ووٹ کو عزت دو بیانیہ: کیا ہوا اور کیا ہوگا؟

یہ جنگ معمولی نہیں تھی، اس بیانیہ کا لفظی مطلب ہی عوام کی حکمرانی کو پاکستان میں عملی حقیقت بنا دینا تھا، جس کا لازمی نتیجہ ایک طاقتور ترین ادارے کو شکست دیے کر اسے ملک میں حاصل اس طاقت و اختیار سے محروم کرنا تھا جس پر وہ ستر سال سے قابض تھا،

اس کی ہمہ جہتی طاقت کا خالی الیکشن سے متعلق ایک پہلو یہ ہے کہ این اے (قومی اسمبلی) کی نشست پر دوسو سے سوا دوسو پولنگ اسٹیشن ہوتے ہیں، تو اس پر مخالف کو مکمل شکست دینے کے لئے کم از کم کو پانچ سے چھ ہزار کارکنوں کی ضرورت ہوتی ہے، جنمیں پولنگ ایجنٹ سے لیکر باہر لگے گئے کیمپ اور ووٹروں کی پولنگ اسٹیشن لانےتک مختلف ناگزیر کام سر انجام ہوتے ہیں، اور کل اس بیانیہ کی مخالف سیاسی جماعت کے پاس چار لاکھ کے قریب اسلحہ بدست سپاہی کھڑے تھے، جو پولنگ اسٹیشن کے سیاہ و سفید کے مالک تھے،

مزید برآں اس مرتبہ عدلیہ بطور ادارہ بھی اس” بیانیہ” کی زد پر تھی، اس کی کامیابی کی صورت میں عدلیہ اپنی ناجائز مگر قانونی بالادستی کھونے جارہی تھی، پھر بات صرف ” بیانیہ” تک رکی نہ تھی، بلکہ اس کا موجد کھلے عام اس کی تشریح کرتے ہو ان اداروں کو نام لیکر للکار رہا تھا،

اس کے ساتھ وہ عوام کو باقاعدہ درسگاہوں میں برس ہا برس سے پڑھائے گئے لازمی مضامین کے اسباق کو غلط قرار دے رہا تھا، جس کی سب جس کی نمایاں مثال بھارت دوستی بلکہ بھارت کے مدمقابل اپنے ادارے کی غلطیوں کا سر عام اعتراف اور اس پر اصرار تھا،

اس بیانیہ کے مخالفین نے دوست اسلامی ملکوں سے ملکر پچھلے تقریبا دو سال سے ہر لمحہ اس کی تیاری میں بسر کیا، اس سطور کے لکھنے جانے تک اپنے کھینچے گئے خاکوں پر پورے تندہی سے رنگ بھرنے کا عمل جاری ہے۔

کیا اس ہولناک حتمی جنگ کے لیے اس کے حامیوں نے تیاری کی تھی، کیا یہ اتنا آسان تھا لوگ صبح صبح چائے کی گرما گرم پیالی پیتے، فیملی کے ساتھ پولنگ بوتھ پہنچتے ، ووٹ دیتے اور شام کو ٹی وی اسکرین پر کھانے کھاتے اس کی فتح کا اعلان سنتے اور ناچتے گاتے باہر نکل آتے ۔

یہ آرزو بھی بڑی چیز ہے مگر ہم دم
وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں

یہ "بیانیہ” اس قوم کا بنیادی مسئلہ ہے، اس کی کامیابی کے بغیر اس کے "زندہ قوم” بننے کا کوئی سوال نہیں، مگر اس کو نعرہ بنا کر الیکشن لڑنے کا خیال تب آیا، جب اس کے قائل کی اخلاقی حیثیت پر اعلی عدلیہ سوال اٹھا چکی تھی، پارٹی پہلے ہی انقلابی روح سے خالی تھی، جو کچھ سرمایہ مشرف دور میں درجن بھر رہنماؤں کی صورت میں جمع ہوا تھا، اسے بھی آپ چار سال مصلحت در مصلحت کی پٹی پڑھاتے رہے، وہ بھی وزارتوں کے سبب تن آسان ہوچلے تھے ، تازہ جوان خون پارٹی میں شامل کرنا آپ کہ ترجیحات میں تھا ہی نہیں بس چودھری نثار کی ناز برداری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، پہلی مرتبہ تاریخ میں امپائر کی انگلی پر ناچتی کٹھ پتلیاں پارلیمنٹ کی عمارت سے مہینوں سر پٹختی رہیں مگر تمام جمہور کے نمائندے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے اور امپائر کی انگلی چٹخی گئی، اب موقعہ تھا کہ اس کا ہاتھ بھی موڑ دیا جاتا مگر آپ پر صلح کل مزاج سوار تھا، پھر مشرف کو باہر جانے پر راضی رہ کر خواہ بادل ناخواستہ ہی سہی آپ نے ” ادارے” کی بات مان کر صلح کرلی، آپ کو خیال تھا لڑائی لڑائی معاف کریں اور مل کر اللہ کا گھر صاف کریں گے، لیکن "ادراے” نے گرہ سے باندھ دی کہ وہ تو دلدار تھے ہی نہیں آپ بھی کسی صورت وفاداد نہیں ہوسکتے، یوں اچانک اتنی اصولی جنگ کے لیے پیادہ تک نہ بچے تو شہ مات کیسے دیتے،

جب پانامہ ہوا تو آپ سازش بھانپ چکے تھے، مگر ایک نسلی کاروباری ہونے کے باوجود ” جو عمر سے ہم نے بھر پایا سب سامنے لائے دیتے ہیں” کہتے ہوئے سامنے آگئے، یوسف بے کارواں بنے اپنی پاکدامنی کی گواہیاں دیتے رہے، یوں اپنے منصب کو ذلیل کرتے ہوئے اٹھارہ گریڈ افسر کے سامنے پیش ہوگئے اور سوچتے رہے کہ کوئی معجزہ آپ کو پنچہ صیاد سے چھوڑا لیے جائیگا،

کوئی شک نہیں کہ بیک بینی دو گوش نکالیے جانے کے بعد آپ نے بے پناہ بہادری کا ثبوت دیا، پھر اب بیٹی کا ساتھ جیل کے ننگے فرش پر لیٹ کر تو اپنا پچھلا سارا کفارہ سود سمیت ادا کردیا مگر زمین پر فیصلہ کن جیت تب بھی ممکن ہوگی جب دیگر زمینی حقائق ساتھ ہوں گے ۔

ابھی پارٹی کی صورتحال یہ ہے کہ وزارت عظمیٰ کا نامزد امیدوار اپنا سگا بھائی اس بیانیہ کے ساتھ نہیں ہے، اس نے اس بیانیہ میں اپنا نعرہ "خدمت کو ووٹ کو دو "شامل کرنا ضروری سمجھا، ہمت اتنی نہیں تھی کہ چند کنٹینر پھلانگ کر وہ آپ کو لینے ائیرپورٹ پہنچ پاتا،جب اپنی پارٹی پوری طرح یکسو نہیں تو کیا ہوت، اس کے علاؤہ آپ کی پالیسی بنیاد میں غلط ثابت ہوگئی کہ پنچاب اور اسمیں بھی وسطی اور شمالی پنچاب داڑھوں سے پکڑے رکھو، بقیہ جو دال دلیا ملیے گزار چلاؤ ، جنوبی پنچاب میں جن تکیوں سے تخت لاہور سجا تھا وہ کرایہ پر آپ کو ملیے تھے، ٹائم پورا ہونے پر ڈیکوریشن والیے واپس لیے گئے، اور آپ کی سوہنی کچا گھڑا پار کرتے ڈوب گئی، خیبرپختونخوا کو آپ نے امیر مقام کے ٹرانسفارمروں کے حوالے کردیا، اور چھوٹے میاں مہینہ پہلے کراچی کو کرانچی کہتے آگئے اور میٹرو کی تصویریں دیکھا کر سمجھتے رہے کہ میان کے نعرے وجنے ہی وجنے نے،

سو بھائیو!

ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے

یہ تو درست ہے کہ اس بیانیہ کی جنگ "اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے” والا معاملہ ہے، لیکن کیا حالیہ الیکشن نے اسے شکست فاش دی ہے، کیا یہ وہی "تنہائی” کا مرحلہ ہے جس کے بارے فیض صاحب نے کہا تھا

گل کروشمعیں، بڑھا دو مے و مینا و ایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کردو
اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا

تو ایسا ہرگز نہیں ہے، کل اس جنگ کا ایک مرحلہ پوری کامیابی سے طے ہوا ہے،

سب سے پہلے تو دیکھیے کہ پچھلے ایک سال سے کوچہ و بازار میں نام لیکر "ادارے” پر جو تنقید ہوئی اور جس طرز و ادا سے ہوئی ہے اس کا تصور بھی پہلے ممکن تھا، کل جس طرح اپنی ‘عزت افزائی’ کی خاطر جس بھونڈے انداز میں عوام سے پھول وصول کرنے کی تصاویر پھیلائی گئی ہیں اس سے ان کا خوف عیاں ہوگیا ہے، یہ سب بلوچستان وزیرستان میں نہیں پاکستان کے دل لاہور میں ان کی شب غم کی صورت گری ہے، مشرف تو بغیر کسی معاشرتی انتشار کے مسلط ہوگیا تھا، اور آج اتنا کچھ ہونے کے باوجود براہ راست زمام اقتدار سنبھالنے کا منصوبہ فاسد مادہ کی طرح کھرچا جاچکا۔

پھر کل کی "تبدیلی” کتنی خانہ ساز کیوں نہ ہو، اس نے یہ اصول عملا ثبت کردیا ہے کہ واحد حل اُن کے پاس بھی "ووٹ” ہی ہے، گمراہ کرکے ہی سہی مگر رائے عامہ ہی فیصلہ کن ہے ، اپنے مقصد براری ہی سہی لیکن فاتح ایک "سیاستدان” ہی کو بنانا ہوگا۔

ٹھیک ہے ستر سال سے دائم "دائروں” کے سفر میں ہم گویا پھر سن پچاسی 85 پہ کھڑے ہیں جب "گملہ میں اگی” قیادت کی ایک اور ڈار سامنے ہے،لیکن یہ دیکھیے کہ وہاں کسی شہسوار کی جھولتی لاش تھی اور جنازہ پڑھتے دس پندرہ لوگ، مگر آج کسی کو حرفِ غلط کی طرح مٹایا نہیں جاسکا، فقط جیل ہوئی ہے جو سیاستدان کا میکہ ہوتی ہے، اسی 80 کی دہائی میں بیٹی نے باپ سے آہنی سلاخوں کے پیچھے اخری ملاقات کی تھی اور پھر زندگی کی دھوپ میں اپنا سفر بے سائباں شروع کیا تھا، مگر آج باپ کی انگلی تھامے خود تربیت کر رہا ہے، جب تک یہ دونوں زندہ ہیں ” مجھے کیوں نکالا” کا بھوت ان کا پھیچا نہیں چھوڑے گا۔

بلوچ، پٹھان ، سندھی کے بعد اب پنجابی بھی زخم خوردہ ہے اور اونچے سروں میں گارہا ہے

کٹتے بھی چلو، بڑھتے بھی چلو، بازو بھی بہت ہیں، سر بھی بہت
چلتے بھی چلو، کہ اب ڈیرے منزل ہی پہ ڈالے جائیں گے

مستقبل کی نوید تو اس بیانیہ کے حاملین کا مثبت اور حوصلہ افزا رویہ دے رہا ہے، ساری تلخیاں بھلا کر سب نے کھلے دل سے عمران خان کی آمد کو نہ صرف قبول کیا بلکہ یہ مجموعی تاثر بھی سامنے آیا کہ اگر اس بیانیہ کی قیادت عمران کرے گا تو بھی اس کے سنگ بھی یہ جنگ جاری رہے گی۔

گزرے ہر دن کے ساتھ خمار ڈھلے گا، اور سنگلاخ حقیقتوں کی ہر ٹھوکر "توازن” قائم رکھنے کا سوال اٹھائی گی ۔
حکومت کی خارجہ پالیسی، مذھبی زاویہ نظر اور معاشی اصلاحات وہ تین سامنے کے چیلنج ہیں جو بینر پر لکھے حرف خوشامد کی خوشی کرکری کر کے دیوار پر نقش یہ تحریر پڑھوانے پر مجبور کردیں گے، کہ اس ملک اصل مسئلہ یہ جسے ووٹ ملتا ہے اسے عزت نہیں ملتی۔

اب احتساب کے رندہ پر تمام "زرداروں” کو چھیلا جائیگا تو سیاسی انتقام کا طعنہ سنیں گے

یا پھر ان باپ بیٹی کو بھی رہا کرنا ہوگا، اور یاد رکھیں کہ قبریں دو ہی ہیں ، یا "شرفاء” رہیں گے یا وہ اپنی اوقات میں رہیں گے۔

اس بیانیہ کے حاملین کو "بس اک ذرا صبر کہ فریاد تھوڑے ہیں "ان کو شکست کی واحد صورت یہ ہے کہ شکست مان کر ہتھیار ڈال دیے جائیں۔

حکمت عملی کا سوال ابھی قبل از وقت ہے، تاریخ یہی کہ یہ خود راستہ نکالتی ہے،صرف "سمجھوتوں”کو شجر ممنوعہ قرار دینا ہوگا، اس کے علاؤہ کوئی چیز اس کو نہیں روک سکتی
کہ

ہم دیکھیں گے، ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوحِ ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اُڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
یہ دھرتی دھڑدھڑدھڑکے گی
اور اہلِ حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
جب ارضِ خدا کے کعبے سے
سب بُت اُٹھوائے جائیں گے
ہم اہلِ سفا مردودِ حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
جو غائب بھی ہے حاضر بھی
جو ناظر بھی ہے منظر بھی
اٹھّے گا انا الحق کا نعرہ
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
اور راج کرے گی خلقِ خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے