انتخابات 2018ء: بین الاقوامی مبصرین کا امتحان

‘دھاندلی قبل از انتخابات’ اور ‘مساوی میدان نہ ملنے’ کے الزامات کے درمیان جاری 25 جولائی کے عام انتخابات سے قبل جو الیکشن ریس ہم دیکھ رہے ہیں، اس میں بین الاقوامی مبصرین کو جتنی توجہ مل رہی ہے، وہ عام طور سے کہیں زیادہ ہے۔

2 سب سے نمایاں بین الاقوامی مبصر مشن پہلے ہی پاکستان پہنچ چکے ہیں اور قبل از انتخابات اپنے مشاہدات شروع کر چکے ہیں۔

روایتی طور پر سب سے بڑا بین الاقوامی مبصر مشن یورپی یونین کا ہوتا ہے، اور اسے عمومی طور پر EU-EOM (یورپین یونین الیکشن آبزرور مشن) کہا جاتا ہے۔ یہ نہ صرف مبصرین کی تعداد کے حوالے سے سب سے بڑا مشن ہوتا ہے، بلکہ اس کا مشاہداتی منصوبہ (تقریباً چار ماہ طویل) بھی سب سے طویل ہوتا ہے۔

مشن بھرپور وسائل اور دنیا بھر کے بہترین انتخابی ماہرین تک رسائی رکھتا ہے۔ مشن 100 سے زائد افراد پر مشتمل ہے جن میں 10 تجزیہ کار، 60 طویل مدتی انتخابی مبصرین، 7 ارکانِ یورپی پارلیمان، یورپی ریاستوں اور ناروے، سوئٹزرلینڈ اور کینیڈا کے سفارت خانوں سے 42 سفارتکار شامل ہیں۔

جرمنی سے یورپی پارلیمان کے رکن مائیکل گیلر کی سربراہی میں مشن نے اپنا کام 24 جون کو شروع کیا اور توقع ہے کہ یہ مشن ستمبر تک ملک میں رہے گا۔ یورپی یونین کے مبصرین 2002ء، 2008ء اور 2013ء کے انتخابات میں بھی یہاں موجود تھے۔ ویسے تو مشن عموماً اپنی ابتدائی رپورٹ انتخابات کے 2 دن بعد دیتا ہے، مگر اس کی حتمی رپورٹ کافی بعد میں آتی ہے۔

مشن کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ تفصیلی تجزیہ پیش کرتا ہے کہ اس نے میزبان ملک کو انتخابات کے حوالے سے کیا سفارشات دی تھیں اور ان پر عملدرآمد کی صورتحال کیا رہی۔ ویسے تو بین الاقوامی مبصرین میزبان حکومت پر تنقید کرنے میں انتہائی احتیاط سے کام لیتے ہیں مگر یورپی یونین کے مبصر مشن نے اپنی پریس ریلیزوں میں سے ایک میں ان بیوروکریٹک رکاوٹوں کی طرف اشارہ کیا ہے جن کی وجہ سے مبصرین کی پاکستان آمد چند ہفتوں کی تاخیر کا شکار ہوگئی۔

ایک نسبتاً چھوٹا مگر نامور بین الاقوامی مبصرین پر مشتمل مشن دولتِ مشترکہ کے ممالک کا ‘کامن ویلتھ آبزرور گروپ’ بھی ہے۔ اس میں 14 ارکان ہیں جن میں نائیجیریا کے سابق سربراہِ مملکت جنرل (ر) عبدالسلامی ابوبکر بھی شامل ہیں۔

اس گروپ کے دیگر مشہور ارکان میں سابق ہندوستانی چیف الیکشن کمشنر، سری لنکن الیکشن کمیشن کے رکن، ملائیشین ہیومن رائٹس کمیشن کے کمشنر، نیوزی لینڈ کے ایک سابق وزیر، برطانیہ کے ایک جج، ماریشیئن الیکشن کمیشن کے ایک رکن، آسٹریلیا کے ایک سینیٹر اور بنگلہ دیش، جنوبی افریقا، فجی، کینیا اور نائیجیریا کی سول سوسائیٹی کے نمایاں ارکان شامل ہیں۔

دولتِ مشترکہ سیکریٹریٹ سے 10 رکنی ٹیم بھی اس گروپ کے ساتھ کام کر رہی ہے جو کہ 18 جولائی کو آئی اور 30 جولائی تک ملک میں رہنے کی توقع ہے۔

میزبان ملک کے عوام کی امیدوں کے باوجود بین الاقوامی مبصرین انتخابات کی ساکھ پر شاید ہی کبھی کوئی رائے دیتے ہوں۔ وہ عام طور پر انتخابات کو تکنیکی، انتظامی اور نمائندگی کے پہلوؤں سے دیکھتے ہیں اور اپنی ابتدائی رپورٹس اور بعد میں آنے والی تفصیلی رپورٹیں انتہائی احتیاط کے ساتھ منتخب کیے گئے الفاظ میں جاری کرتے ہیں۔

عمومی طور پر وہ محتاط رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور میزبان ملک کی حکومتوں اور انتخابی اداروں کو ناراض نہیں کرنا چاہتے، کیوں کہ ایک سخت الفاظ پر مبنی بیان جاری کر کے دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کرنے کے بجائے ان کی ترجیح مستقبل کے لیے رابطہ قائم رکھنا ہوتی ہے۔

بین الاقوامی مبصرین کو نہایت پھونک پھونک کر قدم رکھنے ہوتے ہیں کیوں کہ انہیں نہ صرف عمومی طور پر عوامی امنگوں کی تکریم کرنی ہوتی ہے، بلکہ دوسری جانب بین الاقوامی سفارتکاری کی روایات کی پاسداری کرنی ہوتی ہے۔

بین الاقوامی مبصرین کا رویہ کینیا میں اگست 2017ء کے صدارتی انتخابات کے بعد شدید تنقید کا نشانہ بنا۔ تقریباً تمام بین الاقوامی مبصرین، جس میں شہرت یافتہ کارٹر سینٹر (امریکا)، افریقین یونین، نیشنل ڈیموکریٹک انسٹیٹیوٹ (امریکا)، یورپی یونین اور کامن ویلتھ مبصرین کی جاری کردہ ابتدائی رپورٹوں میں بظاہر حکمران صدر اوہورو کینیاتا کی انتخابات میں مشتبہ جیت کی حمایت کی تھی جبکہ مخالف امیدوار رائیلا اوڈینگا نے نتائج مسترد کر دیے۔ عوام وسیع پیمانے پر دھاندلی اور بے ضابطگیوں کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے اور پولیس سے تصادم میں 28 افراد کی جانیں گئیں۔

کچھ مبصرین کے بیانات تو اس وقت بھی کینیائی عوام کو نسبتاً پرامن انتخابات کے انعقاد پر مبارکباد پیش کر رہے تھے جب سڑکوں پر انسانی خون بہہ رہا تھا۔

سابق امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری جنہوں نے کینیا میں کارٹر سینٹر کے مبصر مشن کی قیادت کی تھی، ان کا بیان تھا کہ "کینیا نے اپنی جمہوریت اور جمہوریت کے کردار کے بارے میں افریقا اور پوری دنیا کو ایک زبردست پیغام دیا ہے۔ کسی کو بھی اب اسے نقصان نہ پہنچانے دیں۔”

بین الاقوامی مبصرین کے عمومی طور پر کینیائی انتخابات کے معیار کی تصدیق کر دینے کے تقریباً ایک ماہ بعد کینیا کی سپریم کورٹ نے مخالف صدارتی امیدوار کی فائل کردہ پٹیشن پر حکم جاری کیا کہ انتخابات کینیا کے آئین کے متعین کردہ ضوابط پر پورے نہیں اترے تھے، لہٰذا دونوں اہم امیدواروں کے درمیان دوبارہ ووٹنگ کا حکم دیا گیا۔

یو ایس ایڈ کے سابق اہلکار لیری گاربرن، جنہوں نے بین الاقوامی انتخابی مشاہدے کے رہنما اصول وضع کیے تھے، انہوں نے کینیا کے معاملے کے بعد لکھا تھا کہ "ایسے وقت میں جب مبصرین مقامی اداروں کو جائز تکریم دیتے ہیں، مگر پھر بھی ان کی طویل المدتی ساکھ اس پر منحصر ہے کہ وہ بدعنوان اور پابند اداروں بشمول الیکشن کمیشن اور یہاں تک کہ سپریم کورٹس کی ملی بھگت سے ہونے والی انتخابی دھاندلیوں پر کس قدر کھلے عام تنقید کرتے ہیں۔”

انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ "اگر ان خدشات پر بات نہ کی گئی تو مبصرین کو صرف دھوکے بازوں کا بے وقوف ساتھی سمجھا جائے گا جن کی موجودگی جمہوری کارکنوں کے درمیان بین الاقوامی یکجہتی کو فروغ دینے کے بجائے اسے نقصان پہچائیں گے۔”

دھاندلی کے الزامات کی ایک بڑی وجہ 24 ملین ڈالر کے نئے ملک گیر نظام کا بکھرنا بھی تھا جس کا کام ووٹوں کی گنتی والی شیٹس کو اسکین کرنا اور انہیں فوراً انٹرنیٹ پر ڈالنا تھا۔

کینیائی انتخابات کے معاملے سے ہم سیکھیں تو یہ لگتا ہے کہ پاکستان میں بین الاقوامی انتخابی مبصرین کو اپنی ذمہ داریاں انتہائی احتیاط اور حساسیت کے ساتھ سرانجام دینی ہوں گی۔

عام طور پر وہ انتخابات کے قانونی، تکنیکی اور انتظامی پہلوؤں پر نظر رکھتے ہیں، مگر جیسا کہ کینیا کی مثال ہمیں یاد دلاتی ہے، یہ سیاسی پہلو ہے جو کہ بالآخر انتخابات کی ساکھ کا تعین کرتا ہے۔

کیا کینیا کے انتخابات سے سیکھ کر بین الاقوامی مبصر پاکستان میں اپنے امتحان میں کامیاب ہو پائیں گے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے