Delusionکے شکار لوگ

بھاٹیہ خاندان کی رہائش شمالی دہلی کے علاقے سنت نگر میں تھی، یہ ایک خوشحال گھرانہ تھا، 77سالہ نرائن دیوی گھر کی بڑی تھیں ،قریباً گیارہ برس قبل اِن کے شوہر کا انتقال ہوا تھا، اِن کے دو بیٹے 50سالہ بھونیش اور 45سالہ للت تھے، بھونیش کی بیوی کا نام سویتا تھا جس کی عمر 48سال تھی، ان کے تین بچے تھے، مانیکا (23)، نیتو (25) اور دھریندر (15) جبکہ للت کی بیوی کا نام ٹینا تھا جس کی عمر 42برس تھی اور ان کا ایک بیٹا تھا، دوشانت، جس کی عمر 15سال تھی۔

نرائن دیوی کی ایک بیٹی بھی تھی جس کام نام پرتیبھا تھا جس کی عمر 57برس تھی اور پرتیبھا کی ایک غیرشادی شدہ بیٹی پرینکا تھی جس کی عمر 33سال تھی ۔2007میں جب نرائن دیوی کے شوہر یعنی گھر کے سربراہ کا انتقال ہوا تو اس کا سب سے زیادہ اثر للت پر پڑا، للت کو لگا جیسے اس کا باپ مرا نہیں بلکہ اُس کی روح خود اُس کے اندر حلول کر گئی ہے، اُسے لگتا تھا کہ اُس کا باپ زندہ ہے اور اُس سے باتیں کرتا ہے، یہ باتیں ہدایات کی شکل میں ہوتیں چنانچہ للت نے ان باتوں کو نوٹ کرنے کے لئے ڈائری لکھنا شروع کی، یہ ڈائری وہ خود نہیں لکھتا تھا بلکہ بھانجی پرینکا سے لکھواتا تھا، یوں گیارہ برس میں گیارہ ڈائریاں لکھی گئیں۔

للت کو یقین تھا کہ اُس کا باپ اُس سے رابطے میں ہے، اِس بات کا وشواس للت کے گھر والوں کو بھی ہوگیا جب للت نےاپنے ’’باپ کی ہدایات‘‘ کے مطابق کاروبار کو بڑھاوا دینے کا سلسلہ شروع کیا اور چند برسوں میں اُن کی دکانوں کی تعداد ایک سے بڑھ کر گیارہ ہو گئی۔ بھاٹیہ خاندان کو اب اس بات میں کوئی شبہ نہیں رہ گیا تھا کہ للت اپنے سورگواسی پِتا سے براہ راست ہدایات لیتا ہے اور یہ ہدایات کڑی احتیاط کے ساتھ ڈائری میں درج کی جاتی رہیں۔ ڈائری میں ایک جگہ لکھا ہے (19جون2015) کہ’’ میں نے جو کہا تھا دیکھو آج وہ ہوا…..

آگے بھی ایسے ہی کرتے رہنا ہے….. وشواس بنا کے رکھنا ہے۔‘‘ اس دوران ایک اور ’’معجزہ‘‘ ہوا، للت کی بھانجی پرینکا، جو ایک آئی ٹی کمپنی میں ملازمت کرتی تھی، کی عمر 33برس ہو چکی تھی اور اب تک کنواری تھی، یہ وہی لڑکی تھی جو للت کی ڈائری لکھتی تھی، ہندو عقیدے کی رو سے یہ لڑکی ’’مانگلک‘‘ تھی، اِس لڑکی پرینکا کے رشتے کے سلسلے میں بھی للت کو اپنے مرحوم باپ سے ’’ہدایات‘‘ ملیں جن پر گھر والوں نے عمل کیا اور بالآخر پرینکا کی منگنی ہو گئی۔ یہ منگنی آج سے 19دن قبل ہوئی۔ بھاٹیہ خاندان کا یقین اب ایمان میں تبدیل ہوچکا تھا۔

30جون 2018کی رات للت نے اپنے گھر والوں کو بتایا کہ اب اُس کے باپ نے انہیں ایک رسم پر عمل کرنے کے لئے کہا ہے جس کے نتیجے میں انہیں ایک ’’عظیم شے‘‘ ملے گی، چنانچہ ڈائری میں لکھی ہدایات پر عمل شروع کیا گیا، گھر کی بڑی بہو سویتا ہمسایوں کے گھر سے سٹول مانگ کر لائی، گھر کے نو عمر لڑکے رسیاں لے کر آئے، ٹھیک دس بج کر بیس منٹ پر روٹیاں منگوائی گئیں، سب گھر والوں نے اطمینان سے روٹیاں کھائیں کیونکہ ہدایت کے مطابق انہیں روٹیاں ہی کھانی تھیں، گیارہ بج کر چار منٹ پر للت کے بڑے بھائی بھونیش نے نارمل انداز میں کتے کا باہر کو چکر لگوایا اور پھر سب لوگ آرام سے گھر کے اُس کمرے میں جمع ہو گئے جہاں انہیں ہدایات پر عمل کرنا تھا جن کے بارے میں انہیں کامل یقین تھا کہ وہ اُن کی بھلائی اور فائدے میں ہوں گی۔

للت نے انہیں بتایا کہ اب جبکہ اُن کی سات دن کی پوجا مکمل ہو چکی ہے جو انہوں نے اُس درخت کی چھاؤں میں کی تھی جس کی شاخیں لٹکی رہتی ہیں، تو اب سمے آگیا ہے کہ خود کو بھی ویسے ہی لٹکا لیا جائے….. ’’یہ بھگوان تک پہنچنے کا راستہ ہے….. آج وہ دن آ گیا ہے….. کسی کے سامنے نہیں….. شنی وار اور روی وار (ہفتے اور اتوار) کی درمیانی رات….. چھوٹی بہن چھوٹے سرخ رنگ کے اسٹول پر ہوگی جو مندر کے ساتھ ہوگا….. ماں دوسرے کمرے میں ہو گی….. باقی نو لوگ جال پر ہوں گے ….. ڈاکٹر کی پٹی باندھنا….. گیلا کپڑا منہ میں ڈالنا….. فون استعمال نہیں ہوں گے….. انتم سمے میں، آخری اِچھا کی پورتی کے وقت، آسمان ہلے گا، دھرتی کانپے گی، اُس وقت تم گھبرانا مت، منترکا جاپ بڑھا دینا، پانی کا رنگ بدل جائے گا، پھر تم لوگ نیچے اتر آنا، دوسروں کو بھی اترنے میں مدد دینا، تم مرو گے نہیں، بلکہ تمہیں ایک بہتر چیز ملے گی، جب تم یہ رسم ادا کر لو گے تو میں آ جاؤں گا اور تم سب کو بچا لوں گا، تمہاری آتما واپس آ جائے گی اور تم نجات پا لوگے۔‘‘

گھر کے گیارہ افراد نے من و عن ان ہدایات پر عمل کیا، اپنے گلے میں پھندے ڈالے اور منتر کا جاپ کرتے ہوئے جھول گئے، انہیں یقین کامل تھا کہ جس برتن میں انہوں نے پانی رکھا ہے اس کا رنگ تبدیل ہو گا، آسمان ہلے گا، دھرتی کانپے گی، اُن کا باپ انہیں لینے آئے گا، وہ آرام سے اسٹول سے اتر جائیں گے اور پھر ایک عظیم کامیابی اُن کی منتظر ہوگی۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ پانی کا رنگ تبدیل ہوا نہ کوئی انہیں لینے آیا۔ وہ رسیوں سے جھول گئے اور اُن کی لاشیں لٹک گئیں۔

اگلی صبح جب دودھ کا ٹرک اُن کے گھر کے باہر دودھ کی بوتلیں رکھ کر چلا گیا، ہمسایوں نے نوٹ کیا کہ بھاٹیہ والوں میں سے کوئی باہر نہیں آیا، ایک ہمسائے نے اندر جا کر دیکھا تو چیخیں مارتا ہوا باہر نکلا، اندر خاندان کے گیارہ افراد کی لاشیں پڑی تھیں۔ پولیس نے تفتیش شروع کی تو معلوم ہوا کہ یہ قتل کا نہیں بلکہ اجتماعی خودکشی کا کیس ہے جبکہ حقیقت میں یہ اجتماعی خودکشی کا کیس بھی نہیں کیونکہ ان افراد میں سے کوئی بھی مرنے کے لئے گلے میں رسی ڈال کر نہیں جھولا بلکہ 77سالہ نرائن دیوی سے لے کر 15برس کے دوشانت تک سب کو یقین تھا کہ وہ اسی طرح اُن ہدایات پر عمل کر رہے ہیں جیسے وہ ماضی میں کرتے رہے اور جس کے نتیجے میں انہیں کامیابی ملتی رہی، کسی کے ذہن میں شائبہ تک نہیں تھا کہ وہ مر جائیں گے یا للت کا باپ انہیں رسی سے اتارنے نہیں آئے گا، انہیں پورا وشواس تھا کہ وہ نیک نیتی کے ساتھ اُن ہدایات پر عمل کر رہے ہیں جو للت کو بتائی گئیں اور اُس نے ڈائری میں لکھوائیں۔

ڈائریوں کے مندرجات، سی سی ٹی وی فوٹیج اور پوسٹ مارٹم رپورٹ سے یہ تمام باتیں ثابت ہوئیں کہ للت اور اُس کے گھر والوں کی موت رات ایک بجے ہوئی، یہ وہی وقت تھا جس وقت انہیں گلے میں پھندا ڈالنے کا کہا گیا تھا، اُن کی لاشیں اسی انداز میں اور ٹھیک اسی جگہ ملیں جہاں ہدایت کے مطابق انہیں موجود ہونا تھا اور کمرے میں کسی باہر کے آدمی کی مداخلت کے آثار نہیں ملے۔ یہ گھرانہ بالکل ایک نارمل گھرانہ تھا، یہ لوگ ہنستے کھیلتے تھے، چھٹیاں منانے جاتے تھے، کاروبار کرتے تھے، اپنی منگنی پر پرینکا بہت خوش تھی، شادی کی شاپنگ شروع ہو چکی تھی، کوئی ایک بات ایسی نہیں تھی جس سے یہ لگے کہ ان لوگوں کو اپنے زندہ رہنے میں کوئی دلچسپی نہیں رہی۔

ان کا خودکشی کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ اصل میں یہ لوگ Shared Psychotic Disorderکا شکار ہوئے، پہلے للت کو یہ وہم ہوا کہ اس کا باپ اسے ہدایات جاری کرتا ہے، اس کے بعد باقی گھر والوں کو بھی یقین ہو گیا۔ انگریزی میں اسے Delusionکہتے ہیں، یہ ایسی بیماری ہے جس میں انسان نہایت استقامت کے ساتھ ایسا نظریہ اپنا لیتا ہے جس کے برخلاف اعلیٰ اور ناقابل تردید شواہد اور ثبوت موجود ہوتے ہیں جیسے کہ بھاٹیہ گھرانے کو یقین تھا کہ انہیں کچھ نہیں ہوگا حالانکہ ایک بچہ بھی جانتا ہے کہ گلے میں پھندا ڈالنے سے موت ہی واقع ہوگی۔ دراصل delusionمیں انسان کی آنکھوں کے آگے پٹی بندھ جاتی ہے اور وہ صرف وہی دیکھتا ہے جو وہ دیکھنا چاہتا ہے۔

ہم میں سے بھی کچھ لوگ کبھی نہ کبھی زندگی میں delusionکا شکار ہوتے ہیں، ہمیں لگتا ہے کہ ہمارا نظریہ درست ہے دوسروں کا باطل، ہم یہ سوچ ہی نہیں سکتے کہ ہماری بات غلط ہو سکتی ہے، اس بیماری میں بعض لوگ تو خود کو اوتار قسم کی چیز بھی سمجھنے لگتے ہیں۔ ہمارا یہ واہمہ بالآخر تب ختم ہوتا ہے جب ہمارے پیروں تلے سے اسٹول سرک جاتا ہے اور ہم پھندے پر جھول جاتے ہیں۔ اس وقت ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہم غلط تھے اور ہمیں بچانے کسی نے نہیں آنا تھا۔ آج بھی ہم میں سے کچھ لوگ ایسی ہی اجتماعی خود کشی کررہے ہیں، انہیں بھی جلد عقل آ جائے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے