نصرت بھٹو بنام کلثوم نواز

باوفا منزل
مکافات نگر۔ ساتواں آسمان
میری بیمار بہن کلثوم!
صحت یابی کے لئے دعائوں کے ساتھ یہ خط اس لئے لکھ رہی ہوں کہ تمہاری حالت دیکھ کر مجھے 70اور 80کی دہائی کے وہ دن یاد آ گئے جب میں بھی تمہاری طرح مشکلات، بیماریوں اور مصائب کا شکار تھی اور دشمن اس حالت میں بھی مجھ پر پھبتیاں کستے تھے، میری بیماری کو بہانہ قرار دیتے تھے ان لوگوں کے دل پتھر کے ہیں۔ آج تمہارے ساتھ بھی وہی ہو رہا ہے،پنکی نے مجھے بتایا ہے کہ تمہیں کینسر ہے اور مصنوعی سانس کے ذریعے تمہیں صحت مند بنانے کی کوشش جاری ہے مگر بے حس لوگ تمہاری بیماری کو بھی مذاق بنائے ہوئے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ایک بظاہر پڑھا لکھا خود کھوج لگانے آئی سی یو پہنچ گیا ۔

جس معاشرے میں بیماروں ، کمزوروں اور مظلوموں سے اظہار ہمدردی نہ ہو وہاں ظلم بڑھتا ہے اور ظالم کھل کھیلتا ہے کیونکہ ظلم کے حامی ظالم کو شہہ دےکر شریک ظلم ہو رہے ہوتے ہیں۔

ڈئیر کلثوم!

یہ بے وفا لوگ کیا جانیں ، وفا کیا ہوتی ہے ؟یہ کیا جانیں کہ عورت ذات اپنے شوہر ، خاندان اور بچوں کے لئے کس طرح اپنا تن من اور دھن لٹا دیتی ہے۔بھٹو صاحب جیل گئے تو مجھے سیاست میں آنا پڑا اور پھر میں نے وفا کا عہد نبھایا ۔

بھٹو اور اس کی سیاست کو زندہ رکھا اور بالآخر بھٹو کی بیٹی بے نظیر کو اقتدار دلا کر بھٹو سے اپناعہد پورا کیا اور اس فرض سے سبکدوش ہوئی جو مجھ پر قرض تھا۔ مجھے علم ہے کہ تم بھی 1999ء کی بغاوت کے بعد گھر سے نکلی تھیں اور اپنی جدوجہد سے اپنے خاوند، بیٹوں بلکہ سارے خاندان کو پاکستان سے ایسے باہر نکال کر لے گئی تھیں جیسے مکھن میں سے بال نکالا جاتا ہے۔

مجھے قذافی اسٹیڈیم لاہور میں ایسی لاٹھی ماری گئی کہ آہستہ آہستہ میری یادداشت کھو گئی اور اسی اسٹیڈیم سے صرف ایک فرلانگ دور تمہیں لاہور والی نہر کے کنارے کئی گھنٹے تک کار میں محبوس رکھا گیا، تم نے بھی ماں اور بیو ی ہونے کا حق ادا کیا اور میں نے بھی اپنی ذات سےاوپر اٹھ کر پوری قوم کا سوچا اور اپنے خاندان کے لئے اپنے سکھ اور خوشیاں قربان کیں۔

بہن کلثوم!

آج کل تم بستر علالت پر ہو مگر میرے اور تمہارے بہت سے دکھ سانجھے ہیں۔ عورت ہونے کے ناطے میں سمجھ سکتی ہوں کہ تمہیں کیا کیا سوچیں تنگ کرتی ہونگی میری بہو غنویٰ اور میری بیٹی بے نظیر کی کبھی نہیں بنی، بے نظیر نے اپنے بچوں کی اچھی تربیت کی مگر غنویٰ ذوالفقار جونیئر کو اپنے دادا اور والد کی سیاسی وراثت منتقل نہ کر سکی اور وہ کسی اور ہی طرف نکل گیا۔ مریم کی بھی شروع میں حسین کی بیوی سے نہیں بنتی تھی مگر اب سنا ہے کہ کچھ حالات بہتر ہوئے ہیں حسین کے بیٹے سمجھ دار ہیں مگر سیاست والی تیزی صرف مریم ہی میں ہے۔

اگلے دن ذوالفقار علی بھٹو اور پنکی بے نظیر دونوں بیٹھے مریم کی جرأت اور بہادری کی تعریف کر رہے تھے پنکی بتا رہی تھی کہ پہلے مطالبہ کیا جاتا تھا کہ نواز شریف اور مریم انتخابات کے انعقاد تک بیرون ملک ہی رہیں اب یہ شرط رکھی جا رہی ہے کہ مریم کو بیرون ملک روکا جائے وہ نواز شریف سے بھی زیادہ خطرناک ہوتی جا رہی ہیں، بھٹو صاحب کہہ رہے تھے مریم ڈٹی رہی تو دوسری بے نظیر بن سکتی ہے ۔ لیکن اگر مصلحت اور مصالحت کے راستے پر چل پڑی تو زندگی آسان بنا لے گی مگر سیاست میں اس کا قد کم ہو جائے گا۔

ڈئیر کلثوم!

تم مجھ سے عمر میں چھوٹی ہو لیکن ہماری اولاد کی محبت اور دکھ ایک جیسے ہیں ہم دونوں کے داماد آصف اور صفدر بڑے وفادار ہیں آصف بڑا بہادر ہے پنکی کو تحفظ دیتا رہا اس میں دنیا داری تو بہت ہے مگر جیالوں والا جوش بالکل نہیں ہے، صفدر میں جوش کچھ زیادہ ہی ہےاتنا کہ بعض اوقات وہ ہوش ہی کھو بیٹھتا ہے۔ بلاول بہت اچھا جا رہا ہے تمہارے پوتوں اور نواسوں میں سے ابھی کوئی سامنے نہیں آیا ۔ جنید صفدر آگے آئے گا یا پھر حسین نواز کے بیٹوں ذکریا یا زید مناسب رہیں گے؟

میرا بیٹا مرتضیٰ اولاد کے حوالے سے بہت پریشان ہے کل بھی میرے پاس آیا تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے کہتا تھا کہ میں نے غنویٰ پر اعتبار کیا فاطمہ کو بڑے لاڈ سے پالا اور وہ بڑی عقل مند بھی نکلی مگر غنویٰ اور فاطمہ نے ، ذوالفقار جونیئر کی سیاسی تربیت پر توجہ نہ دی اور اب میرے بیٹوں کی اولاد تو سیاست سے باہر ہی ہو گئی ہے آپ بھی مریم اور حسین نواز کو کہو کہ بچوں کو پیانو اور میوزک سکھانے کےبجائے سیاست کی تلخیاں بھی سکھائیں ۔ غنویٰ ذوالفقار کو پیانو سکھاتی رہی جبکہ بے نظیر بلاول کو باپ کی پھانسی کی کہانیاں سناتی رہی ۔ تربیت ہی سے انسان بڑا بنتا ہےسکندر اعظم کی ماں، بیٹے کو سانپوں سے کھلاتی تھی کہ اس کا خوف ہمیشہ کے لئے دور ہو جائے۔

پیاری کلثوم !

مجھے پنکی بتا رہی تھی کہ تمہارا اردو ادب سے خاصا تعلق رہا ہے میں نے فارسی ادب پڑھ رکھا تھا اور میں بھٹو صاحب کو اکثر فارسی محاورے ، اردو ترجمے کے ساتھ سناتی تھی ۔مجھے یہ بھی علم ہے کہ میری طرح تمہاری بھی لو میرج تھی ۔

بھٹو صاحب تو بڑے رومانوی آدمی ہیں اب بھی عالم بالا میں انگریزی کے رومانوی اشعار پڑھ کر مجھے خوش کردیتے ہیں مجھے علم ہے کہ نواز شریف گھر پر بہت وقت دیتے ہیں انہیں کہو کہ کتابوں سے لو لگائیں کتابیں پڑھنے سے ان کے انقلابی سیاسی نظریات کو جلا ملے گی وہ تجربے کی آنچ میں تو پک چکے ہیں مگر خیالات اور نظریات کو دلائل کی بنیاد مطالعہ ہی فراہم کر سکتا ہے ۔ مریم کو بھی بے نظیر بھٹو کی طرح انٹر نیشنل معاملات میں دلچسپی لینی چاہئے اگر اس کے سامنے پنجاب کے کسی انتظامی عہد ے یا مرکز میں لیڈر آف دی اپوزیشن کی چوائس ہو تو اسے لازماً لیڈر آف دی اپوزیشن کا عہدہ لینا چاہئے۔

آخر میں بتانا چاہتی ہوں کہ چند دن پہلے میں محترمہ فاطمہ جناح کو سلام کرنے گئی تھی، وہ مجھے گرلز گائیڈ کے زمانے سے جانتی ہیں۔ میں بطور گرل گائیڈ ان سے ملتی رہی تھی، وہ بھی مجھے کہہ رہی تھیں کہ پاکستان میں خاتون لیڈرز کی جدوجہد کو تسلیم نہیں کیا جاتا ۔فاطمہ جناح ہوں ، میں ہوں یا کلثوم تم ہو ہماری مظلومیت پر لوگوں کو ترس نہ آیا۔ پھر بھی ہم مائیں ہیں ہم اپنے مخالفوں کو بھی دعائیں ہی دیتی ہیں۔

والسلام
نصرت بھٹو

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے