں بن سکتیں ۔ مثلاً جنگ بندی کا اعلان امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے نہیں بلکہ افغان صدر اشرف غنی نے کیا تھا لیکن امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو بھی اس جنگ بندی پر عمل درآمد کرنا پڑا ۔

اسی طرح طالبان مختلف علاقائی طاقتوں کے زیراثر ضرور ہیں اور ان کے اندرونی اختلافات بھی بہت بڑھ گئے ہیں لیکن جب قیادت نے جنگ بندی کا اعلان کیا تو پھر نہ کوئی پڑوسی ملک ان سے خلاف ورزی کرواسکا اور نہ کسی دھڑے کو خلاف ورزی کی ہمت ہوسکی ۔ اسی طرح افغان عوام نے جس طرح اس عمل کو خوش آمدید کہا وہ افغان حکومت کے ساتھ ساتھ طالبان کے لئے بھی ایک پیغام ہے ۔

ایک طرف عوام نے اس اقدام پر اپنی حکومت کو بے تحاشہ شاباش دی تو دوسری طرف وہ خواتین جنہیں طالبان کے دور میں گھروں میں بند کردیا گیا تھا، نے بازاروں میں آنے والے طالبان کو پگڑیاں پہنائیں ۔ ہلمند سے کابل کی طرف صلح کے لئے ہزاروں افغان نوجوانوں کا پیدل مارچ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ افغانستان کے عوام اور بالخصوص نئی نسل جنگ سے کس طرح تنگ آگئی ہے ۔ یہ افغان حکومت اور طالبان دونوں کے لئے پیغام ہے کہ جو بھی فریق مزید جنگ پر اصرار کرے گا، اسے بالآخر افغان عوام کے غیض وغضب کا نشانہ بننا پڑے گا ۔

افغان حکومت اور طالبان کے مابین مذکورہ تین روزہ جنگ بندی دراصل اس مثبت پیش رفت کی بھی عملی علامت ہے جو پاکستان اور افغان حکومت کے مابین پچھلے چند ماہ کے دوران ہوچکی ہے ۔ اس حوالے سے پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور پاکستان میں افغانستان کے سفیر ڈاکٹر عمر زاخیلوال نے بڑی کوششیں کی ہیں ۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران دونوں حکومتوں نے سفارتی ہلچل کی بجائے خاموشی سے کام کیا ۔

بڑی حد تک رکاوٹوں کو دور کیا اور پہلی بار دونوں ممالک ایک طویل المدتی ایکشن پلان پر متفق ہوئے جس کی رو سے فوج اور فوج، انٹیلی جنس اور انٹیلی جنس اور مختلف وزارتوں کے مابین ورکنگ گروپس کی تشکیل پر اتفاق کیا گیاہے ۔ اسی طرح دونوں ممالک کی افواج کی طرف سے ایک دوسرے کے ممالک میں لیزان آفیسرز تعینات کرنے پر بھی اتفاق ہوا ہے ۔ اصولی طور پر یہ فیصلہ ہوا ہے کہ افغان سائیڈ اپنی سرزمین کوپاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکے گی جبکہ پاکستان ،افغان طالبان کی مزاحمت کو روکنے کے لئے بھرپور تعاون کرے گا۔

پاکستانی سائیڈ کا مطالبہ ہے کہ افغان حکومت یا نیٹو فورسز ٹی ٹی پی اور جماعت الاحرار وغیرہ کے رہنمائوں کو مار دے یا پھر پکڑ کر پاکستان کے حوالے کردے جبکہ افغان سائیڈ کا مطالبہ یہ ہے کہ پاکستان ، افغان طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کردے یا پھر ان کو اپنی سرزمین سے نکال دے ۔ افغان حکومت نے ماضی میں آرمی پبلک اسکول کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی میں بھی اہم کردار اداکیا تھا مگر اب تحریک طالبان کے سربراہ ملا فضل اللہ کو ہلاک کرکے اس نے بڑا گول کردیا ہے ۔

اب وہ پاکستان سے بھی بڑی ڈیلیوری کا متمنی ہوگا ۔ اگرچہ ملا فضل اللہ امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے لیکن افغان حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ مشترکہ کارروائی تھی جس کے لئے انٹیلی جنس معلومات افغان اداروں نے فراہم کی تھیں ۔ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کا خود آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کو اس سلسلے میں فون سے بھی بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ افغان حکومت اسے اپنی طرف کا بڑا احسان سمجھ رہی ہے ۔

یوں اب وہ بجا طور پر پاکستان سے افغان طالبان کے ضمن میں سنجیدہ اقدامات کی متمنی ہوگی ۔ اسی طرح امریکہ کی طرف سے بھی اب دبائو مزید بڑھے گا۔ اگرچہ پاکستان میں ہم نے افغان اور پاکستانی طالبان کو الگ الگ اکائیاں ثابت کرنے کی بے بنیاد تھیوری ایجا د کرکے اس سوچ کو بھی پروان چڑھایا ہے کہ ٹی ٹی پی امریکہ اور را وغیرہ کی تخلیق ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مولوی نیک محمد ہوں، بیت اللہ محسود ہوں، حکیم اللہ محسود ہوں، قاری حسین ہوں ، اے پی ایس حملے کے ماسٹر مائنڈ خلیفہ عرف نرے ہوں یا پھر اب ملا فضل اللہ ، سب امریکی ڈرون حملوں میں مارے گئے ہیں ۔

امریکہ اور افغان حکومت کو شکایت ہے کہ اس کے جواب میں پاکستان نے کبھی افغان طالبان کے کسی بڑے رہنما کو ان کے حوالے نہیں کیا۔ پاکستان یہ عذر پیش کرتا رہا کہ چونکہ وہ ملک کے اندر اپنے طالبان سے نمٹ رہا ہے اس لئے وہ بیک وقت افغان طالبان کو بھی اپنا دشمن نہیں بناسکتا ۔ یقیناََ اس مرحلے پر افغان طالبان کو اپنا دشمن بنانا کسی بھی صورت پاکستان کے مفاد میں نہیں تاہم اب تو افغان حکومت اور امریکہ کا مطالبہ بھی ان کو مارنے کا نہیں بلکہ انہیں مذاکرات کی میز پر لانے کا ہے ۔

اس لئے اس موقع کو غنیمت جان کر پاکستانی سائیڈ کو بھی پورے خلوص کے ساتھ کوشش کرنی چاہئے کہ وہ افغان طالبان کو اپنی حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر لے آئے ۔ بدقسمتی سے اس وقت پاکستان میں انتخابات کا غلغلہ ہے ۔

ایک طرف افغان حکومت اور امریکہ کی توقعات بڑھ گئی ہیں اور دوسری طرف انتخابی ماحول کی وجہ سے پاکستانی ادارے اندرونی محاذ پر الجھے ہوئے ہیں ۔

یوں ضرورت اس امر کی ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ اسی طرح اپنی خصوصی دلچسپی برقرار رکھیں اور ذمہ دار ادارے پاکستان کی اندرونی سیاست سے صرف نظر کرکے پوری قوت افغان مسئلے کے حل میں تعاون پر مرکوز رکھیں۔ یہ موقع ہاتھ سے نکل گیا تو پھر دوبارہ امریکہ اور افغانستان کے ساتھ معاملات کو ٹریک پر لانا بڑا مشکل ہوجائے گا ۔ اگردونوں ممالک نے اسی طرح خلوص کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون جاری رکھا تو مختصر وقت میں دونوں ممالک کے لئے خطرہ بننے والی قوتوں کی سرکوبی ممکن ہے لیکن اگر ایسا نہیں ہوا تو کوئی زیادہ اور کوئی کم لیکن دونوں ممالک بدامنی کے شکار رہیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے