سیاسی فنکار

الیکشن کی آمد آمد ہے اور سیاستدانوں کی پنج سالہ منہ دکھائی کا سلسلہ شروع ہوا چاہتا ہے

تمام سیاسی اہلکار اپنی اپنی بساط کے مطابق جعلی ڈھکوسلوں اور گھسی پٹی تقریروں کے ذریعے سادہ لوح بنی نو انسان کو ورغلانے میں پیش پیش ہیں

اس تحریر کا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں لہذا مجھے سیاسی فتووں سے آزاد رکھا جائے

بحیثیت عام آدمی میں مختلف پہلووں پر غورو فکر کرنے کی ادنی سی کوشش کرتا رہتا ہوں

الیکشن زدہ ماحول پر لکھنے کا خیال یوں بھی آیا کہ بحیثیت ایک ووٹر آجکل میری قیمت سیاستدانوں کی نظر میں کوہ نور ہیرے سے زیادہ سے یہاں ایک چشمدید واقعہ لکھنے کی ضرورت محسوس کر رہا ہوں کہ!

ایک صبح حسب معمول میں آفس جانے کی تیاری میں مشغول تھا کہ اچانک گلی میں شوروغل شروع ہو گیا "پکڑ لو مار دو” "بھاگنے نا پائے” کا شور سن کر میں سمجھا کہ کسی چور اچکے کی اجتماعی دھلائی کا وقت قریب ہے

مگر میری حیرت اس وقت بڑھی جب انور چچا کے ان الفاظ نے میری سماعت کو مجبورا کھڑکی سے واقعے کی ٹوہ لینے پر مجبور کر دیا

” پنج سال ہو گئے نیں چوہدری صاحب دا منہ ویکھیاں ساڈی گلی کسی پرانے کھنڈر وانگ بہہ گئی اے میں تے لطیف چوہدری دے ڈیرے تے جاندے ساں تے ایناں دا سیکرٹری کہندا ہندا سی چوہدری ہوری اسلام آباد گئے نیں تے اج چوہدری صاحب مینوں اے تے دسو کہ پنج سالاں بعد صاحب نوں اچانک اسلام آبادوں چھٹی کیویں مل گئی؟؟؟؟

ان الفاظ نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا کہ روایتی سیاست اب دم توڑ رہی ہے شاید

شعور کی کرنیں گلی محلوں اور کٹر سیاسی کارکنوں کے دلوں پر دستک دے چکی ہیں

انور چچا سمیت محلے کے تمام بزرگوں نے موسمی ہمدردوں کو دو ٹوک الفاظ میں منع کر دیا کہ اس مرتبہ ووٹ محلے کی نوجوان قیادت کی امانت ہے آپ اپنا ووٹ جا کر اسلام آباد سے لے لیں

خیر بات ہو رہی تھی الیکشن کی تو جناب! کیا کہئیے آجکل تو ہمارے سابق حکمران اور سیاستدان سبھی کے خزانے حاتم طائی کی مانند اپنے اپنے حلقہ کی رعایا کے لئے ہمہ وقت کھل چکے ہیں یہ جہازی سائز کے پوسٹرز اور بینرز نے سارے شہر کو رنگ دیا ہے

ان پانچ سالوں میں بہت کچھ بدل گیا مہنگائی، تعلیم کی شرح، بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی، اور غریب کا دکھ نہ بدل سکا پرانے سیاستدان نئے وعدوں کو اواڑھ کر ایک بار پھر سے عوامی نمائندے بننے کی کوشش میں ہیں

ہر چند کوشش کی جا رہی ہے کہ اس عوام کو گذشتہ الیکشن کی طرح حسین معشوق کے وعدوں کے جیسے ایک بار پھر سے لبھایا جائے انکے شعور کی آنکھوں پر خوبصورت خوابوں کی پٹی باندھ کر انکی سوچ کو اندھا کر دیا جائےتاکہ ایک دن کا ووٹ مانگ کر پھر سے پانچ سال کیلئیے آنکھیں موند لینے کی خوب تیاری ہو سکے

مگر اس دفع سیاستدانوں کی دال گلتی نظر نہیں آ رہی بڑی سیاسی جماعتیں تو بیچاری عوام کے روئیے پر اشکبار ہیں کہ

کیوں؟ ان لوگوں کو یہ احساس ہو گیا کہ ہم نے انکے لئے کچھ بھی نہیں کیا پیرس ایک شہر ہے دنیا میں جو خوبصورتی میں اپنا مقام رکھتا ہے پنجاب کے ایک وزیر موصوف نے لاہور کو رجسٹرڈ پیرس کا خطاب دے ڈالا اور ہوا یوں کہ قدرت کے انصاف میں جعلی پیرس کے در و دیوار بہہ گئے

جہاں جہاں چیدہ چیدہ پیرس تھا اکھڑ گیا اور نیچے سے پنجاب کی راج دھانی لاہور واپس اصل صورت میں نمودار ہو گئی

یہ ہی حال سندھ کی کھپے پارٹی کے ساتھ ہوا کہ عوام کو پانی فراہم کرنے کے صحیفے سنانے والوں کو عوام نے کھری کھری سنا دیں

خیبر پختوانخواہ اور بلوچستان کی صورتحال بھی گذشتہ پانچ سال سے پہلے والی پوزیشن پہ کھڑی ہے اب بیرون ملک جائیدادیں معذرت کے ساتھ بیرون ملک بچوں کی خاطر رقوم جمع کرنے والے نام نہاد سیاستدان شش وپنج میں ہیں کہ اس عوام کو کس طرح سے دام میں لاکر الیکشن کا دن اپنے نام کیا جائے

کچھ شہروں میں تو کرپشن زدہ ترقی کا بوجھ سڑکیں برداشت نہ کر پائیں اور شدت ترقی سے عاجز آکر پھٹ پڑیں اور انہی سڑکوں کے گھڑوں میں گاڑیاں سجدہ ریز ہو گئیں کہ! "واہ” کیا ترقی ہے جو ان پانچ سالوں میں فرمائی گئی ہے

اب الیکشن پھر سے سر پہ ہے پاوں کی جوتی سمجھے جانے والے عوام آجکل سر کا تاج بنے بیٹھے ہیں اور اس سارے عمل کی ایکسپائری ڈیٹ الیکشن کے دن تک ہے

عوام الناس سے مودبانہ عاجزانہ گذارش ہے کہ نئی پارٹیوں کے پرانے چہروں اور سیاسی فنکاروں کو اس بار کسی طرح سے انکی اصلیت الیکشن کے دن ووٹ کی طاقت سے دکھائی جائے تاکہ ملک میں بے بہا بجلی کو ہم دوسرے ممالک میں بیچ سکیں اور تعلیم کے دریا کا رخ غریب ممالک کی طرف موڑ کر اسپتالوں میں غیر ملکی غریب اور نادار افراد کا علاج کروانے میں اپنا کردار ادا کر سکیں

سیاسی ڈرامے کی آخری قسط میں خدارا ان سیاسی ولنز کو کامیاب ہونے سے روکنے کیلئیے ووٹ کا صحیح استعمال کریں تاکہ ملک و قوم کے لٹیروں کو انکی اوقات شاہی کا اندازہ کروایا جا سکے اور آئیندہ اگلے پانچ سال تک گلی محلوں کے چوراہوں پر بیٹھ کر ایک دوسرے کے غلط ووٹ کاسٹ کرنے کی کہانی کو بدلا جا سکے

اور خود ہی اپنے چمن کو اجڑنے سے بچایا جا سکے
شکریہ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے