Daja Vu کی کیفیت

انگریزی میں دیجا وو ایسی صورتحال کو کہتے ہیں کہ جس میں آپ کو یہ دھوکا ہو کہ آپ جن حالات سے آج گزر رہے ہیں ان حالات سے پہلے بھی گزرچکے ہیں۔ آج لگتا ہے پورا ملک بھی دیجاوو کا شکار ہے ۔ بات مزید واضح کرنے کے لیے آپ کو ذرا پیچھے لے جاتا ہوں۔

انیس سو ستر کی بات ہے ۔یحییٰ خان کو بتایا گیا تھا کہ ملک میں معلق پارلیمنٹ ہوگی لہذا عام انتخابات کروا دئیے جائیں۔ عوامی مطالبہ بھی یہی تھا۔ اس دور میں مشرقی پاکستان کہلانے والے بنگلہ دیش کی حیثیت وہی تھی جو آج پاکستان میں پنجاب کی ہے ۔ آبادی زیادہ اور قانون ساز اسمبلی میں نشستیں بھی زیادہ ۔ یعنی اگر کوئی صرف بنگلہ دیش سے جیتتا تو وہ ملک کا وزیراعظم ہوتا۔ جمہوریت میں آبادی کی اکثریت فیصلہ دیتی ہے اور اکثریت نے شیخ مجیب الرحمن اور اسکی جماعت عوامی لیگ کے حق میں فیصلہ دیا۔

اس دور میں مغربی پاکستان جسے ہم آج پورا پاکستان جانتے ہیں ، بھٹو کے ساتھ کھڑا تھا اور بدقسمتی یہ کہ بھٹو اس وقت یحییٰ کی قیادت میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑا تھا۔ وہ اس وقت رہنما نہیں بنا تھا صرف سیاستدان تھا جسکا مطمح نظر فقط اقتدار کا حصول تھا۔ اسٹیبلشمنٹ کو شیخ مجیب سے خوف تھا کیونکہ وہ اس کے کنٹرول میں نہیں تھا۔

وہ بنگالیوں کے ساتھ روا رکھی جانے والی زیادتیوں پر آواز اٹھاتا اور ان کےلیے حقوق مانگتا۔ اقتدار کے کھیل میں دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ شیخ مجیب کو دشمن سمجھتی تھی اور بھٹو اس کا مد مقابل تھا۔ اسٹیبلشمنٹ اور بھٹو کی دوستی مجیب کی دشمنی سے اور پکی ہو گئی ۔ لہذا شیخ مجیب کی تحریک کو بھارت کی سازش قراردیا گیا اور انتخابات میں اکثریت کے عوامی فیصلے کو تسلیم کرنے کی بجائے آئیں بائیں شائیں کی گئی ۔ اقتدار جمہور کے نمائندے شیخ مجیب کو نہ سونپا گیا تونتیجے میں مشرقی پاکستان کے اندر سے ایسی آوازیں اٹھیں کہ خدا کی پناہ۔ کہتے ہیں تنگ آمد بجنگ آمد ہوتا ہے ۔ وہی ہوا۔

لوگوں نے مزاحمت شروع کی تو بھارت بھی پاکستان کے خلاف میدان میں اترآیا۔ اسے بنگلہ عوام کی تائید بھی حاصل تھی۔ ہمیں جنگ میں شکست سے دوچار ہونا پڑا مگر اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ جن بنگالیوں کو ہم نے اقتدار دینے سے گریز کیا وہ پورا مشرقی پاکستان ، بنگلہ دیش بنا کر لے گئے۔ اس سب میں بھارت کا بھی واضح کردار تھا مگر اسے یہ موقع کسی اور نے نہیں، ہم نے فراہم کیا۔ جمہور کی آواز کو تسلیم نہ کرکے۔ آج پاکستان اور بنگلہ دیش دو الگ مملکتیں ہیں۔

اتنی لمبی تمہید کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ آج عام انتخابات کے موقع پرایسا محسوس ہورہا ہے کہ ہم ایک بار پھر خدانخواستہ انیس سو ستر اکہتر والی کیفیت میں واپس چلے گئے ہیں۔ فرق صرف جغرافیے کا ہے ۔ پہلے تنازع کا مرکز مشرقی پاکستان یا بنگلہ دیش تھا اب پنجاب ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس وقت بھی عوام نے جس جماعت ، عوامی لیگ کو ووٹ دیا اس کے سربراہ کو جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ عوام میں دوسرا مقبول لیڈر بھٹو تھا جو اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تھا۔ آج سروے بتارہے ہیں کہ نوازشریف اور اسکی جماعت مسلم لیگ نواز کم ازکم پنجاب میں مقبولیت کے پہلے زینے پر ہیں۔ پنجاب کی حیثیت وہی جو کبھی بنگلہ دیش کی تھی۔ دوسری طرف آج کا دوسرا مقبول ترین لیڈر عمران خان واضح طور پر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑا ہے۔

آج مسلم لیگ نواز کے مقید بانی نوازشریف واضح طور پر اسٹیبلشمنٹ اور اسکے بعض افسران کا نام لے لے کر ان کے مبینہ کردار پر تنقید کرچکے۔ ان کی جماعت کے رہنما حنیف عباسی کی سزا کے موقع پر راولپنڈی میں جسطرح کی نعرے بازی کی گئی اس کی بازگشت سوشل میڈیا کے ذریعے پورے ملک میں سنی گئی ۔ ایسا دکھ رہا ہے کہ ہم بحرانوں کی ایسی دلدل میں داخل ہوچکے کہ نکلنا محال ہے اور اس پر عام انتخابات کا وہ لمحہ جو ملکی تاریخ کا اہم موڑ ہے۔

ہم دیکھ چکے کہ جس بھٹو کو خود اسٹیبلشمنٹ نے سقوط ڈھاکہ کے عین دوسرے روز سترہ دسمبر انیس سو اکہتر کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنایا اور اقتدار کا ہار گلے میں پہنایا ۔ اسٹیبلشمنٹ کا جھگڑا بھی اسی بھٹو سے ہوا اور پھر ایک اور فوجی بغاوت اور بھٹو کو پھانسی کا ہار بھی اسی نے پہنایا ۔ جس شیخ مجیب کو بھارت کا ایجنٹ قرار دے کر جیل میں ڈالا گیا تھا ، اسٹیبلشمنٹ کو اسے رہا کرنا پڑا اور جب اسے پتہ چلا کہ ملک ٹوٹ چکا تو اس ’’غدار‘‘ کی آنکھیں بھی آنسوئوں سے بھر آئیں۔

المیہ دیکھیے کہ کچھ تاریخ سے نابلد ٹی وی اینکرز اور بعض دانشور نوازشریف کو شیخ مجیب قرار دے رہے ہیں اور عمران خان کا موازنہ بھٹو سے کیا جارہا ہے۔ خدا نہ کرِے کہ آج پھر ہم شیخ مجیب اور بھٹو کی اسی تاریخ کو دہرائیں لیکن کسی نے کیا خوب لکھا ہے ۔

[pullquote]
The biggest lesson of the history is that no one learns from history.
ترجمہ :تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ اس سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔[/pullquote]

کیا ہی اچھا ہوتا کہ پچھلی اسمبلی میں نمبرز کے اعتبار سے ملک کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ نواز کے بانی سربراہ کو دیوار سے نہ لگایا جاتا۔ ان کی پانچ سالہ مدت کے پورا ہونے کا انتظارکیا جاتا۔ طاقتور حلقے ان کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ۔ چلیں مان لیا آپ نے انہیں اقتدار سے نکال دیا ۔ نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو ایک مقدمے کے فیصلے کے بعد جیل میں بھی ڈال دیا۔ مگر جب انتخابات کا وقت آیا تو سیاسی میدان میں مداخلت کرنے کی ضرورت کیا تھی؟ صرف ایک جماعت کے حق میں اتنی محنت کیوں کی گئی ؟ اگر فیصلہ عوام نے ہی کرنا ہے تو ان کےلیے آپشنز محدود کیوں کیے گئے۔

حالات یہ ہیں کہ ایک سابق وزیراعظم ، اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج ، مسلم لیگ نواز، پیپلز پارٹی ، عوامی نیشنل پارٹی ، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی ، بلوچستان کی بعض جماعتیں ، فاٹا میں پشتون تحفظ تحریک اور پنجاب میں سرپھروں کی ایک بڑی تعداد اور بین الاقوامی میڈیا قومی اداروں پر سنگین الزامات عائد کررہے ہیں۔ سوال یہ نہیں کہ یہ الزامات کیا ہیں اور فاٹا اور پنجاب میں کیا نعرے لگائے جارہے ہیں؟ اصل سوال یہ ہے کہ ان سب کو یہ الزامات عائد کرنے، سوالات اٹھانے اور ایسے نعرے لگانے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ اس کا جواب صرف ایک ہے کہ ہم سیاست اور جمہوریت کو فطری انداز میں پروان چڑھنے نہیں دیتے ۔ ہم بار بار سیاسی عمل میں مداخلت کرتے ہیں۔

سیاستدانوں میں بہت سے مسائل ہیں لیکن سوال یہ کہ کیا سیاستدانوں کو آپ نے کبھی اختیار دیا ۔ تمام مرکزی اور اہم فیصلہ سازی آپ نے ہی کی۔ خدارا لوگوں کے فیصلے کا احترام کریں۔ آج انتخابات منعقد ہورہے ہیں۔ تمام تر قباحتوں کے باوجود میرا یقین ہے کہ لوگ درست فیصلہ کریں گے ۔ آپ سے التماس ہے کہ عوامی فیصلہ قبول کریں لیکن اب تک جو کارروائی کی گئی ہے وہ واضح طور پر بتاتی ہے کہ سیاست میں مداخلت نہیں رکے گی اور انتخابی نتائج ایک نیا بحران جنم دیں گے۔ خدا رحم کرے اور تاریخ اپنے آپ کو نہ دہرائے اور ہم بھی دیجا وو کی کیفیت سے باہر آئیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے