ہم سب کا پاکستان

طرح طرح کے مراحل، شکوک و شبہات اور مسائل کے درمیان سے گزرتا ہوا بالآخر الیکشن کا دن آن پہنچا ہے اور انشاء اللہ آئندہ چند دنوں میں یہ بات طے ہو جائے گی کہ اگلے پانچ برسوں کے لیے صوبوں اور مرکز میں کیا صورتحال ہو گی۔ پہلی دعا تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ امن و امان کے ساتھ اور بغیر کسی ناخوشگوار واقعے کے ہو جائے کہ اس وقت سارا ملک ایک ہیجان کی سی کیفیت میں ہے اور میڈیا سے لے کر گلیوں بازاروں اور ہر طرح کی محفلوں میں اسی کا شور شرابا ہے جب کہ مہذب اور ترقی یافتہ ملکوں میں اس کے آنے اور جانے کا پتہ بھی مشکل ہی سے لگتا ہے۔

ذرا تفصیل میں جائیے تو اس فرق کی وجوہات بھی کھل کر سامنے آ جاتی ہیں جو تیسری دنیا اور بالخصوص نوآبادتی نظام کے شکار ملکوں میں کم و بیش ایک جیسی ہیں کہ مغربی جمہوریت کا تصور تو کسی نہ کسی شکل میں ان علاقوں میں رائج ہو گیا مگر اس کے قیام اور فروغ کے لیے بہت سی بنیادی شرائط کو تقریباً نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ نہ ہمارے بیشتر ووٹرز تعلیم اور اپنی رائے کے آزادانہ اظہار کے معیار پر پورے اترتے ہیں اور نہ ہی اسمبلیوں میں جانے والے خواتین و حضرات اس بنیادی سیاسی تربیت سے بہرہ ور ہوتے ہیں جس کا تعلق عوامی خدمت کے اداروں اور بلدیاتی سطح پر عوامی مسائل کے شعور اور ان کے حل کے طریقوں کی تربیت سے ہوتا ہے۔ اور یوں عوام اور ان کے نمائندوں کے درمیان موجود خلیج اگر مزید گہری نہ بھی ہو تب بھی اپنی جگہ پر قائم اور موجود رہتی ہے۔

قیام پاکستان کے بعد کے ان ستر برسوں میں ہم نے تین مارشل لائی ادوار کے ساتھ تقریباً 40 برس سیاسی حکومتوں کے جلو میں بھی گزرے ہیں اور یوں کئی بار الیکشن کے ہنگاموں سے بھی گزرے ہیں۔ یہ حکومتیں کیوں نہیں چل پائیں یا ان کو مبینہ طور پر کس کس طرح سے چلنے نہیں دیا گیا۔ یہ ایک لمبی بحث ہے جو ہماری سیاسی تاریخ میں ساتھ ساتھ چلتی آ رہی ہے اور جس کا کوئی متفقہ نتیجہ ابھی تک سامنے نہیں آیا۔

سو ہم اس کو وقتی طور پر ایک طرف رکھتے ہوئے خود کو 2018ء کے انتخابات تک محدود رکھتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں جو بھی اور جس کی بھی حکومت بنے اس کے سامنے قومی سلامتی، معیشت، علاقائی صورت حال اور عوامی ترقی سے وابستہ مسائل کا ایک ایسا انبار ہو گا جس کی شدت اور پھیلائو کو سمیٹنا ایک ایسا مشکل اور دقت طلب کام ہے جو غیر معمولی مہارت، محنت اور صلاحیت کا متقاضی ہے، جس کے لیے سب سے پہلی اور فوری ضرورت اس الزام تراشی اور بداعتمادی کی روش کو ختم کرنے کی ہے جس نے بدقسمتی سے فی الوقت پورے ماحول کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے اور جس کی وجہ سے سیاسی پارٹیاں اور ان کے لیڈران ایک دوسرے کے بارے میں ایسی زبان استعمال کرتے ہیں جو کسی طرح بھی ایک مہذب اور باصلاحیت قوم کے شایان شان نہیں، اختلاف رائے بلاشبہ سیاسی معاملات کے ضمن میں ایک اٹوٹ انگ کی حیثیت رکھتا ہے لیکن اس کو ذاتیات کی سطح پر گھسیٹ لانا اور پھر اسی کا ہو کر رہ جانا بہرحال ایک ایسی صورتحال ہے جس کو تبدیل کرنا اور جسے بہتر بنانا ہم میں سے ہر ایک کا اخلاقی فریضہ ہے۔ آج کل مختلف سیاسی پارٹیوں کی طرف سے میڈیا پر Paid Content کی بھرمار ہے۔

اس سے قطع نظر کے اس میں خرچ ہونے والے پیسوں کا حساب کون لے گا۔ زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس میں بھی سارا زور اپنی صحیح اور مستند کارکردگی کے اظہار سے زیادہ مخالفین کی نام نہاد خرابیوں کو گنوانے اور ان کی کردار کشی پر لگایا گیا ہے۔ انتخابات کی گرما گرمی اور شور و غوغا کی فضا میں لہجوں میں انیس بیس کا فرق تو کسی حد تک گوارا اور جائز ہے کہ یہ اس کا حصہ ہے مگر جس انداز میں ہمارے بیشتر قومی رہنما اور سیاسی جماعتوں کے ترجمان ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے اور دھمکیاں دیتے ہیں وہ ہم سب کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ جس نے جو بھی اچھا اور عوامی بھلائی کا کام کیا ہے یا اس کے لیے کوئی قابل عمل حل یا ارادہ پیش یا تجویز کیا ہے اس کا اعتراف اور تحسین کی جائے اور اگر کسی بات سے اختلاف ہے تو اس کا اظہار بھی ذاتیات کے بجائے نظریات کے حوالے سے کیا جائے کہ بالآخر ہم سب کی آخری منزل یعنی ملک و قوم کی ترقی اور عوام کی خیر خواہی تو ایک ہی ہے۔ سو ایسے میں ایک دوسرے کی غلطیوں اور نیتوں کی خرابیوں کا ڈھنڈورا پیٹتے رہنے سے کچھ حاصل وصول نہیں ہو گا۔ اصل مسئلہ ان دانستہ یا نادانستہ غلطیوں کو درست کرنا اور مل جل کر ان مسائل کا حل نکالنا ہے جو چاروں طرف سے امڈے چلے آ رہے ہیں۔

پاکستانی روپیہ اس وقت اپنی تاریخ میں پستی کی خوفناک حدوں کو چھو رہا ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ ایک بار پھر ہمیں IMF کے کسی ایسے پروگرام کا حصہ بننا پڑے جس کا براہ راست منفی اثر 90% عوام کے معیار زندگی پر پڑتا ہے، دہشتگردی کی کارروائیوں میں مناسب حکمت عملی کی وجہ سے بہت حد تک کمی واقع ہوئی ہے لیکن جب تک ہم اپنی سرحدوں کو محفوظ اور پرسکون نہیں بناتے ان سے مکمل نجات ممکن نہیں۔ یعنی ہمیں خارجہ امور اور ہمسائیگی کے معاملات پر بھی مل کر ایک پالیسی بنانے کی ضرورت ہے کہ اس کا تعلق کسی ایک سیاسی جماعت سے نہیں بلکہ پوری قوم سے ہے۔ اسی طرح پانی اور توانائی کے مسائل سے نمٹنا بھی ایک کارے دارد ہے۔

سی پیک میں پاکستانی مفادات کے حصول و حفاظت پر زیادہ توجہ دینا اور غیر ملکی قرضوں کے بوجھ سے اپنی معیشت کو رہائی دلانا بھی ایک اہم اور ضروری کام ہے جب کہ ملک کے اندر کہیں کہیں پر موجود طبقاتی، لسانی، فرقہ وارانہ اور معاشی تفریق کے مسائل بھی اپنی جگہ پر توجہ طلب ہیں۔ اگرچہ ان سب باتوں کا تعلق 25 جولائی کے بعد کی صورتحال سے زیادہ واضح ہو گا لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ذاتیات کے حوالے سے جو ناخوشگوار فضا قائم ہوگئی ہے سب سے پہلے اسے ختم کیا جائے۔ کسی کو ذاتی پسند نہ پسند کے حوالے سے کافر غیر محب وطن قرار دینا ایک انتہائی غلط اور خطرناک رویہ ہے اور کوئی بھی معاشرہ کسی بھی فرد کو اس کی اجازت نہیں دیتا۔

اسی طرح دوسروں کے انسانی رشتوں اور ذاتی معاملات میں دخل اندازی ان کی توہین بھی ایک ایسا شرمناک اور ناپسندیدہ فعل ہے جس کی سب کو مل کر مذمت کرنی چاہیے اور آئندہ کے لیے اس روش کا مکمل خاتمہ کرنے کے لیے مل کر اس کا عہد اور ارادہ کرنا چاہیے اور 26 جولائی کے طلوع آفتاب کے ساتھ ماضی کی تمام بدمزگیوں کو ایک طرف رکھ کر اس پاکستان کی تعمیر و ترقی میں یک دل اور یک جان ہوکر آگے بڑھنا چاہیے جو ہم سب کا ہے اور اس ’’ہم سب کا پاکستان‘‘ کی پہلی شرط یہی ہے کہ ایک دوسرے کی عزت اور جذبات کا احترام کرنا سیکھیں اور ہر وہ رعایت دوسروں کو بھی دیں جو ہم اپنے لیے مانگتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے