انقلاب فرانس بمقابلہ انقلاب پاکستان

یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب فرانس میں بادشاہت ہوا کرتی تھی۔ معاشرہ تین طبقات میں بٹا ہوا تھا، پہلا طبقہ اشرافیہ کہلاتا تھا، یہ شاہی خاندان پر مشتمل تھا، اس میں حکومتی عہدے دار، فوج کے سپہ سالار ، وزرا ، جاگیردار اور امرا شامل تھے، دوسرے طبقے کا تعلق مذہبی پیشواؤں سے تھا، اس میں پادری، کاہن چرچ کے نگران، فتوی دینے والے ملّا اور جنت کا سرٹیفکیٹ بانٹنے والے پاپائے اعظم شامل تھے اور تیسرا طبقہ عام عوام تھے، یہ غریب مزارعے اور محنت مزدوری کرکے پیٹ پالنے والے لوگ تھے۔

ان تینوں طبقات کے لئے مختلف قوانین رائج تھے، بالائی دو طبقے ہر قسم کے ٹیکس سے مستثنیٰ تھے جبکہ عوام پر کئی ٹیکسوں کا بوجھ لدا ہوا تھا، عوام کے بنیادی حقوق کا بھی کوئی تصور نہیں تھا، حقوق صرف اشرافیہ یا چرچ کو حاصل تھے، چرچ کے قبضے میں لمبی چوڑی جاگیریں تھیں، کئی کئی سو مربع قطعہ اراضی تھی، اس کے پاس ٹیکس لگانے کی طاقت بھی تھی اور یہ ٹیکس اس زمین پر کام کرنے والے غریب کسانوں پر لگایا جاتا تھا۔ قصہ مختصر یہ کہ اشرافیہ اور ملّا ایک پر تعیش زندگی گزارتے تھے، اُ ن پر کسی قسم کی قانونی روک ٹوک نہیں تھی، جبکہ دوسری طرف عوام نہایت غربت کے عالم میں جی رہے تھے اور ہر قسم کی قانونی اور معاشی پابندیوں میں جکڑے ہوئے تھے۔

اٹھارہویں صدی تک فرانس کی حالت یہی رہی۔ شہروں میں بڑے بڑے کاروباری قابض تھے جو کسی نئے تاجر کی آمد برداشت نہیں کرتے تھے، کوئی شخص خواہ کتنا ہی ہنرمند کیوں نہ ہوتا اُس کا داخلہ کسی نئے پیشے میں ممکن نہ تھا، لوگ غربت میں پیدا ہوتے اور غربت میں ہی مر جاتے۔ دیہات میں تو اور بھی ابترحالت تھی، جاگیردار اپنے مزارعوں سے زمینوں پر کام لیتے اور وہی اُن کے مالک ہوتے، غلام ابن غلام کا سسٹم رائج تھا۔ تین سو سال تک فرانس میں یہ بادشاہت قائم رہی اور بالآخر 1789میں انقلاب فرانس کے ہاتھوں اِس کا خاتمہ ہوا۔

4اگست1789کو فرانس کی قومی آئین ساز اسمبلی نے اُن تمام مروجہ استحصالی قوانین کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا اور اور ایک نیا آئین دیا جس کی پہلی شق نے ملک بھر سے جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ کر دیا اور نویں شق نے بالائی طبقے کو حاصل ہر قسم کی مراعات ختم کرکے مساوی ٹیکسوں کا نظام نافذ کردیا، یہی نہیں بلکہ نئے آئین نے ہر شہری کو بلا تفریق یہ حق دیا کہ وہ جو چاہے شعبہ اپنائے، جو چاہے نوکری کرے، ہر قسم کے دروازے ہر شہری پر کھلے ہوں گے، چاہے سول ہو یا فوجی اور اس میں کسی قسم کی قدغن نہیں ہوگی، چرچ کا ٹیکس لاگو کرنے کا اختیار بھی ختم کر دیا گیا اور ملّاؤں کو ریاست کا ملازم بنا دیا گیا۔

انقلاب فرانس ایک طویل روداد ہے، یہ ایک دن کی کہانی نہیں، کئی برس کی جدوجہد اور کئی لاکھ انسانوں کا خون بہنے کے بعد فرانسیسی قوم نے یہ اصلاحات کیں۔ جن لوگوں کا خیال ہے کہ میں بھی پاکستان کے لئے ایسے ہی خونی انقلاب کا حل تجویز کرکے داد کا طالب ہوں، اُن کی خدمت میں گزارش ہے کہ وہ کسی فلمی رسالے کی ورق گردانی کر لیں کیونکہ میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ۔

کم از کم دو عوامل ایسے ہیں جو قوموں کی کامیابی یا ناکامی کا باعث بنتے ہیں، انقلاب فرانس نے دونوں کا کانٹا نکال دیا۔ فرانسیسی معاشرہ دراصل استثنیٰ کے اصول پر کھڑا تھا، ایک طرف بالائی طبقہ اور اشرافیہ تھی جس پر کسی قسم کے قانون، ضابطے کا اطلاق نہیں ہوتا تھا، اس گروہ سے تعلق رکھنے والے کسی فرد کا احتساب کرنا تو دور کی بات اِن کی طرف آنکھ اٹھانا بھی گناہ سمجھا جاتا تھا، یہ گروہ ہر طرح کی پابندیوں سے آزاد تھا، اس کی طاقت کے آگے دَم مارنے کی کسی کو مجال نہیں تھی، قانون نے انہیں ہر قسم کا استثنیٰ دے رکھا تھا، اس گروہ کے افراد نے مذہب کے لبادے بھی اوڑھ رکھے تھے، جو کوئی اعتراض اٹھاتا اسے مذہب کے نام پر قتل کر دیا جاتا ۔

انقلاب فرانس نے یہ تمام بُت گرا دیئے، نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز، ہر طبقے، فرد، گروہ اور ریاستی ادارے کے لئے برابری کا اصول طے کر دیا، کوئی مقدس گائے نہ رہی، کسی طبقے کو کوئی استثنیٰ حاصل نہ رہا، کوئی محض اس لئے قانون سے بالاتر نہ کہلایا کہ وہ کسی مخصوص ادارے کی نمائندگی کرتا تھا یا اُس کے پاس مذہب کو استعمال کرنے کی آزادی تھی، جو لوگ اصل میں طاقت اور اختیار کا منبع تھے، چاہے انہوں نے مذہب کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا یا کوئی زرہ پہن رکھی تھی، اُن سب کی اجارہ داری ختم کر دی گئی تھی، یہی انقلاب کا بنیادی محرک تھا اور اسی پر آئین کی بنیاد رکھی گئی۔ دوسرا کام یہ ہوا کہ چرچ کا اختیار ختم کرکے پادریوں کو ریاست کے تابع کر دیا گیا۔

انقلاب فرانس سے پہلے یہ پادری مذہب کے ذریعے غریب عوام کو زنجیروں میں جکڑ کر رکھتے تھے، ملّا گناہ اور ثواب کا تعین کرتا، جنت کے سرٹیفکیٹ بانٹتا، کفر کے فتوے لگاتا اور جو شخص اِس زندگی کی سختی کی شکایت کرتا اسے بتایا جاتا کہ اگلی زندگی میں جنت تمہاری منتظر ہے بشرطیکہ تم پادری کے بتائے ہوئے طریقے پر چلو، جس کا مطلب یہ ہوتا کہ تم اپنے جاگیردار کا ظلم برداشت کرتے رہو، اشرافیہ کے لئے ٹیکس اکٹھا کرتے رہو اور چرچ میں حاضری دیتے رہو۔ انقلاب کے بعد چرچ اور اسٹیٹ کی علیحدگی کی بنیاد رکھ دی گئی، یہ ایک طویل اور صبر آزما کام ثابت ہوا کیونکہ کچھ عرصے کے لئے نپولین نے کیتھولک چرچ کو ریاستی مذہب قرار دیا تھا لیکن بعد میں فرانس نے انقلاب کا یہ ہدف بھی حاصل کرلیا۔

فرانس سے واپس پاکستان آتے ہیں۔ ہم میں سے کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ ہمارے حالات بھی اٹھارہویں صدی کے فرانس سے ملتے جلتے ہیں جہاں قانون عوام کے لئے ہے اور عیاشی اشرافیہ کے لئے، جہاں غریب پیدا ہوکر غریب ہی مر جاتا ہے اور مرنے کے بعد جنت میں جانے کے لئے مولوی صاحب سے سند لینی پڑتی ہے…..

شاید واقعی کچھ مماثلت ہے مگر اصل سوال یہ ہے کہ جنہیں ہم اشرافیہ سمجھ رہے ہیں کیا واقعی وہ اشرافیہ ہے؟ کون سے ایسے طبقات ہیں جو ہر قسم کی باز پرس سے مستثنیٰ ہیں، جن کے اختیار پر سوال اٹھانے کی قانون میں اجازت نہیں اورجن کے احتساب کی کوئی صورت ہی نہیں ؟ اگر ایسے کوئی طبقات یا گروہ ہیں تو انہیں یہ سوچنا چاہئے کہ ایسا نظام دنیا میں اٹھارہویں صدی میں نہیں چل پایا اب کیا چلے گا! دوسری طرف بعض مذہبی پیشوا ہیں جنہوں نے مذہب کے معاملے میں فیصلہ کرنے کا ہر اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے، وہ اسی طرح جنت اور جہنم کے سرٹیفکیٹ تقسیم کر رہے ہیں جیسے انقلاب فرانس سے پہلے پادری کیا کرتے تھے۔

پیچھے رہ جاتے ہیں بیچارے عوام جنہیں ہر پانچ دس برس بعد یہ بتایا جاتا ہے کہ تمہارے دکھوں کا ذمہ دار اصل میں فلاں سیاسی گروہ ہے جو اقتدار پر قابض رہا مگر تمہارے لئے کچھ نہ کر سکا، عوام اس پر یقین کرکے اُس گروہ پر تبریٰ کرتے ہیں اور یہ سوچ کر ایک نئے مسیحا کے پیچھے لگ جاتے ہیں جیسے وہ انقلاب فرانس کی بنیاد رکھ رہے ہوں۔ مگر عوام کے دکھوں کا مداوا نہیں ہو پاتا کیونکہ اِس ملک میں طاقت کا منبع کوئی سیاسی گروہ نہیں ہے جس کے خلاف عوام جدوجہد کرتے ہیں۔ عوام اپنی یہ غلط فہمی جتنی جلد ممکن ہو دور کرلیں، یہی اُن کے لئے بہتر ہے۔
کالم کی دُم: انقلاب فرانس کی دوا نوجوانوں سے دور رکھیں، طبیعت زیادہ خراب ہو تو آئین پاکستان سے رجوع کریں، افاقہ ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے