افسوس صد افسوس

یہ جمعہ کا دن ہے۔ ہم صبح سے ٹی وی کے سامنے جمے بیٹھے ہیں۔ نواز شریف لندن سے ابوظہبی آچکے ہیں۔ چند گھنٹے بعد وہ لاہور پہنچنے والے ہیں۔ لاہور شہر محاصرے میں ہے۔ جگہ جگہ کنٹینر لگائے جا چکے ہیں۔ ایئر پورٹ جانے والے راستے بند کر دیئے گئے ہیں۔ ایک دو نہیں بلکہ تمام راستے۔

ایئر پورٹ جانے کے لئے شہر کے مختلف حصوں میں جو لوگ اکٹھے ہو رہے ہیں انہیں روکا جا رہا ہے۔ پولیس انہیں دھکے دے رہی ہے۔ لیکن جوشیلے لوگوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ صرف لاہور میں ہی نہیں ہو رہا ہے۔ پشاور، فیصل آباد، اسلام آباد اور راولپنڈی میں بھی یہی منظر دکھائی دے رہا ہے۔ ہم یہ سارے منظر دیکھ رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ ہمارے وزیر اعلیٰ (عارضی ہی سہی) پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کہاں ہیں؟

کیا انہیں یہ سب نظر نہیں آ رہا ہے؟ ہم انہیں جتنا جانتے ہیں، وہ تو بڑے اصول پسند انسان ہیں۔ اس اصول کی بنا پر ہی انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے استعفیٰ دیا تھا۔ وہ تو بنیادی انسانی حقوق کی حرمت کے قائل ہیں۔ ان حقوق کے حق میں وہ اخباروں میں مضامین بھی لکھتے رہے ہیں۔

پاکستان ہی نہیں، پاکستان سے باہر بھی وہ کئی یونیورسٹیوں میں پڑھاتے رہے ہیں بلکہ اب بھی پڑھانے جاتے ہیں۔ ان کا مضمون پولیٹکل سائنس ہے اور پولیٹکل سائنس میں جمہوریت کے حوالے سے تحریر و تقریراور اجتماع کی آزادی کے بارے میں ہی پڑھایا جاتا ہے۔ ظاہر ہے وہ بھی یہی سب پڑھاتے ہوں گے۔

انہوں نے ایک ریسرچ انسٹیٹیوٹ بھی بنا رکھا ہے۔
اس انسٹیٹیوٹ میں جمہوری اقدار اور عوامی روایات پر ہی تحقیق کی جاتی ہو گی؟

ہم انہیں اپنا دوست تو نہیں کہہ سکتے، البتہ ایسا شناسا ضرور کہہ سکتے ہیں جن کے ساتھ ملاقاتوں اور بات چیت کا ایک زمانہ گزرا ہے۔

مسلم لیگ اور پاکستان کے مورخ پروفیسر شریف المجاہد کراچی سے لاہور آتے تو رضوی صاحب کے گھر ہی ٹھہرتے تھے۔ وہیں سے رضوی صاحب کے ساتھ ہماری ملاقاتیں شروع ہوئیں۔ پھر پی ٹی وی پر مذاکروں میں بھی ان کے ساتھ بات کرنے کا موقع ملا۔ اس وقت تو وہ سیاسی اور سماجی آزادیوں پر زور شور سے بولا کرتے تھے۔ ملنے جلنے میں بھی بہت ہی مرنجاں مرنج نظر آتے تھے۔ اگر آج ہمارے نصرت جاوید کو وہ ’’میسنا‘‘ نظر آتے ہیں تو جہاں تک ہم انہیں جانتے ہیں (یا آج تک جانتے تھے) وہ ہرگز ایسے معلوم نہیں ہوتے تھے۔

وہ کھلے دل و دماغ کے پڑھے لکھے آدمی تھے۔ اسی لئے نواز شریف کے لاہور پہنچنے اور لاہور سے اڈیالہ جیل پہنچنے تک ہم سانس روکے انتظار کرتے رہے کہ پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کب اس جھک جھک سے اپنی جان چھڑاتے ہیں۔

وہ کب اپنے عہدے سے استعفیٰ دیتے ہیں اور کب اس عارضی منصب کو سلام کر کے سرکاری تام جھام سے باہر نکل آتے ہیں۔ مگر ہمیں افسوس ہوا

۔ بہت ہی افسوس ہوا۔ ہمارا خیال غلط نکلا۔ وہ نہیں ہوا جس کا ہمیں انتظار تھا۔ کوئی ضمیر نہیں جاگا۔ کہیں دل موم نہیں ہوا بلکہ پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے اس وقت بھی کچھ نہیں کیا جب اپنے آئینی اور قانونی حقوق کا پاس کرتے ہوئے لوگ جلوس کی شکل میں جمع ہوئے اور ان سینکڑوں آدمیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ بعد میں دہشت گردی جیسے سنگین الزام لگا کر ان کے خلاف مقدمے بھی بنا دیئے گئے۔

کہاں گئی وہ عزت؟ اور کہاں گئی وہ ساکھ، جو عمر بھر کی پڑھائی اور پاکستان کے اندر اور پاکستان سے باہر،کئی نسلوں کو دی جانے والی تعلیم کے بعد کمائی گئی تھی؟ تو کیا یہ کہنا درست ہو گا کہ اصل کمائی عہدہ اور منصب ہے؟ اور وہ بھی جو کسی کا چھینکا ٹوٹنے کے بعد توقع کے بغیر ہی مل جائے۔ اس کے بعد ضمیر اور ساکھ جائے بھاڑ میں؟

اب اگر چند سو آدمی، چلو اسے چند ہزار کہہ لیجئے، ایئر پورٹ پہنچ جاتے تو کیا قیامت آ جاتی؟ نواز شریف اور ان کی صاحب زادی مریم کو تو جہاز کے اندر ہی گرفتار کرنے کی تیاری کر لی گئی تھی۔ وہ تو باہر آتے ہی نہیں۔ ان کے استقبال کے لئے وہاں پہنچنے والا ہجوم نعرے بازی کے سوا اور کیا کر لیتا؟ اگر پولیس یا قانون نافذ کر نے والے ادارے خاموشی سے انہیں کھڑا رہنے دیتے تو وہ کچھ بھی نہ کرتے۔

اور جب انہیں معلوم ہوتا کہ نواز شریف اور مریم راولپنڈی جا چکے ہیں تو وہ بھی نعرے لگاتے ہو ئے منتشر ہو جاتے۔ اتنی بات تو ہمارے پرو فیسر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی بھی جانتے ہوں گے؟ معاف کیجئے، یہاں پھر پرو فیسر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی بیچ میں آ گئے۔ تو کیا وہ اتنے مجبور تھے کہ اپنی زبان تک نہ ہلا سکے؟ ہاں۔ ایک پہلو یہ بھی تو ہے۔

اس پر بھی تو غور کرنا چاہیے۔ انسان مجبور بھی تو ہو جاتا ہے۔ چلیے،اگر ایسا بھی ہے تو اس وجہ سے بھی ہم ان کے استعفے کا انتظار کر رہے تھے۔

وہ تو بہادر آدمی تھے مگرایسا نہیں ہوا۔ اور اب یہ رونا چل رہا ہے کہ اس طرح نواز شریف کہیں بہت بڑے لیڈر ہی نہ بن جائیں۔ کہیں مریم کوئی مقام حاصل نہ کر لیں۔ اب کیا کیا جائے؟ خیر، اب تو اس نگرانی اور نگراں حکومت پر ہی سوال اٹھنا شروع ہو گئے ہیں۔

پلڈاٹ کے احمد بلال محبوب کہہ رہے ہیں کہ نگراں حکومتوں کا چکر ختم ہونا چاہیے۔ دنیا بھر میں جہاں جہاں بھی جمہوریت ہے وہاں اپنی مدت پوری کرنے والی حکومت ہی نئے الیکشن کراتی ہے۔ نگراں حکومتوں کی پخ کوئی نہیں پالتا۔ الیکشن کمیشن کو پوری طرح خود مختار ادارہ بنایا جائے اور اس کی نگرانی میں اپنی مدت پوری کرنے والی حکومت ہی نئے الیکشن کرائے۔

مگر یہاں تو شکوک و شبہات کا یہ حال ہے کہ مقامی حکومتوں کے عہدے داروں کو بھی معطل کر دیا گیا ہے۔ کیوں؟ بھلا وہ کیا کر لیتے؟ یہ سوال الیکشن کمیشن سے ہے۔ کیا یہ غیر جمہوری قدم نہیں ہے؟ لوگ تو کہہ رہے ہیں کہ اپنی پسند کی جماعتوں اور امیدواروں کے سوا اور کسی جماعت یا امیدوار کو آزادی کے ساتھ اپنی الیکشن مہم چلانے کی اجازت ہی نہیں دی جا رہی ہے۔ یہ کس کی ذمہ داری ہے؟ اور ہاں۔

ابھی ابھی یاد آیا یہ پاکستان ٹیلی وژن کا نیوز چینل کہاں غائب ہو گیا؟ وہ تو سرکاری ٹی وی کہلاتا ہے۔ ہم جہاں رہتے ہیں وہاں پی ٹی وی ہوم اور پی ٹی وی اسپورٹس توآ رہے ہیں، پی ٹی وی نیوز نہیں آ رہا ہے۔ پہلے جیو نیوز کے ساتھ ایسا ہوا تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے