الٹا چور …

معلومات ہی اصل کھیل ہے۔ اس سے مراد اعداد وشمار اور نام وپتہ ہے۔ یہ آج کی بات نہیں پرانے ادوار سے چلا آرہا ہے۔ جو جس علاقے، کمیونٹی، معاشرے یا کسی انسان کو جتنا زیادہ جانتا ہے، اتنا ہی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ محض استحصال کرنے کا فن آنا چاہیے۔
پچھلے دنوں ڈیٹا (اعداد وشمار ، معلومات) کی چوری کا ایک شور وغوغاتھا۔ تحریک انصاف والے بڑھ چڑھ کر بلکہ اُچھل اُچھل کر باور کرارہے تھے کہ ن لیگ کو فائدہ پہنچانے کے لیے نادرا نے ووٹرز سے متعلق معلومات فراہم کی ہیں۔ ن لیگ کو تو کچھ سمجھ نہ آئی کہ اس کی کیا تردید کریں اور کیسے کریں وہ بے چاری تو اپنے جھمیلوں میں پھنسی ہوئی ہے۔ نادرا والوں کی بہرحال جان کو آئی ہوئی تھی وہ وضاحتیں کرتے رہے، لیکن پھر اچانک سے شور وغوغا اپنی موت خود ہی مر گیا۔ اس لیے کہ یہ ماحول مصنوعی انداز میں بنایا گیا تو اسے پھر مرنا ہی تھا۔

حقائق کچھ یوں ہیں کہ اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹ رہا تھا۔ تحریک انصاف چونکہ نام نہاد پڑھے لکھوں بلکہ لکھے پڑھوں کی جماعت ہے، لہٰذا وہ اپنی ظاہری شکل وصورت کے مصداق حرکتیں بھی ولایتی کرتی ہے۔ پنجابی کا اظہار یہ ہے دیسی کھوتی تے ولایتی ٹیٹنے۔ یعنی دیسی گدھی ولایتی آوازیں نکال رہی ہے۔ کہیں سے سن لیا کہ ٹرمپ کے الیکشن لڑنے والی ٹیم نے فیس بک سے لوگوں کی معلومات حاصل کرکے الیکشن میں فتح کی ایک طرح ڈالی۔ انہوں نے بھی وہی کرنا شروع کردیا۔ پاکستانیوں کے لیے خبر ہے کہ ان کی فیس بک معلومات چوری ہوچکیں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ فیس بک نے یہ فراہم کی ہیں، بہت سے نام نہاد ریسرچر اور سافٹ وئیر گرو اپنا چورن بیچ رہے ہیں۔ تحریک انصاف نے اس پر اچھا خاصا سرمایہ بھی لگایا ہے۔ چورن بیچنے والے بیچ چکے۔ اب پتہ نہیں کہ فیس بک صارفین کی معلومات سے تحریک انصاف کیا فائدہ اٹھائے گی اور کس طرح اٹھائے گی۔

ہر موسم میں کچھ خاص ”مخلوقات“ نظر پر آتی ہیں۔ یہ دیہاڑی باز مختلف قسم کے چورن بیچتے ہیں اور پیسے بناتے ہیں۔ انہوں نے تو شہباز شریف جیسے طرار آدمی کو بھی نہیں بخشا۔ تعلیم کے حوالے سے مہم چلانے کے نام پر شہباز شریف کو بیرون ملک کے کئی چورن بیچے اور پیسے بنائے تاہم خوب پیسے نہیں بنا سکے کیوں شہباز شریف بھی تو امرتسری ٹھہرے۔ اس نے جلد ہی پہچان لیا اور جان چھڑالی۔ آکسفورڈ اور ہارورڈ سب ہی دانشور، سائنس دان یا اصلی پروفیشنل پیدا نہیں کرتیں۔ ان یونیورسٹیوں کی ایک پراڈکٹ زمانہ ساز چورن باز ہیں اور یہ ان یونیورسٹیوں کی سب سے پرکشش پراڈکٹ ہے۔ پاکستان، بھارت اور ہمارے جیسے کئی ملکوں میں یہ وارداتیں عام ہیں۔ انہی وارداتیوں نے تحریک انصاف کو فیس بک چورن بیچا ہے۔ خیال عام یہ ہے کہ ان معلومات کی بنا پر پاکستان میں تحریک انصاف کو شاید کوئی بڑی مدد نہ مل سکے۔ لیکن کیا کہا جاسکتا ہے شاید کچھ ہوبھی جائے۔ ہاں لوگوں کی پرائیویسی ضرور متاثر ہوجائے گی۔ اب یہ معلومات کسی بلیک میلر کے ہتھے بھی لگ سکتی ہیں۔ اللہ کرے عام پاکستانی محفوظ رہے۔

ڈیٹا چوری کی اصل کہانی باہر آچکی۔ سید مظفر علی شاہ نامی نادرا آفیسر نے ڈیٹا چوری کیا اورایک ٹی وی اینکر کے ذریعے پی ٹی آئی کے ہتھے چڑھ گیا۔ اب اس ڈیٹا کے ذریعے کیا کیا گیا کچھ زیادہ معلومات ابھی تک نہیں ملیں، جیسے ہی معلومات حاصل ہوں گی اپنے قارئین تک ضرور پہنچاﺅں گا۔

تاہم سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ تحریک انصاف کو الیکشن کمیشن کے ڈیٹا تک بہت پہلے سے رسائی حاصل ہوچکی ہے۔ پیپلز پارٹی، جے یو آئی ف، ایم کیو ایم، جہاں تک کہ مسلم لیگ ن کے امیدوار ووٹر لسٹوں کے لیے مارے مارے پھررہے ہیں جب کہ تحریک انصاف کے پاس کم سے کم ایک مہینہ پہلے سے ووٹر لسٹوں کی پی ڈی ایف فائلیں موجود ہیں اور ان کی بنا پر انہوں نے کئی ایک کمپنیوں کو سافٹ وئیر تیار کرنے کا آرڈر دیا۔

اب دو کمپنیوں کا سافٹ وئیر فائنل ہوا ہے اس میں سے ایک کو ٹھیکہ ملے گا یا دونوں کو۔ اس کے ذریعے ووٹرز تک الیکٹرانک رسائی حاصل کی جائے گی۔ ووٹر لسٹوں کی رسائی اور وہ بھی اصل لسٹوں تک جن میں کوئی ہیرا پھیری نہ ہو، انتخابات جیتنے کے لیے ایک بڑی برتری کہلاتی ہے۔ الیکشن سائنس سمجھنے والے جانتے ہیں کہ جس پارٹی کو جتوانا مقصود ہو، اسے یہ رسائی پہلے دی جاتی ہے باقی کو بہت تاخیر کے ساتھ اور انہیں لسٹیں بھی گڑبڑ والی تھمادی جاتی ہیں۔ یعنی وہ لسٹیں یا تو نامکمل ہوتی ہیں کچھ نئی اور کچھ پرانی ہوتی ہیں۔ یا پھر ایک حلقے سے دوسرے حلقے نتھی کردئیے جاتے ہیں۔ امیدوار بیچارہ گھومتا ہی رہتا ہے۔ اپنے ووٹرز تک اس موثر انداز میں رابطہ نہیں کرپاتا جس طرح مخالف کررہا ہوتا ہے۔ ووٹر تک اس کے ووٹ نمبر، پولنگ اسٹیشن کے ایڈریس کے ساتھ پرچی پہنچانا مہم کا ایک اہم جزو ہے۔ اس میں تو وہ مکمل ناکام رہتا ہے اور پھر کس گھرانے، محلے، علاقے، برادری، کمیونٹی کے کتنے ووٹ ہیں اس کا بھی اسے بھرپور ادراک نہیں ہوپاتا۔ الیکشن اسٹریٹجی میں ہر امیدوار اپنے ووٹروں پر کام کرتے ہوئے معلومات کا سہارا لیتا ہے لسٹ اور وہ بھی درست وقت پر مل جائے تو وہ اپنی پاکٹس پر بہتر طور پر کام کرلیتا ہے، ورنہ اُسے اندازہ ہی نہیں ہوپاتا کہ وہ کس سمت میں بڑھ رہا ہے۔ اس بار جبکہ مردم شماری بالکل نئی ہوئی ہے اور حلقہ بندیاں بھی تبدیل ہوئی ہیں۔

کئی حلقوں کی شکل تبدیل ہوچکی۔ اس بار تو فہرستیں الیکشن شیڈول کے اعلان کے ساتھ سب کو مل جانی چاہئیں تھیں بلکہ ویب سائٹ پر عام کردی جاتیں تو اچھا ہوتا، یہ اعداد وشمار اور معلومات کا کھیل، اس کھیل میں وہی آگے ہوتا ہے، جس کے آگے جیپ ہو۔ اس بار جیپ والے اس گیم میں آگے آگے ہیں۔ انہیں تو ”اوپر“ سے بھرپور مدد حاصل ہے۔ فرشتے قطار اندر قطار ان کی مدد کو اتر رہے ہیں۔ انہی معلومات کی بنا پر انہیں تجزئیے بھی فراہم کیے جاتے جارہے ہیں اور دامے درمے سخنے ہر قسم کی مدد بھی۔ معلومات کی بنا پر کھیلا جانے والا کھیل اپنے عروج پر ہے۔ آگے خدا جانے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے ہر حربہ، ہر کلیہ ناکام ہوجائے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کامیاب ہوجائے لیکن مطلوبہ کامیابی حاصل نہ کرپائے۔ سال ڈیڑھ سال بعد ایک بار پھر قوم کو اسی عمل سے دوبارہ گزرنا پڑے۔ پھر جیپ والے ہوسکتا ہے، کہیں نظر نہ آئیں اور عوامی میلہ ہی لگا نظر آئے۔ جیپ کے بجائے جیت والے آگے آگے ہوں اور عوام کا جم غفیر ہو۔ یہی تبدیلی ہوگی۔ یہ تبدیلی انتخابات سے قبل ہی بہت کچھ تبدیل کرچکی ہوگی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے