گوگل جج اور حنیف عباسی

عرض کیا تھا کہ حنیف عباسی پر منشیات سمگلنگ کا نہیں بلکہ “منشیات رکھنے” کا مقدمہ تھا۔ اب استغاثہ کو ثابت کرنا تھا کہ ایفی ڈرین منشیات یا controlled substance کی تعریف میں آتی ہے۔

وکیل صفائی کا اصرار تھا کہ پورے نارکوٹیکس ایکٹ میں اور اس کے شیڈول میں جہاں بیسیوں منشیات کے نام درج ہیں کہیں بھی ایفی ڈرین کا ذکر نہیں ہے لہذا ایفی ڈرین منشیات کی تعریف میں شامل نہیں۔

اس بنیادی سوال کا جواب جج صاحب نے اپنے فیصلے میں یہ دیا ہے کہ قانون کے مطابق ہر وہ substance جو منشیات بنانے کے کام آئے وہ بھی منشیات ہو گی۔ اب جج صاحب نے استغاثہ کے پیش کردہ ثبوتوں کی مدد دکھانا تھا کہ ایفی ڈرین سے کیسے اور کون سی منشیات بنتی ہے۔ جج صاحب نے اس موقع پر آوٹ آف ورلڈ قسم کا استدلال کیا ہے۔ لکھتے ہیں۔

“اگرچہ یہ عدالت کیمیکل ایکسپرٹ نہیں ہے اور نہ ہی اس عدالت میں کوئی کیمیکل ایکسپرٹ بطور گواہ پیش ہوا ہے تاہم میں نے گوگل پر سرچ کی ہے اور مجھے ایک آرٹیکل ملا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایفی ڈرین ایک خاص ڈرگ “میتھ” بنانے کے لئے استعمال ہوتی ہے لہذا ایفی ڈرین بھی منشیات کی تعریف پر پورا اترتی ہے”۔

اب گوگل کے آرٹیکلز کی بنیاد پر عمر قید کے فیصلے ہوا کریں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے