اسکرپٹ، دستکاری اور دیگر مصنوعات کا گوشوارہ

پانچ برس گزرے ایسے ہی روشن دن تھے، مئی کا سورج آگ برسا رہا تھا۔ گیارہ تاریخ کو عام انتخابات منعقد ہونا تھے۔

نجی ٹیلیوژن چینلز پر انتخابات کی لمحہ بہ لمحہ کوریج کے لیے الیکشن سٹی سجائے جا رہے تھے۔ ملکی افق پر دو بڑے مسائل درپیش تھے۔ دہشت گردی اپنے عروج پر تھی۔ کم از کم تین سیاسی جماعتوں، اے این پی، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے خلاف دہشت گرد طالبان کی دھمکیاں گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور بارود کی بو میں تبدیل ہو چکی تھیں۔ حیران کن طور پر مسلم لیگ نواز اور پاکستان تحریک انصاف کی انتخابی مہم میں ایسا کوئی خلل پیدا نہیں ہوا۔ عام آدمی کی زندگیوں پر براہ راست اثر انداز ہونے والا دوسرا اہم مسئلہ توانائی کا بحران تھا، صنعتیں بند پڑی تھیں، سی این جی اسٹیشن کے سامنے میلوں لمبی قطاریں تھیں اور لوگ لوڈشیڈنگ کے اوقات پوچھنے کی بجائے یہ دریافت کر رہے تھے کہ بجلی کس روز آئے گی؟

پیپلز پارٹی نے گرتے پڑتے اپنی آئینی میعاد مکمل کر لی تھی لیکن یہ بالکل واضح تھا کہ برسراقتدار جماعت انتخاب سے پہلے ہی کھیل سے باہر ہو چکی تھی۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں پانچ برس عدلیہ کی بحالی، کیری لوگر بل، اٹھارہویں آئینی ترمیم، سوات میں فوجی کارروائی، شمالی وزیرستان میں کارروائی سے انکار، میمو گیٹ اسکینڈل اور مولانا طاہرالقادری کی تنبیہ الغافلین انگلی سے جھوجھتے گزر گئے تھے۔ 1996ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت ختم کی گئی تو عاصمہ جہانگیر نے ایک پتے کی بات کہی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر منتخب حکومت کو اپنا ہر دن ایک نئے بحران اور نئے ہنگامے سے نمٹنے میں گزارنا ہو گا تو ناگزیر طور پر جمہوریت اپنا کام نہیں کر پائے گی۔

محترم افراسیاب خٹک نے دسمبر 1997ء میں کہا تھا کہ اگر ضیاالحق فضائی حادثے میں جاں بحق ہونےکی بجائے اپنے جرائم کی سزا عدالت سے پاتے تو شاید جمہوری ارتقا کی صورت کچھ مختلف ہوتی۔ ہوا یہ کہ مسلم لیگ کی فروری 1997ء میں منتخب حکومت کو اکتوبر 1999ء نے آ لیا۔ 14 برس بعد ہم 2013 کے انتخاب میں اترے تو قومی تمثیل پر انتخابی دستکاری اور غیر سیاسی اسکرپٹ کے نشانات بہرحال موجود تھے۔ دقت یہ پیش آئی کہ انتخابی جیکٹ میں بارود مطلوبہ مقدار سے کچھ زیادہ ہو گیا۔ پیادہ رسالے سے آگے نکل گیا۔ نتیجہ یہ کہ انتخابات میں مسلم لیگ نواز کو سادہ اکثریت مل گئی۔ پورے ملک میں چند ہی لوگ جانتے تھے کہ 2010ء میں کی گئی اٹھارہویں آئینی ترمیم کچھ نازک مزاج طبیعتوں پر بہت گراں گزری ہے۔

خیال یہ تھا کہ انتخابات میں ایک معلق اور کمزور پارلیمنٹ سامنے آئے گی جسے نوے کی دہائی کی طرح مسلسل اکھاڑ پچھاڑ کے جھنجھٹ میں ڈال کر 1985 اور 2003 جیسی آئینی ترامیم کا باب دہرایا جا سکے گا۔ انتخابات کے نتیجے میں جو حکومت سامنے آئی، اس نے توقعات کے برعکس سابق فوجی آمر پرویز مشرف پر آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ چلانے کا اعلان کر دیا۔ 2013 کے موسم خزاں میں سامنے آنے والے اس قضیے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی حکومت زمین پر پاؤں جما نہیں سکی۔ دہشت گردی کا مسئلہ بڑی حد تک حل ہو گیا، توانائی کے گرڈ میں 10000 میگاواٹ بجلی کا اضافہ ہوا۔ پورے ملک میں نقل و حمل اور مواصلات کے انفراسٹرکچر میں واضح بہتری آئی۔

چین کے تعاون سے سی پیک پر کام زور و شور سے شروع ہوا، سی پیک منصوبے پر اس وقت کے صدر آصف زرداری نے مئی 2013 کے تیسرے ہفتے میں دستخط کیے تھے۔ مسلم لیگ نواز کی حکومت دو ہفتے بعد پانچ جون کو قائم ہوئی۔ سوال کسی سیاسی جماعت کی بہتر یا کمزور کارکردگی کا نہیں، جمہوری بندوبست بذات خود تسلسل کا تقاضا کرتا ہے۔ پیپلز پارٹی نے سی پیک اور بے نظیر انکم سپورٹ کے منصوبے شروع کیے تھے، انہیں اگلی منتخب حکومت نے اپنا لیا۔ مشکل یہ ہے کہ اگر آئینی بندوبست پر نادیدہ فصیلوں سے چاند ماری ہوتی رہے تو انتخابات سیاسی قیادت کی کارکردگی جانچنے کی بجائے قیاس آرائی کی مشق بن جاتے ہیں۔ پچھلے دس سال میں کمزور اور پامال جمہوری بندوبست کے باوجود ریاست کے اداروں اور عوام کے حق حکمرانی میں کشمکش کا سوال مسلسل سر اٹھاتا رہا ہے۔ یہ سوال 2008 میں بھی موجود تھا۔ 2013 میں بھی یہی سوال کانٹے کی طرح کھٹک رہا تھا۔ 2018 میں تو معاملات زیادہ واضح ہو چکے ہیں۔

اتفاق دیکھیے کہ ایک روز کراچی میں مسلم لیگ (نواز) کا صدر انتخابات کے بعد قومی حکومت بنانے کا عندیہ دیتا ہے۔ اگلے روز پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے اسلام آباد میں سنسر شدہ اور ملاوٹ زدہ جمہوریت کو رد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اگرچہ سیاسی مبصرین پاکستان پیپلز پارٹی کی واضح انتخابی کامیابی کا کوئی امکان نہیں دیکھتے تاہم یہ طے ہے کہ انتخابات کے بعد بننے والی تصویر میں پیپلز پارٹی کا کردار اہم ہو گا۔ مسلم لیگ نواز میں میاں نواز شریف اور شہباز شریف کی سیاست میں جو فاصلہ موجود ہے پیپلز پارٹی میں آصف زرداری اور بلاول بھٹو کی صورت میں وہی تفریق موجود ہے۔ اسے محض حسن اتفاق سمجھنا چاہیے کہ تحریک انصاف، مسلم لیگ ق، سندھ کے گرینڈ جمہوری اتحاد اور بلوچستان میں ابھرنے والی نئی سیاسی قوتوں کو یہ سوالات پریشان نہیں کر رہے۔

ایک ذاتی تاثر کی اجازت دیجیے۔ 2013ء میں تمام سیاسی ہنگاموں کے باوجود آئندہ حکومت میں استحکام کی امید موجود تھی۔ بدقسمتی سے 2018 کے انتخابات کی طرف بڑھتے ہوئے یہ خوش فہمی دور ہو چکی ہے۔ اس ملک میں بنیادی سیاسی صف بندی وہی ہے جو سات عشروں سے موجود ہے۔ اس میں نام اور چہرے تبدیل ہوتے ہیں لیکن بنیادی کشمکش یہ ہے کہ ریاست نے قوم پر کاٹھی ڈال رکھی ہے۔ 1958 میں جسٹس رستم کیانی کی آواز ہماری ڈھارس بندھاتی تھی، دسمبر 1964 میں مادر ملت فاطمہ جناح پارلیمانی جمہوریت کا مطالبہ کرتی تھیں۔ 1978 میں قذافی اسٹیڈیم کے باہر بیگم نصرت بھٹو پر لاٹھیاں برسائی جا رہی تھیں۔ 1999 میں لاہور کی سڑکوں پر بیگم کلثوم نواز کی گاڑی گھنٹوں ہوا میں معلق رہی۔ بیس برس اور گزر گئے۔ جدوجہد کی یہ میراث اب مریم نواز اور بلاول بھٹو کو منتقل ہو چکی ہے۔ تخت سے عیسیٰ کب اترے گا…

فرق صرف یہ ہے کہ ہر گزرتے ہوئے برس کے ساتھ ہماری امیدوں کی روشنی کم ہوتی جاتی ہے۔ دیر کیا ہے، آنے والے موسمو، دن گزرتے جا رہے ہیں، ہم چلے… یہ تفصیل غیر اہم ہے کہ کس الیکٹ ایبل نے کتنی سیاسی جماعتیں تبدیل کیں؟ الیکٹ ایبل کا تصور ہی جمہوری ثقافت سے متصادم ہے۔ کس کی دوسری شادی طشت از بام ہوئی اور کس کے اثاثے مشتبہ قرار پائے؟ کس سیاسی رہنما کو انتخاب کے لئے نااہل قرار دے دیا گیا اور کسے صادق اور امین کی خلعت ملی؟ اے پی این ایس کے صدر حمید ہارون نے 30 مئی کو گزشتہ حکومت کے آخری روز اسلام آباد میں ایک اہم تقریر کی تھی، ظاہر ہے کہ اسے ریحام خان کی موعودہ کتاب اور پاکپتن کے روحانی اشغال جیسی چکا چوند توجہ تو نہیں مل سکی لیکن وقت نے بتایا ہے کہ قوم کا مستقبل چیختی چنگھاڑتی شہ سرخیوں میں متعین نہیں ہوتا۔ قوم کے مستقبل کی پیش بینی اس خبر میں پائی جاتی ہے جسے اشاعت سے روک دیا جاتا ہے۔ انتظار حسین حیات ہوتے تو انہوں نے مہابھارت سے کوئی حوالہ پیش کیا ہوتا، درویش بے نشاں کو آرتھر ملر کی تمثیل ’ڈیتھ آف اے سیلز مین‘ کا وہ مکالمہ یاد آتا ہے جہاں نوجوان ہیپی لومین اپنے باپ سے کہتا ہے۔

[pullquote]Everything around me is so foul that I have been constantly lowering my ideals… [/pullquote]

مشکل یہ ہے کہ آدرش کی لو نیچی رکھنے سے اندھیرا دور نہیں ہوتا۔ کسی نہ کسی کو رک کے سوچنا پڑے گا کہ اصل مسئلہ جمہوری آدرش کی روشنی نہیں بلکہ اس جمہوری انحراف کی تاریکی کا ہے جس نے ہمیں حصار کر رکھا ہے۔ کیا خاک جیے کوئی، شب ایسی، سحر ایسی…

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے