سراج رئیسانی اور ہارون بلور

مجھے زندگی میں کبھی ان دونوں نوجوان شہیدوں سے ملاقات کا موقع نہیں ملا لیکن

گزشتہ چند دنوں میں، میں نے ان کے بارے میں اتنا کچھ دیکھا‘ پڑھا اور سنا ہے کہ اب یہ پرانے دوستوں کی طرح لگنے لگ گئے ہیں۔ کچھ تاریخی پس منظر‘کچھ افغانستان سے وابستہ مسائل اور کچھ ہمارے میڈیا کے غیرسنجیدہ پروپیگنڈے نے مل جل کر ایسی فضا بنا دی ہے کہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کا سیاسی منظرنامہ طرح طرح کی افراط و تفریط کا شکار ہو کر ایک سوالیہ نشان سا بن گیا ہے۔

فرق صرف یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں پختونستان اور باچا خاں کے حوالے سے یہ معاملہ سقوط ڈھاکا سے قبل بھی چل رہا تھا جب کہ بلوچستان میں اس سیاسی کشیدگی اور بے چینی کا باقاعدہ اظہار بھٹو صاحب کے اقتدار میں آنے کے بعد سے شروع ہوا۔

دونوں صوبوں میں قوم پرست اور کسی حد تک انقلاب پسند تحریکوں اور تنظیموں کا سلسلہ جاری رہا مگر جہاں تک ان کے سرکردہ لیڈروں کا تعلق ہے ان میں کوئی واضح تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی سوائے اس کے کہ سین سے کسی بھی وجہ سے ہٹنے والے کی جگہ اس کے بیٹے یا خاندان کے کسی اور فرد نے لے لی۔

اس دوران میں روس کی شکست و ریخت اور سی پیک اور گوادر کے فروغ کی وجہ سے معاملات اور مسائل کی شکل اور سنگینی میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں جن کی وجہ سے عالمی سطح پر یہ علاقہ ہمسایوں کے ساتھ ساتھ کچھ بڑی طاقتوں کے دباؤ کا بھی شکار ہو گیا جس کے نتیجے میں تقریباً دس برس تک پورا ملک مسلسل دہشت گردی کا نشانہ بنا رہا جس میں نہ صرف ہزاروں بے گناہ شہری اور دفاعی اداروں کے جوان اپنی جانوں سے گئے بلکہ املاک کو بھی شدید نقصان پہنچا، اس یک طرفہ ٹریفک کو ضرب عضب اور اس سے ملتے جلتے کئی اور آپریشنز نے نہ صرف روکا بلکہ بہت حد تک دہشتگردی اور تخریب کاری کی کارروائیوں کا خاتمہ بھی کر دیا ہے لیکن یہ بھی امر واقعہ ہے کہ نہ صرف ابھی اس کا مکمل خاتمہ نہیں ہوا بلکہ کچھ بیرونی دشمن قوتیں بھی طریقے بدل بدل کر اپنی کارروائیوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

آزادی کے نام پر علاحدگی پسند گروہ اب تقریباً ختم ہو گئے ہیں مگر قوم پرستی کا نعرہ اب بھی مقبول ہے کہ وفاق کی طرف سے عوام کے حقوق اور مفادات کے ضمن میں کبھی تساہل اور کبھی بے حسی سے کام لیا گیا ہے اور یوں بلوچ اور پٹھان بھائیوں کے احساس محرومی میں وہ کمی مناسب طریقے سے نہیں ہو پاتی جو کہ ہونی چاہیے تھی۔

اس جلتی پر تیل کا کام بہت حد تک غیرملکی میڈیا نے اور ایک خاص حد تک ہمارے اپنے میڈیا نے بھی کیا ہے کہ وہ بھی عام طور پر سطح پر موجود محبت اتفاق اور رواداری کے حامل جذبوں کی اکثریت کے بجائے ہمیشہ روایتی تصورات اور دشمنوں کے سازشی پروپیگنڈے کو ہی ہوا دیتا ہے۔

گزشتہ چند برسوں میں مجھے ذاتی طور پر بلوچستان اور کے پی کے میں کئی بار جانے کا اتفاق ہوا‘ شہید بشیر بلور صاحب اور رئیسانی فیملی کے کچھ احباب (جن میں سے ایک غالباً کچھ عرصہ پہلے مسقط میں ہمارے سفیر تھے) سے بھی ملاقات رہی لیکن ہارون اور سراج سے میرا تعارف نہ ہونے کے برابر تھا۔ یہ دونوں نوجوان اپنے اپنے انداز کی قوم پرست تحریکوں سے وابستہ تھے اور عین ممکن ہے اس حوالے سے ان کے کچھ ایسے تحفظات بھی ہوں جو وفاق میں تشریف فرما قوتوںاور نام نہاد اسٹیبلشمنٹ کے نظریات سے کسی حد تک متصادم ہوں لیکن یہ تو ہم سب کی طرح ان کا بنیادی حق ہے اور تھا جو بات اصل میں توجہ اور تعریف طلب تھی وہ ان دونوں کی حب الوطنی‘ ہمت اور اپنی اقدار سے کمٹ منٹ تھی۔

حیرت ہے کہ اس ضمن میں جو باتیں ان کی شہادت کے بعد سامنے آ رہی ہیں ان کا ذکر اور اعتراف پہلے کیوں نہیں ہوا‘ اطلاعات کے مطابق ہارون کے والد بشیر بلور اور اس زمانے کے وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین دو ایسی شخصیات تھیں جو آپریشن سوات سمیت دہشت گردی کے خلاف ہر مہم میں ہمیشہ پیش پیش رہے اور ہارون بلور شہید بھی اپنے والد کی ہو بہو تصویر تھا اور پاکستان سے ان کی محبت باقی تمام چیزوں پر غالب تھی جب کہ سراج رئیسانی تو اس محبت کے اظہار میں خود جیتے جی ایک مثال بن چکا تھا کہ اس نے یوم آزادی کے حوالے سے ایک ایسا پرچم تیار کروایا جس کی پوری دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی اس کے مختلف بیانات کی جو ویڈیوز اور ریکارڈنگز اس کی شہادت کے بعد سامنے آئی ہیں وہ اس کی حب الوطنی کا ایک ایسا ثبوت اور اظہار ہیں جسے درسی کتابوں کا حصہ بنانا چاہیے تاکہ علاقے‘ نسل اور قوم کی نسبت سے بالاتر ہو کر ہماری نوجوان نسل حب الوطنی کے معانی اور اس کی اہمیت کو سمجھ سکے اور حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ ان دونوں کے لیے بعد از وفات بڑے قومی اعزازات کا اعلان کرے کہ شہیدوں کا خون رزق خاک ہونے کے بعد بھی دلوں کی کھیتیوں کو زرخیز اور آباد رکھتا ہے۔

اس وقت سیاست اور انتخابات کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی بھی طرح لائق تحسین نہیں ہے لیکن قوم اس بحث میں پڑے بغیر تمام تر سیاست دانوں سے صرف یہی عرض کرنا چاہتی ہے کہ ان شہادتوں کی اصل تعظیم کا طریقہ یہی ہے کہ ان کے خون کو ضایع نہ کریں اور اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود اس بات کو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھیں کہ ملک و قوم کی ترقی اور تعظیم کا پہلا تقاضا یہی ہے کہ اپنے مشترکہ دشمن کو پہچانیں اور اس کی سازشوں اور کارروائیوں سے اپنے اور ہمارے بچوں کو محفوظ رکھنے کے لیے مل جل کر اتفاق اور محبت سے رہنا سیکھیں تاکہ ہماری اگلی صفوں میں ان لوگوں کو زیادہ سے زیادہ جگہ مل سکے جو سراج رئیسانی اور ہارون بلور کی طرح وطن کے لیے جینے اور مرنے کو اپنے لیے وجہ افتخار سمجھتے ہیں۔ آخر میں ایک بار پھر ان شہیدوں کے لیے دعا اور سلام محبت کہ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے