امریکی قیادت چین سے تجارتی محاز پر خوفزدہ۔۔۔

حالیہ عرصے میں امریکی حکومت کی جانب سے عالمی تجارتی تنظیم (WTO)کے حوالے سے عدم اطمینان کا اظہار سامنے آیا ہے اور امریکی قیادت نے اس ضمن میں عالمی تجارتی تنظیم سے علحیدگی اختیار کرنے کی بھی دھمکی دی ہے اور دوسری جانب امریکی قیادت کی جانب سے یہ بھی شکوہ سامنے آیا ہے کہ تجارتی محاز پر امریکہ کے ساتھ ناانصافی برتی جار ہی ہے جس کیوجہ سے امریکہ کو تجارتی اور اقتصادی سطع پر بہت زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

یہاں یہ امر غور طلب ہے کہ امریکہ چونکہ باہمی تجارت کے حوالے سے بہت سے ثمرات سے محروم ہو چکا ہے اور جو یہ ثمرات آزادانہ تجارت کے حوالے سے ماضی میں بہت سے مفادات حاصل کر چکا ہے اور عوامل یہ ہی ہیں کہ امریکہ آج تجارتی سطع پر محاز آرائی کی جانب گامزن ہے، امریکہ دنیا کا طاقتور ترین ملک ہے اور دوسری جانب امریکی قیادت دعویدار ہے کہ اسے بین الاقوامی تجارت میں سخت چیلنجز کا سامنا ہے یا اسے دیگر ممالک کے مقابلے میں بیرونی تجارت کے حوالے سے بہت سے تحفظات ہیں ، اس حوالے سے امریکی دعوے دنیا بھر کے لیے حیرت کا باعث ہیں کہ ایک ایسا ملک جو دنیا میں اپنی دھاک اور طاقت کا دعوایدار ہے اسے بین الاقوامی تجارت میں کیسے سائیڈ لائن کیا جا سکتا ہے۔دھن اسی کے لیے بجتی ہے جو سارنگی بجانے والے کو بخشش دیتا ہے۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو بین الاقوامی معیشت کے تمام تر اعشارے اور دھارے امریکی ایماء پر تخلیق اور کنٹرول کیئے جاتے ییں اور یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے دنیا کے تجارتی اور مالیاتی نظام پر امریکہ کی بلا شرکتِ غیرے حکمرانی رہی ہے اور بین الاقوامی معیشت اور تجارت کے حوالے سے تمام تر قواعدو ضوابط امریکہ اپنے مفادات کے پیشِ نظر مرتب کرتا آرہا ہے، اس طرح GATTاور WTOکی تخلیق اور بریٹن ووڈز نظام کی تبدیلی کیبعد بین الاقوامی مالیاتی نظام بہت سے تبدیلیوں سے آشکار ہوا یوں تجارتی نظام، تجارتی قواعدوضوابط اور بین الاقوامی معیشت کے اصول وضوابط بہت سی تبدیلیوں سے متاثر ہوا،اس تناظر میں یہ امر نا قابلِ یقین ہے کہ کسی بھی میچ کے حوالے سے ریفری ایسے قواعدوضوابط مرتب کرے جس اسی کی ٹیم کو ہرانے کا سبب بنیں، اس ضمن میں امریکی انتظامیہ کبھی بھی ایک لمحے کے لیے غافل نہیں رہی کہ ایسے اصول اور قواعدوضوابط مرتب کیئے جائیں جس سے اسے اپنے مفادات کے حصول میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے۔

گزشتہ حالیہ چند سالوں میں امریکی انتظامیہ نے بین الاقوامی معیشت، تجارت اور سرمایہ کاری کے حوالے سے بہت سے اصول وضوابط میں نمایاں تبدیلیاں کی ہیںتاکہ اس مسابقتی ماحول میں بین الاقوامی معیشت اور تجارتی قوانین کو امریکی مفادات کے مطابق مرتب کیا جا سکے۔ اس طرح سے امریکی انتظامیہ نے ہمیشہ سے یہ کوشش کی ہے کہ عالمی معیشت اور گورننس کو اس طرح سے مزین رکھا جائے کہ یہ عوامل امریکہ کے مفادات کو یقینی بناتے رہیں۔اس تناظر میں اعدادوشمار کو پرکھا جائے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکی انتظامیہ کس قدر منافع کو زیادہ سے زیادہ کرنے میں مصروفِ عمل رہی ہے۔

بسا اوقات قواعدوضوابط مرتب کرنے والے عناصر ہی سب سے زیادہ فاہدہ اٹھاتے ہیں اور یہ کوئی ڈھکا چھپا راز نہیں ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے امریکی انتظامیہ عالمی سطع پر سب سے زیادہ مضبوط اور طاقتور ملک کے طور پر دنیا بھر کے معاملات کو کنٹرول کرتے نظر آئیے۔اسی طرح عالمی سطع پربین الاقوامی معیشت اورتجارت کے حوالے سے قواعدو ضوابط مرتب کرنے کے عمل میں امریکی انتظامیہ نے عالمی معیشت کو مرتب کرنے کے لیے اداراتی مفا دات کو یقینی بنایا ہے اور عالمی سطع پر تجارتی اور اقتصادی محاز پر اپنی برتری کو یقینی بنایا ہے اور اس دور میں کثیر الجہتی تجارتی اور اقتصادی نظام سے بھر پور فاہدہ اٹھایا ہے اس طرح سے گزشتہ سات دہائیوں سے امریکہ تجارتی اور اقتصادی لیول پر اپنی تیار کردہ پالیسی اور قوا عدودضوابط کی بنا پر حکمرانی کرتا رہا ہے، گزشتہ سال امریکہ کا تجارتی حجم 3,91ٹریلین ڈالر رہا ہے، اسی طرح خدمات کے شعبے میں تجارتی حجم 1.31ٹریلین ڈالر رہا ہے جو بالترتیب دنیا میں پہلے اور دوسرے نمبر پر ہے۔

عالمی مالیاتی شعبے میں امریکن ڈالر کوغیر ملکی زرِ مبادلہ کے حوالے سے باسٹھ فیصد زائد کا حجم حاصل ہے اس طرح سے اس اسٹیٹس کے زریعے سے امریکی حکومت کو ڈالرز کے اجراء کے حوالے سے کوئنیج ٹیکس حاصل ہوتا ہے اور دیگر اقتصادی فوائد اس کے علاوہ حاصل ہوتے ہیں اس کے علاوہ انرجی کے شعبے میں 2009تک امریکہ قدرتی گیس پیدا کرنیوالا دنیا کا سب سے بڑا ملک تھا اور 2013کے بعد سعودی عرب کے بعد تیل پیدا کرنیولا سب سے بڑا ملک تھا اسی طرح دنیا بھر میں امریکی سرمائے کو خصوصی فوقیت حاصل رہی ہے امریکہ دنیا بھر سے اہم مصنوعات کو اپنے لوگوں کے لیے درامد کرتا ہے اور دنیا کے بیشتر ممالک امریکی ڈالر اپنے زرِمبادلہ کے زخائر کے طور پر اسٹاک کرتے ہیں اسی طرح امریکی کی بہت سی کمپنیز ٹیکنالوجی جدت پسندی کے حوالے سے اپنا ایک کلیدی اور موثر مقام رکھتی ہیں اور عالمی معیشت کے حوالے سے ان امریکی کمپنیز نے دنیا بھر سے بھر پور انداز میں سرمایہ اکھٹا کیا ہے اس طرح سے امریکہ نے کثیر الجہتی تجارتی نظام سے بھر پور استعفادہ اور منافع کمایا ہے تاہم موجودہ حالات میں چائینیز تھیوری کے مطابق امریکہ عالمی سطع پر اس منافع خوری میں کمی واقع ہو رہی ہے،

کیونکہ امریکہ صرف اپنے مفادات کو مدِ نظر رکھتا ہے ماضی میں امریکہ نے مسابقتی مارکیٹ، آزادانہ اور شفاف تجارت، اور عالمی صنعتی چینز کو نا قابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے اس طرح کثیر الجہتی تجارتی نظام کو بہت سے مواقعوں پر شدید چیلنجز کا سامنا ہے، آج صورتحال یہ ہے کہ امریکی انتظامیہ نے ملک سے بیرونی خریداری میں استعصالی شرائط لاگو کر دی ہیں اور غیر ملکی معیاری مصنوعات کی امریکی مارکیٹس تک رسائی کو کڑی شرائط سے مشروط کیا جا رہا ہے، یوں تجارتی رکاوٹوں کی وجہ سے امریکہ کو دیگر ممالک سے تجارت میں خاصے نقصان کا سامنا ہے۔

آج امریکہ قومی سیکوریٹی کے نام پر سرمایہ کارہ کو محدود کر رہا ہے اور سرمایہ کاری سے متعلق امور میں رکاوٹیں پیدا کی جا رہی ہیں ،آج صورتحال یہ ہے کہ امریکہ آج تک اپنے انٹی لیکچوئل پراپرٹی تحفظ کے لیے موجود خامیوں پر قابو نہیں پا سکا ہے اور یہ ہی وہ عوامل ہیں جن کے باعث لوگ کہہ رہے ہیں کہ امریکہ تجارتی ثمرات سے محروم ہو رہا ہے، دوسری جانب یہ بھی قیاس آرائی ہے کہ امریکہ تجارتی حوالے سے جو واویلا کر رہا ہے اس کے پیچھے امریکہ کے خفیہ عزائم کارفرما ہیں اور تجارتی تحفظ کو ان مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

امریکہ کے پاس اسٹیٹس کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے اپنا پالیسی میکنزیم موجود ہے اور یہ امر بہت معصومانہ ہے کہ امریکہ ثمرات سے محروم ہو رہا ہے اور یہ امر اس حوالے سے پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ مستقبل میں امریکہ دیگر ممالک سے اپنی من پسند قیمت حاصل کر سکے۔، موجودہ دنیا میں تجارت شفافیت سے منسلک ہے اور کسی بھی قسم کی تجارتی استعصال کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ یوں عالمی سطع پر تجارتی تحفظ کو دھمکی دیکر امریکہ عالمی معیشت کو محاز آرائی کا جانب جھونک سکتا ہے اور خود کو سنگین صورتحال سے دوچار کر سکتا ہے۔ آج کی دنیا میں عالمی تجارت کو تنہائی کی جانب نہیں موڑا جا سکتا عالمی تجارت کو ترقی اور بہتری کی جانب بڑھنا ہوگا اور یہ وہ حقیقت ہے جس کا امریکہ کو دیگر ممالک کی نسبت بہتر ادراک ہونا چاہیے، اور امریکی انتطامیہ کا یہ بیانیہ کہ عالمی تجارت میں امریکہ کو نقصان کا سامنا ہے اس بیانیے کو تبدیل کرنا ہوگا، اور امریکہ کو اس حقیقت کا خود ادراک کرنا ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے