کھیتی باڑی

ویسے تو ہم کسانوں کو الزام دیتے ہیں کہ ماضی سے سبق نہیں سیکھتے، بہار آتی ہے تو بلبل کی طرح چہکتے پھرتے ہیں، ایک ڈالی سے دوسری پر اڑتے پھرتے ہیں، گردن میں سریا آ جاتا ہیں اور فصلی بٹیروں کے غول میں مگن رہتے ہیں۔ برسات کی فکر نہیں کھال پختہ نہیں کرتے، پانی ضائع کر دیتے ہیں پھر جب خشک سالی آتی ہے تو سوکھے ہونٹوں پہ زبان پھیر پھیر دہائیاں دیتے ہیں۔

لیکن کیا محکمہ زراعت ماضی سے سبق حاصل کرتا ہے؟

ابھی تک فصل اگانے کا وہی تجربہ بار بار دہرا رہاہے، پہلے پیار سے پنیری لگاؤ ، گرین ہاؤس میں ہر طرح سے سازگار ماحول بنا کر آبیاری کرو پھر زمین پہ لگاؤ ، اور پنپنے میں کوئی چیز رکاوٹ ڈالے تو اسے سپرے مار مار کے تلف کر دو۔ پودا اگنے کے لئے آس پاس کی زمین کا بھی پانی پی جائے تو پرواہ نہ کرو بلکہ کھاد ڈالو۔

جب فصل آپ کے اپنے قد سے اونچی ہونے لگے تو کاٹ دو، کاٹنے پہ پتہ چلتا ہے اس کی جڑیں تو دور اندر تک چلی گئ ہیں۔ پھر اسے اکھاڑو، جلاؤ ہل پھیرو اور مُنڈ کو زمین میں دبا دو لیکن سب بیکار وہاں بھی سیاپا وہ بیج ثابت ہوتے ہیں اور اگنا شروع ہو جاتے ہیں اور جو نیا پودا اگتا ہے وہ پیوندی نہیں رہتا خودرو ہوتا ہے۔اور پھر اپنی مرضی سے پھلتا پھولتا ہے۔اور اس پھلنے پھولنے میں نرسری کی دیوار توڑے کہ چھت پہ دراڑیں ڈال دے اسے پرواہ نہیں رہتی۔

اتنی مرتبہ تجربے کے بعد بھی اب کے نئے پودے کےلئے پھر اسی پرانے دقیانوسی طریقہ کار کو ہی استعمال کیا گیا۔

پرانی کھیتیاں تو پھر کچھ عرصہ پھل دیتی رہیں تھیں جلدی قد کاٹھ نہیں نکالا لیکن اب کی بار جس پودے کا انتخاب کیا وہ تو ہے ہی ببول جس نے پالنے میں ہی کانٹے اگا لینے ہیں اور لینے کے دینے پڑ جانے ہیں۔

ہوش کے ناخن لیں جدید علوم سے فائدہ اٹھائیے بلکہ چھوڑیے یہ کھیتی باڑی کوئی ڈھنگ کا کام کیجیے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے