نفرت اور زہر میں بجھی ہوئی عید

بہت مرتبہ سوچا کہ میں بھی اوروں کی طرح اِس عید پر مبارک باد کا ایک پیغام لوگوں کو بھیج دوں مگر پھر لکھ کر کاٹ دیا۔

چند برس پہلے جب طالبان کے خونی دور میں عید آئی تو میں نے اپنے محترم استاد کو ایسا ہی ایک بنا بنایا پیغام بھیجا کہ آپ کو خوشیوں بھری عید مبارک ہو، انہوں نے جواب دیا بیٹا جب اپنے وطن میں روز دھماکے ہو رہے ہوں، ماؤں کے کڑیل جوان بیٹوں کی لاشیں گھر آ رہی ہوں، بیٹیوں کے سہاگ اجڑ رہے ہوں اور ہمارے فوجی اور سپاہی جنگ میں شہید کئے جا رہے ہوں تو پھر ایسے میں کیسی عید اور کون سی عید۔ بالکل درست بات کہی تھی انہوں نے۔ خدا کا شکر ہے وہ دور ختم ہوا، اب پچھلے دو چار برسوں سے ہم نارمل عید مناتے ہیں، کہیں سے کوئی دھماکے کی خبر نہیں آتی، کسی مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے خوف محسوس نہیں ہوتا اور کسی بازار میں خریداری کرتے ہوئے یہ دھڑکا نہیں لگا رہتا کہ کچھ ہو نہ جائے۔ لیکن شاید ہم بدقسمت لوگ ہیں، خوشی ہمیں راس نہیں آتی۔ دہشت گردی تو دھیرے دھیرے کم ہوئی مگر اب اِس معاشرے میں ایسی نفرت سرایت کر چکی ہے کہ خوف آتا ہے۔

سوچتا ہوں کن لوگوں میں جی رہے ہیں ہم۔ اٹھارہ سال کی لڑکی جو ایک بس سروس میں بطور میزبان ملازمت کرتی تھی اسے ایک سیکورٹی گارڈ محض اس لئے قتل کر دیتا ہے کہ وہ اُس سے شادی سے انکار کرتی ہے، ایک لمحے میں وہ خبیث اُس لڑکی کو گولی مار دیتا ہے اور وہ غریب وہیں تڑپ تڑپ کر جان دے دیتی ہے۔ کہاں کی عید اور کیسی عید۔ میں نے جب اُس لڑکی کے قتل کی ویڈیو دیکھی تو سر سے پیر تک لرز گیا، دوسری مرتبہ وہ کلپ دیکھنے کی مجھے ہمت نہیں ہوئی۔

ایک سیکورٹی گارڈ فیصل آباد کے ایک بس ٹرمینل میں ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد لڑکی کو روکتا ہے، دونوں میں چند لمحوں کے لئے تکرار ہوتی ہے، زبردستی وہ لڑکی کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کرتا ہے، لڑکی اپنا ہاتھ چھڑواتی ہے، جواب میں گارڈ اپنی بندوق سے اس پر فائر کرتا ہے، لڑکی گر جاتی ہے، چند ثانیوں کے لئے بے بسی سے تڑپتی ہے اور پھر وہیں سیڑھیوں پر مر جاتی ہے۔ لوگ آ جا رہے ہیں، زندگی رواں دواں ہے، ہم عید منا چکے ہیں، گارڈ گرفتار ہو چکا ہے، اخبارات میں خبر لگ چکی ہے، سوشل میڈیا پر قتل کا کلپ وائرل ہو چکا ہے اور ہم سب اپنے اپنے موبائل فون پر وہ کلپ دیکھ کر افسوس کا اظہار بھی کرچکے ہیں لیکن کیا فائدہ!

اٹھارہ سال کی وہ لڑکی جو اپنے گھر کی واحد کفیل تھی، ایک بھرے پُرے بس ٹرمینل پر ایک چیونٹی کی طرح مسل دی گئی، قصور اُس کا صرف اتنا تھا کہ وہ اپنے گھر سے باہر نوکری کرنے نکلی تھی، مجبور ی یہ تھی کہ اُس کے پاس اور کوئی آپشن نہیں تھا، وہ کسی ایسے گھرانے میں پیدا نہیں ہوئی تھی جہاں اُس کا باپ اسے شہزادیوں کی طرح پالتا، اپنی بچی کے پلک جھپکنے سے پہلے اُس کی ہر خواہش پوری کرتا، اسے اعلیٰ کالج میں داخل کرواتا، امرا کی طرح شادی کی شاپنگ کے لئے لامحدود رقم کا کریڈٹ کارڈ اپنی بیٹی کے پرس میں ڈال دیتا یا پھر جہیز میں اسے پلاٹ اور گاڑی دیتا۔ بدقسمتی سے اِس بچی کو ایسا باپ نہیں ملا تھا جو اس کے لئے یہ سب کچھ کر پاتا۔ وہ اُن لاکھوں کروڑوں بچیوں میں سے ایک تھی جو اِس سفاک معاشرے میں روز جیتی روز مرتی ہیں۔

وہ اُن میں سے تھی جنہیں کبھی یہ پتہ ہی نہیں چل سکتا کہ باپ کا لاڈ کیا ہوتا ہے۔ نہ جانے کن مصیبتوں سے اُس نے پندرہ بیس ہزار کی یہ نوکری لی ہوگی، اُس کا خیال ہوگا کہ ایسی جگہوں پر سیکورٹی گارڈ تحفظ کے ضامن ہوتے ہیں، اس بیچاری کو کیا معلوم کہ سیکورٹی گارڈ کا کام اب سیکورٹی نہیں رہا، مرتے وقت وہ یہی سوچتی ہوگی کہ اِس گارڈ کا کام تو میری حفاظت کرنا تھا مگراسی نے مجھے گولی مار دی!

ایسی خبروں کی تکلیف کم کرنے کے لئے ہم ایسے سہل پسند دانشوروں کے پاس دو نسخے ہیں۔

پہلا، فوراً گوگل کرکے بھارت کے اعداد و شمار کھنگالیں اور معلوم کریں وہاں ایسے کتنے قتل ہوتے ہیں اور پھر اُن سے اپنا موازنہ کرکے اطمینان کا سانس لیں، اس سے بھی بات نہ بنے تو مغرب میں جا گھسیں اور اُن کی خرابیاں گنوانی شروع کردیں اور لوگوں کو بتائیں کہ امریکہ میں ایسے کتنے قتل ہوتے ہیں، یورپ میں کتنی کم سن بچیوں کے ریپ ہوتے ہیں اور برطانیہ میں راہ چلتے ایسی کتنی وارداتیں ہوتی ہیں، ہمیں اپنے مطلب کے نمبر مل جائیں گے اور ہم سکون کا سانس لیں گے کہ پاکستان ابھی ان سب سے بہتر ہے۔ اس طریقے سے کام نہ چلے تو دوسرا نسخہ تو بالکل ہی آسان ہے، سفاک ہو جائیں، ایسی خبروں کو نظر انداز کر دیں زندگی سکون میں آ جائے گی۔ ہم میں سے جو لوگ کبوتر کی طرح آنکھیں بند رکھنا چاہتے ہیں وہ بے شک یہ نسخے آزمائیں، مگر درندوں کے اس معاشرے میں یہ نسخے زیادہ دیر تک کارگر نہیں رہیں گے۔

نفرت اور زہر کے جو بیج ہم نے اپنی سوسائٹی میں بو دیئے ہیں اس کے مزید ثمرات ابھی ہم نے سمیٹنے ہیں۔ ہم اس معاشرے میں زندہ ہیں جہاں ملک کی بہترین جامعہ سے فارغ التحصیل ہونے والا نوجوان اپنی ماں کی عمر کے برابر خاتون کے بارے میں، جسے چند گھنٹوں کے لئے اغوا کیا گیا تھا، ٹویٹ کرتا ہے کہ اس عورت کے لئے جنسی تشدد ہی بہترین علاج ہے۔

ہم اس معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں سوشل میڈیا پر ایک مخصوص طبقے کے پڑھے لکھے جیالے ایک بوڑھی بیمار ماں کی بیماری کا مذاق اڑاتے ہیں، سفاکانہ طعنے دیتے ہیں اور پھبتیاں کستے ہیں۔ ہم کہتے تھے ہمارا کلچر بہت خوبصورت ہے۔ سیاسی مخالفت جتنی بھی ہو، ہم ماؤں بہنوں کی تکریم میں فرق نہیں آنے دیتے کہ مائیں بہنیں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔ ہم نے سنا تھا کسی سیاسی مخالف کے گھر اگر دشمن خاندان کی عورت جا کر اسے بھائی کہہ دیتی تو اُس ’’بہن‘‘ کی بات ٹالنا ممکن نہ رہتا۔ کہاں گیا وہ کلچر اور کہاں گئیں وہ روایات۔ اس قدر نفرت اس قدر زہر ہم میں کہاں سے آ گیا؟؟؟

ہمارے ایک صحافی دوست نے عید کے روز اپنی بچیوں کی تصویر ٹویٹ کی تو نیچے ایک خاتون نے تبصرہ کیا کہ’’ اپنے بچوں کی تصاویر یہاں شیئر نہ کریں، لوگ سفاک ہیں، وہ آپ کا مذاق اڑائیں گے خاص طور سے اگر انہیں آپ کا نظریہ اُن کی پسندیدہ پارٹی کے حوالے سے پسند نہ آیا، اتنی پیاری بچیوں کو ان جانوروں کی نظروں سے دور رکھیں۔‘‘ بالکل درست کہا ان خاتون نے۔ یہ کہاں آ گئے ہیں ہم، یہ کیا ہو گیا ہے ہمیں، یہ کون سی درندگی ہم میں چھپی ہوئی تھی جو اب سوشل میڈیا پر باہر آ گئی ہے؟؟؟

یہ زہر، یہ نفرت، یہ درندگی شاید ہم میں پہلے بھی تھی مگر اتنی ،جتنی کسی بھی انسانی معاشرے میں ہو سکتی ہے، البتہ گزشتہ سات آٹھ برسوں میں اسے ایک مخصوص انداز میں پروان چڑھایا گیا ہے، ذاتی تعلقات اور دوستیاں اب بے معنی ہو چکی ہیں، شرم، دید، لحاظ اب پرانی بات ہوئی، اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے ہم کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں، یہاں کسی کو اس بات کی پروا نہیں کہ نفرت اور زہر کے جو بیج وہ بو رہا ہے اس کی زد میں ایک دن وہ خود بھی آئے گا۔ جو لوگ اس کا حل تعلیم میں تجویز کرتے ہیں ان سے درخواست ہے کہ نفرت سے بھرے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے پیچھے ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور غیرملکی جامعات کی ڈگریوں سے لدے پھندے ہیں، کسی کی ڈی پی پر آپ کو دین سے محبت کا اظہار ملے گا تو کوئی خود کو Proud Pakistaniکہہ رہا ہوگا۔اِن میں اور اُس اَن پڑھ سیکورٹی گارڈ میں کوئی فرق نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے