آرمی چیف کے نام

محترم جناب قمر جاوید باجوہ صاحب

السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

مزاج گرامی ، امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے ۔

ایک عام پاکستانی کی حیثیت سے آج آپ سے مخاطب ہونے کی جسارت کر رہا ہوں ۔

آپ انسان کی اس خاص فطرت سے ضرور واقف ہونگے کہ یہ محبت اور عشق کا خوگر ہے ۔ اسے ڈانٹ ۔ تشدد اور گالیوں سے زیادہ محبت اور پیار کی زبان سمجھ آتی ہے ۔

دوسری یہ بات بھی آپ کو معلوم ہوگی کہ کسی کافر کے گھر پیدا ہونے والا بچہ بھی اسلام ہی کی فطرت پر پیدا ہوتا ہے ۔ اسی وجہ سے مسلمان نہ ہونے کے باوجود سچائی ، دیانت اور عدل ہی کو چاہتا ہے ۔

تیسری یہ بات بھی آپ یقینا جانتے ہوں گے کہ جس سے محبت ہوتی ہے ان کے جرائم معاف ہوتے ہیں اور جس سے نفرت ہو ۔ ان کی نیکیاں بھی زہر لگتی ہیں ، مثل مشہور ہے کہ بیوی کو طلاق دینی ہو تو کہتے ہیں ” تو آٹا گوندھتے وقت ہلتی کیوں ہے” ۔

اس تمہید کے بعد عرض ہے کہ آپ (اس پوری تحریر میں "آپ” اور جنرل حضرات کے ناموں سے مراد فوج ہے) کی کرختگی کے باوجود ہمارا اور آپ کا رشتہ محبت والا رہا ہے ۔ ہم نے آپ کو دیکھا نہیں تھا مگر کسی ٹرک کے پیچھے جنرل ایوب خان کی برش سے بنی تصویر کا دور تک پیچھا کرتے تھے ۔ مہینوں میں کبھی آپ لوگوں کی "جیپ” نظر آتی تھی تو اس پر رشک کیا کرتے تھے ۔ گھر کی واشنگ مشین اور فرج پر آپ لوگوں کی تصویریں چپکایا کرتے تھے ۔ آپ لوگ نہ سیاسی لیڈروں سے ملتے تھے نہ پریس کانفرنسیں کرتے تھے ۔ نہ میڈیا کاروں سے واقفیت چاہتے تھے اور نہ ہی آپ کو صفائیاں پیش کرنے کیلئے ISPR کی ضرورت ہوا کرتی تھی ۔ ۔ ۔ تب کبھی کوئی آپ کی برائی کرتا تو ہم اگلے ہی لمحے اس کا گریبان پھاڑ دیا کرتے تھے ۔ ۔ ۔ پھر یوں ہوا کہ آپ لوگ سڑکوں پر نظر آنے لگے ۔ یہ سرسید کالج کی طالبہ بشری زیدی کی روڈ ایکسیڈنٹ میں ہلاکت تھی ۔ جس سے روشنیوں کے شہر کراچی میں تاریک ہنگامے پھوٹ پڑے اور آپ کو نظر آنا پڑا ۔ ۔ ۔ اور پھر آپ ایسے نظر آتے گئے کہ کبھی بھی آنکھوں ۔ سڑکوں اور اخباروں سے اوجھل نہ ہوئے ۔ ۔ ۔ پھر پھر اور پھر تو جیسے سڑکوں ، چوکوں اور سیاست سے آپ کے مفادات یا پوری حیات ہی وابستہ ہوگئی ۔ "ہر جگہ تو ہی تو” کے مصداق ہر سیاسی پارٹی کی رسم بسم اللہ آپ نے کی ۔

مسلم لیگ کے پیچھے جنرل ضیاء الحق نظر آئے تو مدارس اور خانقاہوں کے پیچھے جنرل اختر عبدالرحمن مرحوم ملے ۔ اگر آئی جے آئی کے پیچھے جنرل حمید گل مرحوم نظر آئے تو مسلم لیگ ق کی پشت پر جنرل پرویز مشرف صاحب مکے لہراتے اور صدر مملکت بنتے نظر آئے ۔ اگر پہلی ایم ایم اے کے پیچھے غالبا جنرل محمود صاحب تھے ۔ تو پی ٹی آئی کا تولد جنرل شجاع پاشا صاحب کی پشت سے ہوا ۔ اگر بینظیر و نواز شریف کو ملک بدر کرنے والے آپ تھے تو معاف کیجیئے گا انہی لوگوں سے NRO کرنے والے بھی آپ ہی تھے ۔ رہ گئیں جہادی تنظیمیں ! تو ماشاءاللہ ان کی تو صرف پیدائش آپ کے گھر نہیں ہوئی بلکہ پرورش کا سہرا بھی آپ ہی کے سر جاتا ہے ۔

جناب قمر باجوہ صاحب !

پبلک یہ سب آپ کی محبت میں برداشت کرتی رہی ہے مگر اب آپ نے باقاعدہ ظلم و تشدد کی راہ اپنا لی ہے ۔ ۔ ۔ سر اب آپ کو دیکھ اور سن کر خوف آتا ہے ۔ اب لوگ ایک دوسرے کو آپ کا نام لیکر ۔ رشتہ داری بتلا کر یا تعلقات کی دھمکی دے کر ڈراتے ہیں ۔ معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ ایسی دھمکیاں کبھی بدنام غنڈوں کے حوالے سے دی جاتی تھیں ۔

اب آپ کے نیول چیف منصور الحق سے لے کر آئی ایس آئی کے ڈی جی جنرل رضوان اختر تک خاکی و سفید دامن پر بھی اربوں کی کرپشن اور کمیشن خوری کے داغ بتلائے جاتے ہیں ۔ یہ مستقل ایک اخلاقی کمزوری ہے کہ ڈی جی صاحب کی چھٹی کرپشن کے بجائے اس جرم پر ہوئی کہ انہوں نے اپنے واسطے راستہ صاف کرنے کی خاطر آپ (یہاں آپ کی ذات مراد ہے) پر قادیانیت کی تہمت باندھی تھی ۔

اب آپ باہر سے آرڈر لے کر پاکستانیوں کے خلاف آپریشن کرتے نظر آتے ہیں ۔ بلکہ دوسروں کی جنگ خود پر مسلط کرنے کا بدترین فیصلہ بھی آپ ہی کا تھا ۔

اب آپ کے ہاتھ پر "دہشت گرد” پکڑ کر باہر فروخت کرنے کے داغ بھی بتائے جاتے ہیں ۔

اب آپ رات کو پریس کانفرنس سے فاروق ستار صاحب کو گرفتار تو آن ائر بدتمیزی سے کرتے ہیں مگر صبح چھوڑتے چوری چھپے ہیں ۔ اگر وہ بے قصور تھے تو کیا معذرت بھی اعلانیہ نہیں کرنی چاہیئے تھی ؟

اب آپ ڈاکٹر عاصم کو گرفتار کر کے ان کے تفتیش کی وہ ویڈیو خود ہی لیک کر دیتے ہیں ۔ جس میں وہ جرائم کا اقرار کر رہے ہوتے ہیں ۔ مگر چند دن بعد آپ ہی انہیں پروٹوکول دے رہے ہوتے ہیں ۔

اب آپ اسلام آباد ائرپورٹ سے اربوں کی کرپشن کے مفرور ملزم شرجیل میمن کو دھکے دیکر اٹھا لیتے ہیں ۔ مگر چند دن بعد آپ ہی کی حفاظت میں وہ گڑھی خدا بخش جاکر جلسے میں سونے کا تاج پہنتے ہیں ۔

اب آپ سیاسی جماعتوں میں "ضمیر کی آواز” کے نام پر دھڑے بندیوں میں لگ گئے ہیں ۔

اب آپ اپنی صلاحیتیں اکثریتی پارٹیوں کو دیوار سے لگانے پر صرف کرتے ہیں ۔

کبھی آپ کے "وقار” کی نشانی "جیپ” تھی اب وقار آپ کا "نک نیم” اور جیپ آپ کے امیدواروں کا "انتخابی نشان” ہے ۔

محترم چیف آف آرمی سٹاف صاحب !

ان سب کھیل تماشوں کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب عوام کے دل سے آپ کی محبت اور آپ کا پدری رعب نکلتا جا رہا ہے۔

اب ٹریفک کے معمولی سے ہجوم میں بھی آپ کو اشارے کر کر کے اپنے لئے راستہ مانگنا پڑتا ہے ۔ کوئی آپ کو خود سے راستہ نہیں دیتا ۔

اب پولنگ اسٹیشنوں کے باہر نوجوان آپ کی موبائل کے گرد بھنگڑے ڈال کر آپ پر آوازیں کستے ہیں ۔ سیٹیاں بجاتے ہیں ۔

اب آپ کے نام کے لطیفے اور دلآزار اشعار بنا کر SMS اور واٹسیپ کئے جاتے ہیں ۔

اب لوگ اسٹیج پر کھڑے ہو کر عورتوں اور بچوں تک سے "یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے” کے نعرے لگواتے ہیں ۔

اب آپ کے خلاف فیس بک اور ٹیوٹر پر لکھنا مینٹھوس کی ٹافی بن گیا ہے ۔ ذرہ طبعیت بوجھل ہوئی تو آپ کی خبر لے کر فریش ہو گئے ۔

اب آپ کو "وقار اور محکمہ زراعت” لکھا اور پڑھا جاتا ہے ۔ اور آپ ہی کی بدولت عدلیہ اب "عظمی” کہلاتی ہے ۔

عالی جناب قمر جاوید باجوہ صاحب !

آج یہ زبان زد عام ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ دو سال سے آپ کا ادارہ عدلیہ کو ساتھ ملا کر 25 جولائی 2018 کے الیکشن میں پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی ریگنگ کرنے کی تیاری کر چکا ہے ۔

عالی قدر باجوہ صاحب !

جو میں محسوس کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ آپ دو غلطیوں میں سے ایک کر رہے ہیں یا آپ سے کروائی جارہی ہے ۔

(1) عوام اور آپ کو آمنے سامنے لا کر بغاوت کی فضا بنائی جا رہی ہے ۔ جس سے استحکام پارہ پارہ ہوگا ۔

(2) یا آپ سیاسی جماعتوں کو لڑوا کر اپنے اقتدار کا راستہ ہموار کرنا چاہتے ہیں ۔

عزیز از جاں باجوہ صاحب !

یاد رکھیئے! اگر آپ کا ادارہ اس ریگنگ میں ملوث ہوا تو یہ بہت تیز رفتار اور سوشل میڈیا کا دور ہے ۔ آپ کچھ بھی کر لیں ۔ جتنی بھی احتیاط اور چالاکی دکھا لیں ۔ آپ کے پیادے اور سوار آپ کے پیچھے اتنے انمٹ ثبوت چھوڑ جائیں گے کہ اس کی صفائیاں دینے کیلئے دس ISPR بھی ناکافی ہوں گی ۔ ذرا سمجھیئے ۔

والسلام

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے