الیکشن کے بعد کیا ہوگا؟

سال کے 365دنوں میں سے آج کے دن کالم لکھنا سب سے مشکل ہے، الیکشن کا دن ہے، جب یہ کالم شائع ہوگا تو کچھ لوگ ووٹ ڈال چکے ہوں گے، کچھ ناشتے کے بعد ووٹ ڈالیں گے جبکہ کچھ سیانے جمہوریت پر تبرّا کر کے سو جائیں گے۔

تیسرے درجے کے لوگوں سے مجھے ہمدردی ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو پوری سوسائٹی سے زیادہ کائیاں سمجھتے ہیں، ان کے خیال میں چھ کروڑ لوگ بھیڑ بکریاں ہیں جنہیں الیکشن کا سرکس سجا کر بیوقوف بنایا جاتا ہے، ذات برادری کے نام پر ووٹ ہتھیائے جاتے ہیں اور پھر اِس تماشے کے نتیجے میں جو شے وجود میں آتی ہے اسے نمائندہ حکومت کہہ کر تالیاں پیٹی جاتی ہیں۔ تاہم آج کا دن میں اِن سیانوں پر ضائع نہیں کرنا چاہتا کیونکہ آج الیکشن ہے اور الیکشن کا منعقد ہونا بذات خود اِن کے منہ پر طمانچہ ہے، یہ وہ پڑھے لکھے سیانے ہیں جو خود انتخاب نہیں لڑ سکتے کیونکہ انہیں کسی میلے کچیلے شخص سے معانقہ کرتے ہوئے گھن آتی ہے…

(ویسے عجیب بات ہے کہ قیمتی سوٹ میں ملبوس اور اعلیٰ پرفیوم لگائے ہوئے کسی شخص سے مل کر ان لوگوں کو کبھی گھن نہیں آتی چاہے اُس شخص نے جنگ میں بے گناہوں کا خون ہی کیوں نہ کیا ہو)، لہٰذا اِن لوگوں کو انتخابات والا نظام ہی قبول نہیں، انہیں کوئی ایسا نظام چاہئے جس میں یہ کسی ڈکٹیٹر کے ہاتھ پر بیعت کرکے باقی تمام عمر جاہل عوام کو یہ سمجھانے میں گزار دیں کہ تم ڈنگر ہو اور کسی مہذب ملک میں ڈنگر کا ووٹ نہیں ہوتا۔ معافی چاہتا ہوں میں پھر پٹڑی سے اتر گیا، میں نے تہیہ کیا تھا کہ آج کا دن اِن پڑھے لکھوں پر ضائع نہیں کروں گا مگر یہ قلم ہے کہ مانتا ہی نہیں۔

اصولی طور پر آج کوئی پیشین گوئی کرنی چاہئے اور یہ اس قسم کی ہونی چاہئے کہ کسی بھی نتیجے کی صورت میں بندہ کہہ سکے کہ میں نے تو یہ پہلے ہی کہہ دیا تھا۔ ایسی بہت سی پیشین گوئیاں پہلے ہی مارکیٹ میں گردش کر رہی ہیں لہٰذا آج کا کالم پیشین گوئیوں پر بھی ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ چند کلیدی سوالات ایسے ہیں جن کا غیر مبہم جواب اب تک نہیں ملا، مثلاً انتخابات کے بعد کیا ہوتا ہے، وزیر اعظم کا انتخاب کیسے ہوتا ہے، حکومت کیسے بنتی ہے؟ بظاہر ان کا سادہ جواب یہ ہے کہ جس پارٹی کی نشستیں زیادہ ہوں وہ حکومت بناتی ہے، شاید ایسا ہی ہے مگر انتخابات کے بعد یہ ایک اور دریا ہے جس کا سامنا سیاسی جماعتوں کو کرنا ہوتا ہے۔

آئین کے مطابق انتخابات کے 14دن میں الیکشن کمیشن سرکاری نتائج کا اعلان کرے گا، ایوان کی 272نشستوں (ماسوائے اُن نشستوں کے جہاں انتخاب ملتوی ہو گیا ہے) کے نتیجے کے علاوہ، عورتوں کی 60مخصوص نشستوں اور 10غیر مسلم مخصوص نشستوں کا نتیجہ بھی سنایا جائے گا، یہ سادہ حساب کتاب کے ذریعے ہوگا، جماعتیں اپنی مخصوص نشستوں کی فہرستیں پہلے ہی الیکشن کمیشن کو جمع کروا چکی ہیں سو جو جماعت 272کے ایوان میں سے جتنی بھی نشستیں جیتے گی اسی تناسب سے اسے مخصوص نشستیں مل جائیں گی مثلاً اگر ایک جماعت 272کا ایک تہائی جیتتی ہے تو اسے 60میں سے ایک تہائی نشستیں مل جائیں گی۔

یوں 342کا ایوان مکمل ہونے کے بعد آئین کی شق 91(2)کی رو سے الیکشن منعقد ہونے کے اکیسویں روز قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا جائے گا تاہم صدر یہ اجلاس پہلے بھی بلا سکتا ہے، اُس روز سب سے پہلے نومنتخب اراکین اسمبلی حلف اٹھائیں گے، پھرا سپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب ہو گا، یہ انتخاب خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہو گا، آئین کی شق 226کہتی ہے کہ ماسوائے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے، آئین کے تحت تمام انتخابات سیکرٹ بیلٹ (خفیہ رائے شماری) کے ذریعے ہوں گے۔

اسپیکر کے انتخاب کی اہم بات یہ ہے کہ اگر اس مقابلے میں دو امیدوار ہوں گے تو زیادہ ووٹ حاصل کرنے والا اسپیکر منتخب ہو جائے گا اور اگر ووٹ برابر ہوں گے تو دوبارہ ووٹنگ ہوگی تاوقتیکہ دونوں میں ایک جیت نہ جائے، البتہ اگر دو سے زیادہ امیدوار ہوئے تو پھر جیتنے والے کے لئے لازم ہے کہ وہ باقی تمام امیدواروں سے زیادہ ووٹ حاصل کرے۔ یہ تو ہوئی آئینی بات، پارلیمانی جمہوریت کی روایت البتہ یہ ہے کہ اگر ایوان کی اکثریت کا علم ہو جائے تو عموماً جیتی ہوئی جماعت کے خلاف اسپیکر کا امیدوار کھڑا نہیں کیا جاتا تاکہ غیر جانبداری کا تاثر قائم رہے اور وہ پانچ برس ایوان کو چلا سکے۔

اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کے فوراً بعد وزیر اعظم کا انتخاب ہوگا، یہ انتخاب خفیہ رائے شماری نہیں ہوگا، آئین کی شق91(4)کے مطابق قومی اسمبلی کی کل نشستوں کے اکثریتی ووٹ حاصل کرنے والا وزیر اعظم ہو گا گویا جس نے ملک کا وزیر اعظم بننا ہے اُس نے 342کے ایوان میں 171ووٹ حاصل کرنے ہیں، براہ راست نشستیں چونکہ 272ہیں سو یوں کہہ لیتے ہیں کہ اگر کوئی جماعت انتخابات میں 136نشستیں جیت لیتی ہے تو بغیر کسی تردد کے اپنا وزیر اعظم منتخب کروا لے گی، اگر دو سے زائد جماعتیں وزارت عظمیٰ کا اپنا اپنا امیدوار کھڑا کرتی ہیں اور اُن میں سے کوئی ایک بھی 171ووٹ حاصل نہیں کر پاتا تو پھر اگلا راؤنڈ ہوگا جس میں اوپر کے دو امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوگا اور زیادہ ووٹ حاصل کرنے والا وزیر اعظم منتخب ہو جائے گا چاہے اُس نے 171ووٹ حاصل نہ کئے ہوں۔

ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ اسپیکر سے لے کر وزیر اعظم تک کی تمام ووٹنگ اور گنتی اُن اراکین اسمبلی کے درمیان ہوگی جو اُس وقت موجود اور حاضر ہوں گے۔ اِن تمام آئینی شقوں کا عملاً مطلب یہ ہے کہ اسپیکر کا انتخاب خفیہ ہوگا مگر اس کے لیے 171ووٹ ضروری نہیں جس امیدوار کے ووٹ مدمقابل سے زیادہ ہوں گے وہ منتخب ہو جائے گا البتہ وزیر اعظم کا انتخاب خفیہ ہو گا اور اسے 171ووٹ لازماً حاصل کرنا ہوں گے۔ یادش بخیر، ایک مشہور زمانہ شق58(2b)ہوا کرتی تھی جو ختم کر دی گئی ہے تاہم اس کا پھن باقی ہے، معاملہ چونکہ نازک ہے اس لئے بغیر ترجمے کے من و عن پیش ہے:

’’Notwithstanding anything contained in clause (2) of Article 48, the President may also dissolve the National Assembly in his discretion where, a vote of no confidence having been passed against the Prime Minister, no other member of the National Assembly commands the confidence of the majority of the members of the National Assembly in accordance with provisions”…

اس کا ایک مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ صدر صرف اسی صورت میں اسمبلی توڑ سکتا ہے اگر وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہو اور کوئی دوسرا رکن بھی اکثریت حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو، اور دوسرا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ پہلے انتخاب کے موقع پر ہی کوئی بھی شخص اکثریت ثابت کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو۔ فی الحال یہ ایک کتابی بحث ہے۔

سب سے اہم آئین کی شق 63Aہے، جس کے تحت اگر کوئی رکن اسمبلی اپنی پارٹی پوزیشن کے برخلاف ووٹ ڈالتا ہے (جیسے کہ وزیر اعظم کے انتخاب کے موقع پر) تو وہ اپنی نشست سے ہاتھ دھو بیٹھے گا مگر اس سے پہلے پارٹی کے سربراہ کو اُسے اظہار وجوہ کو نوٹس دینا ہوگا اور بعد ازاں الیکشن کمشنر کو لکھ کر دینا ہوگا کہ اس کی رکنیت منسوخ کی جائے۔ اِس دوران اُس رکن کا ووٹ البتہ گنا جا چکا ہو گا، وہ رد نہیں ہوگا۔ سو جو لوگ پارٹی پوزیشن کے برخلاف ووٹ ڈالیں گے وہ اپنی محنت سے جیتی ہوئی نشست کی قربانی دے کر یہ کام کریں گے سو اِس حماقت کا امکان کم ہے۔

کالم شروع کرتے وقت میرا خیال تھا کہ آج کا کالم فضول باتوں میں ضائع ہو جائے گا، اب جبکہ میں آئین اور قانون کی باتیں لکھ کر کالم مکمل کر چکا ہوں تو اندازہ ہو رہا ہے کہ کالم ضائع ہو چکاہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے