شہباز شریف کا ’’کرانچی‘‘

یوں لگتا ہے پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ توہین عدالت کا ہے۔

جتنے لوگ انتخابات میں مقابلے کے لئے امیدوار بنے ہیں‘ ان کا مسئلہ یہ نہیں کہ وہ الیکشن میں مقابلے کے لئے آئے ہیں‘ ان کاسب سے بڑا مسئلہ توہین عدالت کا ہے۔ جہاں تک پاکستانی عوام کا تعلق ہے‘ انہیں عدلیہ کی عزت و احترام میں ذرا سا بھی شک نہیں۔ اس کے باوجود جب کوئی انتخابی مہم شروع ہوتی ہے توسب سے زیادہ عدالتیں ہی زیر بحث آتی ہیں۔

آج جولائی کی تین تاریخ ہے او ر 25جولائی کو الیکشن ہونے والے ہیں۔ ابھی تک الیکشن میں حصہ لینے والی ساری جماعتوں نے اپنے منشور پیش نہیں کئے۔میں یہ تو نہیں جانتا کہ روایت کے مطابق امیدواروں کو پہلے عدلیہ کے سامنے پیش ہونا ہے‘عوام کے سامنے پیش ہونا ہے یاتھانیدار کے سامنے پیش ہونا ہے۔ کوئی نہ کوئی تو ہو گاجس کے سامنے امیدوار پیش ہو رہے ہیں۔پارٹیاں الیکشن لڑرہی ہیں ‘ ان کے منشور ابھی تک نہیں آئے۔ جماعتیں الیکشن میںایک دوسرے سے دست وگریبان ہیں‘ ان کے لیڈروں کا ہی پتہ نہیں۔

ادھر انتخابات کی تیاری ہوئی اور ادھر سب سے بڑی پارٹی کا سربراہ لندن چلا گیا۔ ووٹ پاکستان میں ڈالے جا رہے ہیں‘ لیڈر صاحب لندن کی سیر کر رہے ہیں۔لوگوں کو یہی سمجھ نہیںآ رہی کہ جیسے ہی الیکشن کا اعلان ہوتا ہے‘ ایک لیڈر صاحب بھاگم بھاگ لندن جا پہنچتے ہیں۔ پاکستان کے انتخابات اور لندن میں آخر تعلق کیا ہے؟ہم نے سیاست کا سبق انگریزوں سے سیکھا لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ جب بھی انتخابات ہوں ‘ ہمارے لیڈر لندن کا رخ کر لیں۔ لیڈر انتخابات میں باہمی مقابلوں کا سبق کیوں نہیں سیکھ لیتے؟ ستر سال ہونے کو آئے‘ کامیابی یا ناکامی کے معاملے میں فیصلہ کرنا ‘کس پارٹی نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کئے‘ کس نے کم ووٹ حاصل کئے‘ اس کے بعد مباحثے چلتے ہیں کہ سب سے زیادہ ووٹ لینے والی پارٹی کون سی ہے؟ کس نے سب سے کم ووٹ حاصل کئے اور درمیان میں کھڑی پارٹیاں ایک دوسرے کے بارے میںکیا رائے دے رہی ہیں؟

پاکستان میں جب بھی انتخابات ہوتے ہیں‘ آبادی پر جھگڑا پڑ جاتا ہے۔ مجھے کوئی ایسا الیکشن یاد نہیں جب پارٹیاں آپس میں فیصلہ کر سکی ہوں کہ کس صوبے‘ کس شہر کی آبادی زیادہ ہے۔آزادی کے بعد طویل عرصے تک ہم یہی بحث کرتے رہے کہ سب سے زیادہ آبادی کس صوبے کی ہے‘ برسوں تک یہی فیصلہ نہیں ہوا۔ یہ بحث کرتے کرتے ہم نے اپنا ملک ہی توڑ لیا۔ اگر یہ فیصلہ ہمیں پر چھوڑ دیا جاتا تو ہم شاید ابھی تک ہی جنگ و جدل میں مصروف ہوتے۔اللہ کے فضل سے مشرقی پاکستان میں بھی کافی زیادہ آبادی تھی اور مغربی پاکستان میں بھی ‘مگر ہم یہی فیصلہ کرتے کرتے کئی انتخابات کروابیٹھے ‘مگر فیصلہ نہیں کر پائے۔

دشمن نے ہماری لڑائیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے براہ راست معاملہ جنگ تک پہنچا دیا۔ جنگ ہو گئی‘ فیصلہ ہو گیا۔ لڑائی ابھی تک ہو رہی ہے۔پنجاب والے کہتے ہیںہم بڑے ہیں‘ سندھ والے خود کو دوسرے نمبر پر بتاتے ہیں۔ فی الحال تادم تحریر صرف پانچ صوبوں پر بات چل رہی ہے۔ مزید کتنے صوبے بننے ہیں‘ اس پر مباحثہ ہو رہا ہے۔ کون سے صوبے کو کیا اختیارات دئیے جائیں اور کیا حقوق‘ اس پر فیصلہ نہیں ہو پا رہا۔ کئی قومی اسمبلیاں بنیں‘ پارلیمنٹ میں متعدد مباحثے ہوئے‘ ہم ابھی تک ایک دوسرے کو ٹکڑیں مار رہے ہیں کہ کون سے صوبے کے کتنے حقوق ہیں۔

کیا قارئین میں سے کوئی بتا سکتا ہے کہ جغرافیے کے مطابق ہمارے کتنے صوبے ہونا چاہئیں؟ کس صوبے میں کتنی سڑکیں بننی چاہیں ؟ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے ہمارا سب سے بڑا صوبہ ہے‘ طوالت میں سب سے کم سڑکیں ادھر کیوں ہیں؟ کوئی یہ بتائے گا کہ کس صوبے کو کتنی پولیس چاہیے اور کتنے تھانے مطلوب ہیں اورکتنی جیلیں؟چور زیادہ پکڑنے چاہئے یا جرائم پیشہ لوگ؟ مگر ہم تو یہ بھی طے نہیں کر پائے کہ ہمیں زیادہ چوروں کی ضرورت ہے یا پارلیمنٹ کے ممبروں کی۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ پاکستان کے اندرنہ ہم آبادی کے اندازے کر سکے ہیں اور نہ ہی حقوق کی حدود طے کر پائے ہیں۔ ہم یہ آخری اندازہ بھی ابھی تک نہیں کر پائے۔ سندھ والے قیام پاکستان سے لے کر اب تک تنازع لیے کھڑے ہیں کہ ہماری آبادی زیادہ ہے۔ صوبے تو یہ بات کریںسو کریں‘ سندھ میں تو ایک شہر بھی اپنے حقوق پر پھڈا ڈالے کھڑا ہے۔یہ لطیفہ یہیںپر ختم نہیں ہوتا۔ جس شہر کے لیڈر اپنی آبادی کا فیصلہ چاہتے ہیںوہ ایک پارٹی سے شروع ہوئے تھے۔

حقوق پر جھگڑا ابھی تک چل رہا ہے‘شہر بھی چل رہا ہے۔ لوگ بڈھے ہو گئے لیکن یہ فیصلہ نہیں ہو پایا کہ سندھ میں کون سے شہر کی کتنی آبادی ہے؟ کتنی پارٹیاں ہیں‘ کتنے لیڈر ہیں اور ہر پارٹی میں کتنے گروپ ہیں؟ وہ ملکی سطح پر بھی دست و گریباں ہوتے رہتے ہیں کہ صوبے کے اندر کس شہر کی نمائندگی کا حق کس کو حاصل ہے؟بخدا
قارئین مجھے مخبوط الحواس نہ سمجھیں۔ میں تو پورے حقائق بھی بیان نہیں کر پایا۔ پورے صوبے میں ایک خاص آبادی اپنے لئے علیحدہ حقوق مانگ رہی ہے۔ یہ طے ہو گیا۔ لیکن اب یہ طے نہیںہو رہا کہ کتنے لوگ لکھنو سے ہجرت کر کے آئے ہیں‘ کتنے پنجاب سے‘ کتنے میرٹھ سے‘ کتنے دِلّی سے اور باقی پتہ نہیں کہاں کہاں سے۔ان کی آبادی ایک کروڑ سے زیادہ نہیں مگر ان کی پارٹیاں پنجاب سے بھی زیادہ ہیں۔زیادہ جماعتیں بنانے کا فائدہ یہ ہے کہ آبادی کے ہر حصے کا لیڈر علیحدہ ہونا چاہئے۔اسے پارلیمنٹ میں الگ سیٹیں ملنا چاہیں۔

ہر پارٹی کا لیڈر اپنی نمائندگی کے لئے لڑنے میں مصروف ہے۔ پہلے یہ تنازع تھا کہ ایم کیو ایم کراچی کے کس حصے کی نمائندگی کا حق رکھتی ہے‘ اب تو یہ معاملہ بھی پیچھے رہ گیا ہے۔ مجھے نہیں پتہ کون سا لیڈر اس بنا پرعلیحدہ ہے‘ لیکن مہاجروں کی نمائندگی کرنے والے بہت زیادہ ہیں۔ یہ فیصلہ بھی نہیں ہو رہا کہ کس گلی میں رہنے والوں کے کتنے لیڈر ہیں؟ ہر لیڈر کا منشور کیا ہے؟ ستر سال ہو گئے ایم کیو ایم کے لیڈر کسی کی سمجھ میں نہیں آرہے۔ ایک تھے‘ جو ”ڈنڈے اورکنڈے‘‘ کا استعمال کر کے اپنی پارٹی کے ہر رکن کویہ تسلیم کرنے پر مجبور کرتے رہے کہ اصولاً ہر کمیونٹی کی ایک ہی جماعت ہونی چاہیے‘ اس کا ایک ہی لیڈر ہونا چاہئے۔وہ پاکستان چھوڑ گئے لیکن ایم کیو ایم والے پارٹیاں بنانے سے باز نہیں آئے اور اس سے بھی زیادہ لیڈر” ایجاد‘‘ کر لیے۔ لسانی اور نسلی بنیادوں پرمہاجروں کی کتنی جماعتیں اور کتنے گروپ ہونا چاہیں؟ کراچی میں کتنے لیڈر‘ کتنے لسانی گروپ اور کتنی جماعتیں ہونا چاہیں؟

جیسے ہی آپ کراچی کے ریلوے سٹیشن یا ایئر پورٹ پر اتریں فوراً ہی جھگڑا شروع ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات یوں بھی دیکھا گیا ایک ساتھ کراچی میں اترنے والے‘ زمین پر قدم رکھتے ہی جھگڑا شر وع کر دیتے ہی کہ میں کس گلی کا نمائندہ ہوں‘ کس محلے کا نمائندہ ہوں۔ نچلی منزل کا نمائندہ ہوں یا اوپر والی منزل کا۔ الیکشن چلتا رہے گا۔ ٹریفک چلتا رہے گا۔ قومیں ایجاد ہوتی رہیں گی۔پاکستان کے تمام علاقوں اور تمام آبادیوں کے بارے میں فیصلے ہوتے رہیں گے۔ جو نہیں ہوگا وہ کراچی میں ایم کیو ایم کے گروپ کا مسئلہ ہے۔ ساری قوم کے ووٹروں کا تعین ہوجائے گا لیکن بقول شہبازشریف” کرانچی‘‘ میں کتنے گروپ ہیں؟ وہاں کے لوگ تو پان لگانے کے طریقوں پر بھی تنازعے کی وجہ نکال لیتے ہیں۔ یہ لکھنو والے اپنے پان میں کیا کچھ لگاتے ہیں؟ کتنا تمباکو ڈالتے ہیں؟ کتنا کتھا ڈالتے ہیں؟ رہ گیا چونا‘ تو یہ سب ایک دوسرے کو لگاتے ہیں۔ایک لیڈر صاحب تواس پر اصرار کر رہے تھے کہ وہ سات پارٹیوں کے صدر ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے