ًّمعرکہ 2018 اور کھیل

معرکہ 2018ء کا آغاز ہو چکا، لیکن اس کی ’’تیاریاں ‘‘ بہت پہلے سے جاری ہیں۔ یہاں تیاریوں سے مراد سیاسی جماعتوں کی جمہوری تیاریاں نہیں۔ غیر جمہوری ’’تیاریاں‘‘ ہیں۔ طوالت سے بچنے کے لئے جنرل راحیل شریف کے بعد کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں،کیونکہ دھرنا اور اس سے پہلے کی ’’تیاریوں‘‘ پر بہت کچھ لکھا اور بولاجا چکا۔ کوئی مانے نہ مانے حقائق اب تک صراحت کے ساتھ واضح ہوچکے ہیں۔

جنرل راحیل کے جانشین کے تقرر نے بہت سوں کو فکر مندکر دیا .
’’بڑاکام‘‘ شروع کردیا گیا۔ اب نئے سرے سے کام شروع ہوا تھا۔ مسائل پیدا کرنے والے اصل ذمہ دار وں کا تعین شروع ہوا۔ پہلا نمبر لگا خواجہ آصف کا ، پھر سعد رفیق، نوازشریف اور ابصار عالم۔ ان کو نکال باہر کرنا بہت لازم قرار پایا۔ اسحاق ڈار کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا فیصلہ ہوا۔ انٹیلی جنس رپورٹ کے عین مطابق وہ گھیرا تنگ ہونے پر فرار ہوگئے۔

خواجہ آصف لیفٹ رائٹ کے ماہر نکلے اور فوکس سے آؤٹ ہوتے رہے۔ سعد رفیق نے سمجھ دار مشوروں پر مبنی کچھ تقریریں کیں۔وہ بھی بچتے بچاتے نکلے۔ پھر نواز شریف کو تنگ گلی میں لے جانے کے لئے مشاہد اللہ کی قربانی مانگی گئی، دے دی گئی۔ پرویز رشید کی قربانی بھی دے دی گئی، لیکن بچت نہ ہونا تھی ،نہ ہوئی۔ نواز شریف سب جانتے ہوئے چومکھی لڑتے رہے۔ مانتے بھی رہے اور نہ بھی مانے۔ اصولی مؤقف برقرار رکھا تاہم کچھ کچھ نقصان ضروراٹھالیا،لیکن اب یہ پالیسی انتہائی زچ کر دینے والی تھی۔

ناقابل برداشت۔ پھر ایک ہی فیصلہ ہوا کہ ’’بڑے ‘‘ کولٹا لو۔ سب کے لئے مثال بنا دو اس کے سوا اب کوئی چارہ نہیں۔ نوازشریف کو نکال دیا گیا۔شہباز شریف کو بٹھا کر سمجھایا گیا کہ ایسا ہوگا ہر کسی کے ساتھ جو بھی اُڑے گا۔ اس نے بھی ڈرامہ کیا۔ ڈرنے اور خوف زدہ نظر آنے کا ڈرامہ۔ بھائی کا ساتھ بھی دیا اور اپنے بھائی کے بیانیے کو دہرایا بھی نہیں۔ خواجہ آصف وزارت دفاع کی آڑ میں بچتے آئے، لیکن وزارت خارجہ ملتے ہی ان میں بیانیہ لوٹ آیا اور پھر وہ تھے نشانہ اور نشانہ بن گئے، لیکن جس کا نمبر سب سے آخر میں تھا وہ خواجہ آصف سے بھی پہلے نشانے پر آگیا۔ ابصار عالم۔ وجہ بنا جیو۔ گیمز میں ایک اسٹریٹجی ہوتی ہے کہ طاقت ور کو گراؤ، لٹاؤ، لتاڑو اور دوسروں کو بھی دکھاؤ۔باقی سب سیدھے ہوجائیں گے۔

اسی سٹرٹیجی کے تحت جیو کو بند کرنے کی کئی کوششیں ہوئیں ابصار عالم نے ناکام بناد یں۔ پیمرا جس میں کبھی کوئی دم خم نہیں تھا۔ مختصر عرصے میں ادارہ بن گیا لوگوں کو اپنی ذمہ داریوں اور اختیارات دونوں کا احساس ہوا۔ جب کبھی غیر جمہوری اقدام اٹھایا گیا پیمرا کے لوگوں نے آگے بڑھ کے ہاتھ کو روک دیا۔

نواز شریف کی ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ جی ٹی روڈ ریلی کے دوران بھی جیو کو بند کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن ابصار عالم اور پیمرا کے لوگوں نے ناکام کردی۔جیو کو لٹا کر دوسروں کو پیغام میں تاخیر ہوئی کہ اوپر والے بھناّ اٹھے،جس پر ابصار عالم کا نمبر لگ گیا اور پھر وہ کام بھی تمام کردیا گیا۔

سعد رفیق کا نمبر آخر پر چلا گیا جب تک شور ہی اتنا مچ چکا تھا کہ اسے نکالنے کی نوبت ہی نہ آئی۔

وارگیمز میں حلقہ 120کا انتخاب ایک بڑی گیم تھی۔ کئی بارلکھ چکا کہ اسے بالکل جنگی حکمت عملی پر لڑا گیا، لیکن وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔ ایم کیوایم کا نام ہٹانے کی گیم بھی ناکام ہوئی۔

فاروق ستار کو مصطفی کمال کے ساتھ بٹھا دیا گیا۔ ایم کیوایم کے خاتمے کا اعلان بھی کرا دیا گیا، لیکن فاروق ستار اپنی گیم کر گئے اور ایم کیوایم آج بھی موجود ہے۔ اس کی موجودگی کا فائدہ یا نقصان بھی انتخابات میں سامنے آجائے گا۔

مسلم لیگ (ن) کو توڑپھوڑ کر رکھ دینے والی گیم بھی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کرسکی۔ چودھری نثار کو بغاوت پر آمادہ کیا گیا۔ چاہنے والے چاہتے تھے کہ نوازشریف چودھری نثار کی چال میں آجائے اس کے سخت بیانات کا جواب دے پھر ایک تماشا لگایا جائے۔ بیچ چوراہے سب کچھ پھوڑا جائے وہ بھی بتایا جائے جو نہیں تھا۔

نوازشریف نے کمال صبر اور دانش مندی دکھائی خود خاموش رہے۔ پھر کیا کرتے۔ نواز شریف کو جوتے پڑوائے گئے منہ بھی کالا کرانے کی کوشش ہوئی۔ اس گیم میں جب گولی چل گئی پھر ہوش آئی کہ اس کا نشانہ تو کوئی بھی بن سکتا ہے۔ اس کے بعد یہ گیم رْوکنا پڑی۔پھرغدار بنانے کی مہم چل گئی۔ نواز شریف کو غدار کہا تو گھر گھر سے غدار نکل پڑے۔

آزاد گھوڑوں کو لانے کا منصوبہ لاڈلے نے ناکام بناد یا۔ جیو کے ایک اینکر کو انٹرویو میں دھمکی آمیز بیان دیا۔وہ آزاد گھوڑے عمران خان (لاڈلے) کو دینا پڑگئے۔ پھر تو تحریک انصاف والوں کا جیسے ہاتھ ہی کھل گیا اور گھوڑوں نے جس طرف ہوا کا رخ دیکھا اور اسی جانب چل دیئے۔ (یہ ہر دفعہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ کچھ نیا نہیں تھا )

لیکن جب حساب کتاب ہواتو کچھ ہاتھ نہیں آرہا ہے۔ اب مسئلہ وہیں پہ اٹک گیا۔ تمام سروے ، تمام اندازے ، مسلم لیگ(ن)کی کامیابی کی خبریں دے رہے ہیں۔ عالمی ادارے ہوں یا عالمی ذرائع ابلاغ سب نواز شریف کے گْن گا رہے ہیں۔

ابصار عالم کو گرانے کے بعد مارکیٹ لیڈر جیو کو لٹاکرخوب لتاڑا گیا توسب اس سے پہلے ہی ہاتھ باندھے کھڑے نظر آئے۔ ایسے تمام تر تاجروں اور صنعتکاروں کے چینل تو کھلوائے بھی ’’اوپروالوں‘‘ نے ہیں۔ کراچی سے میمن سیٹھ کاچینل ویسے ہی شریف فیملی کے خلاف ہے اوروہ اس کی قیمت بھی بھاری وصول کررہا ہے۔

باقی کسی میں کوئی دم نہیں۔ میڈیا سنسر شپ ایسی کہ اس کی خبریں ایسے عالمی ذرائع ابلاغ دے رہے ہیں جن کی تردید بھی ممکن نہیں۔

تین ڈویژن جان کو آگئی ہیں۔ لاہور ، گوجرانوالہ اور فیصل آباد۔

کیا کِیا جائے محض ان تین ڈویژن سے مسلم لیگ(ن) اتنا مارجن لے جائے گی کہ اس کا ازالہ نہ ہو پائے گا۔ اب یہ اس وقت کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اب ایک کاری ضربِ حرب اس پر آ رہی ہے۔ ان تین ڈویژن کاحل نکالنا رہ گیا ہے باقی تو شاید کسی نہ کسی طرح سے برابر کرنے کا خیال موجود ہے۔

اب جب تک یہ تین ڈویژن نیوٹرلائزڈ نہیں ہوتیں الیکشن کی طرف جانے کا خیال بھی ڈراؤنا ہے۔ اس کے لئے فاٹا سے لوگوں کو نکالا گیا ہے۔ فاٹا انضمام مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے کرایا۔

اب اسی کو بھگتنا بھی پڑے گا۔ وہ لوگ آج کل اسلام آباد کی سڑکوں پر ہیں۔ الیکشن کمیشن پر اتنا دباؤڈالا گیا کہ شاید کوئی اور ہوتا تو ٹوٹ جاتا، لیکن چیف الیکشن کمشنر نے صاف انکار کردیا ہے۔

الیکشن ملتوی کرنے سے انکار۔ اب معاملہ ہائی کورٹ میں لے جایا جائے گا اور اس کے بعد سپریم کورٹ میں۔ مقصد انتخابات کو ملتوی کرانا ہے۔ کم سے کم دو مہینے تو ہر صورت چاہئیں تاکہ مزید غفور میو اور زعیم قادری نکالے جائیں۔ گالیاں پڑوائی جائیں۔ وفاداروں کو ڈرایا جائے اور پھر تین ڈویژن کا خوف ختم کیا جائے۔ کپتان بھی اس ارینجمنٹ پر راضی ہے اور جلد فاٹا کی طرف رخ کرے گا جلسے کرے گااور فاٹا کے مٹھی بھر لوگوں کے مطالبے کی بالواسطہ یا بلاواسطہ حمایت کرے گا۔

پنڈی کے شیخ میں تو پہلے سے کیسٹ چل رہی ہے۔ تین چار مہینوں کی تاخیر کو بے ضرر کہہ رہا ہے اور دو مہینوں پر گیم آکر رک جائے گی۔ اس دوران تین ڈویژنوں کو قابو کیاجارہا ہے اور مقصد ہر صورت نوازشریف کا راستہ روکنا ہے۔

دیکھئے اب کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ حلقہ 120 اور کراچی کا مشن جیسی ناکامی حاصل ہوتی ہے یا نواز شریف اور جیو کو گرانے جیسی کامیابی۔وقت ہی بتائے گا۔ وقت ظالم ہے اپنی چال خود چلتا ہے اور وقت کا پہیہ رْکتا نہیں الیکشن کا بروقت انعقاد رک سکتا ہے۔ وقت کا پہیہ نہیں اور وقت کا پہیہ جو فیصلے کرتا ہے وہ بے رحم ہوتے ہیں کسی کا خیال نہیں کرتا کچھ دیکھتا ہے نہ سنتا۔ اپنی دھن آگے بڑھتا چلا جاتا ہے بہت کچھ پیچھے چھوڑتا ہوا۔

نوازشریف کے ناقد اورقدرے بیلنس، لیکن بزرگ صحافی کوپچھلے دنوں کہتے سنا۔ بہت غصے میں تھے۔ کہنے لگے

’’یہ وار گیمز‘‘ کس کے خلاف کر رہے ہیں۔ انہیں نظر نہیں آرہا ہے سامنے نواز شریف ہے۔ چلیں 2008ء میں تو مشرف کی خاطر کررہے تھے۔ اب کس کے لئے۔ ’’سمجھ نہیں آتی اپنے ہی دشمن بن چلے ہیں‘‘ ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے