کہاں مریم ؟ کہاں بینظیر ؟

میاں نواز شریف کی بیٹی مریم نواز اپنی تقاریر میں اکثر ایک جملہ کہتی ہیں کہ لوگ بیٹیوں کو باپ کی کمزوری سمجھتے ہیں مگر میں باپ کی طاقت ہوں ، جب سے میاں صاحب کو نااہل کیا گیا تب سے مریم کا انداز جارحانہ ہے ، وہ اپنی تقریروں میں بھی تلخ ہو جاتی ہیں ، عدالت کے کٹہرے میں جب انہیں کھڑا کیا گیا تو نواز شریف دکھی ہو گئے تھے ، انہوں نے یہ بیان بھی دیا کہ بیٹیوں کو عدالتوں میں گھسیٹنا ٹھیک نہیں ، جو لوگ آج یہ کام کر رہے ہیں کل انہیں یہ دن دیکھنا پڑے گا ، مریم نواز کا جوش و خروش اور جذبہ اس حوالے سے قابل دید ہے کہ وہ اپنے باپ کیساتھ کھڑی ہیں ، مگر کچھ لوگ انہیں بینظیر بھٹو بنانے پر تلے ہوئے ہیں ، وہ مریم نواز کو بینظیر ثانی کہتے ہیں حلانکہ مریم مریم ہے اور بینظیر بینظیر ، دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے ، میں دونوں میں تقابل تو نہیں کرتا مگر میری یہ دعا ہے کہ خدا مریم کو بینظیر نہ بنائے ، اس لیے کہ بینظیر دکھ کا دوسرا نام ہے ، بینظیر بھٹو نے جو دکھ جھیلے وہ کوئی عام عورت نہیں جھیل سکتی ، بینظیر بننے کے لیے قربانیاں دینی پڑتی ہیں ، ستم سہہ کر بھی مسکرانا بھی پڑتا ہے ، گرنا اور اٹھنا پڑتا ہے ، آزمائشیں قدم قدم پر راستہ روکتی ہیں ، بینظیر بننے سے پہلے گڑھی خدا بخش کے قبرستان کو جوان دینے پڑتے ہیں ، ابھی مریم نے دیکھا ہی کیا ہے ؟ چند پیشیاں بھگتیں اور زبان پر حرف شکایت لے آئیں ، کیمروں کے ہجوم اور سیکورٹی اہلکاروں کے پروٹوکول میں ہٹو بچو کی صداوں کیساتھ پیش ہو کر بینظیر کہلوانا زیادتی ہے ، کیا مریم نے بی بی شہید کی زندگی کو پڑھا ہے ؟ اگر نہیں پڑھا تو انہیں پہلی فرصت میں بی بی شہید کی زندگی کا مطالعہ کرنا چاہیے ، لوگوں نے بینظیر بننا آسان سمجھ لیا ہے ،

بینظیر بھٹو اپنی کتاب دختر مشرق میں اپنے باپ سے آخری ملاقات کا واقعہ لکھتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ کیسے انہیں ملاقات کے لیے آدھا گھنٹے کا وقت دیا گیا ، آدھے گھنٹے سے زیادہ ہمیں رکنے نہیں دیا گیا ، ملاقات کے وقت بھی جیلر پاس موجود تھا ، ہماری سرگوشیاں سنی جاتی تھیں ، پہلے ملاقاتیں کوٹھڑی کے اندر ہوتی تھیں مگر اس بار سلاخوں کے باہر بٹھایا گیا ، آدھے گھنٹے بعد سپرنٹنڈنٹ پکارتا ہے کہ وقت ختم ہو گیا ، میں ان سے کہتی ہوں جیل کا دروازہ کھول دو میں بابا سے ملنا چاہتی ہوں ، مگر میری ایک بھی نہیں سنی جاتی ، میں اپنے باپ کو سلاخوں سے چھو کر واپس ہو جاتی ہوں ، جیل کی سلاخیں باپ بیٹی کے درمیان حائل ہو گئیں ، باپ بیٹی سے نہ مل سکا اور بیٹی باپ سے نہ مل سکی ، سلاخوں نے خواہشات و جذبات کا خون کر دیا ، یہ کتنا اذیت ناک لمحہ ہے کہ بچھڑنے والا ہمیشہ کے لیے بچھڑ رہا ہے اور اسے بیٹی سے گلے بھی نہیں ملنے دیا جا رہا ؟ بی بی باپ سے گلے نہ مل سکی اور باپ بیٹی سے ، بھٹو پھانسی چڑھا دیے گئے اور انکا جنازہ رات کی تاریکی میں اٹھایا گیا ، چند گنے چنے لوگوں کو جنازے میں چھوڑا گیا ، فوجی آمر کا قہر ایک لڑکی پوری قوت سے برداشت کرتی رہی ، کیا مریم اس دن کے لیے تیار ہے ؟ کیا مریم کسی ضیاء الحق کا یہ قہر دیکھ سکتی ہے ؟ کیا مریم بادشاہوں بھری صفات رکھنے والے باپ کو اس طرح پھانسی پر لٹکتا دیکھ سکتی ہے ؟ اور کیا نواز شریف بھٹو بن کر بہادری سے یہ کردار ادا کر سکتے ہیں ؟ معاہدے کر کے ملک سے باہر جانے والے بھٹو نہیں بن سکتے ،

پھر بی بی شہید کے دو بھائی تھے ایک بھائی کو زہر دیکر قتل کر دیا گیا اور دوسرے کو کراچی کی سڑک پر دن دہاڑے گولیوں کا نشانہ بنا دیا گیا ، بہن کی حکومت میں بھائی نشانہ بنا اور الزام بھی بہن پر لگا دیا گیا ، بینظیر ایک ماں رکھتی تھیں جنہیں سر پر پولیس نے لاٹھیاں ماریں اور انکی قوت یاداشت چلی گئی ، کئی سالوں تک ماں نہ بول سکتی تھی اور نہ کسی کو پہچان سکتی تھی ، بی بی ایک شوہر بھی رکھتی تھیں جنہیں گیارہ سال تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھا گیا ، بچے باپ کی شفقت سے محروم ہوئے ، اور خود بی بی شہید جیلوں میں رلتی رہیں ، کبھی ایک جیل اور کبھی دوسری جیل ، شاید بہت سارے دوستوں کو معلوم نہ ہو کہ بلاول جب ماں کے پیٹ میں تھا تو اس وقت اسمبلی تحلیل کر کے عام انتخابات کا اعلان کر دیا گیا، بینظیر کا راستہ روکنے والوں کے ذہن میں تھا کہ ایک حاملہ لڑکی کس طرح مہم چلائے گی مگر بی بی یہ بھی کر گزریں ، جب بختاور پیدا ہو رہی تھی تو اپوزیشن نے احتجاج شروع کر دیا ، اپوزیشن نے صدر اور فوج سے مطالبہ کیا کہ بینظیر بھٹو کی حکومت ختم کی جائے ، دلیل یہ دی کہ حاملہ وزیر اعظم کو زچگی کی چھٹی کی اجازت نہیں ، وزیر اعظم اگر چھٹی پر جاتی ہے تو حکومتی نظام ٹھپ ہو جائے گا ، اس لیے صدر بی بی کو برطرف کر کے نئے انتخابات سے پہلے عبوری حکومت قائم کرے ، بی بی شہید نے اپوزیشن کو بتایا کہ قانونی طور پر خواتین زچگی کے موقع پر چھٹی لے سکتی ہیں ، زچگی کی چھٹی کا قانون وزیر اعظم پر بھی لاگو ہوتا ہے ، مگر اپوزیشن نہ مانی اور اپنا مطالبہ جاری رکھا ، بی بی نے انہیں بتایا اگر مرد وزیر اعظم ہو اور وہ بیمار ہو جائے تو کوئی آئینی بحران پیدا نہیں ہوتا اگر ایک عورت وزیر اعظم ہو اور وہ بیمار ہو جائے آئینی بحران کیوں جنم لیتا ہے ؟ کسی نے بی بی کی یہ جائز دلیل بھی نہیں سنی ، بالآخر بی بی نے ڈاکٹر سے مشورہ کیا اور آپریشن کروا کے بچی کو جنم دیا ، آپریشن کے دوسرے دوز بی بی آفس پہنچ گئیں اور دفتری کام نمٹایا، تاریخ میں یہ پہلی مثال بی بی نے ہی قائم کی کہ بچی کی پیدائش کیساتھ ساتھ دفتری امور بھی سرانجام دیے ، بی بی کے مقابل جو مرد تھے وہ بھی احساس سے عاری تھے ، خود بی بی سے پوچھا گیا آپ کی زندگی کا المیہ کیا ہے ؟ جواب دیا مرد ، باپ پھانسی چڑھا دیا گیا ، بھائی قتل کر دیے گئے شوہر جیل میں ڈال دیا گیا، عمر مردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے گزر گئی ،

یہ وہ دکھ ہیں جو بی بی کو زندگی میں جھیلنے پڑے ، جیلیں گرفتاریاں ، لاشیں ، جلاوطنیاں، دو سال کے بچوں سے دوری یہ بی بی کی زندگی کا حصہ تھیں ، بی بی جب شہادت سے قبل وطن واپس لوٹیں تو کراچی میں دھماکوں سے واسطہ پڑا ، دھماکوں کے باوجود وہ رکی نہیں بلکہ مسلسل آگے بڑھتی رہیں اور آخر کار پنڈی میں جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں، لکھنے والوں نے یہ لکھا کہ بی بی کو جس تابوت میں رکھا گیا وہ تابوت بھی چھوٹا تھا جبکہ بی بی کا قد بڑا تھا ، بی بی شہید کو قد برابر نہ تابوت ملا اور نہ ہی دشمن ، بڑے قد کی مالک خاتون کو دشمن بھی چھوٹے قد کے ملے ، یہ بینظیر بھٹو کی عظمت کی دلیل ہے کہ انکے سیاسی حریف یا بھٹو بننا پسند کرتے ہیں یا بینظیر _

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے