یورپی مبصرین نے انتخابات کی شفافیت پر اہم سوال کھڑے کر دیے .

پاکستان میں ہونے والے عام انتِخابات کے حوالے سے یورپی یونین کے مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہونے والے عام انتِخابات سنہ2013 میں ہونے والے عام انتخابات سے کسی طور پر بھی بہتر نہیں ہیں۔

جمعے کے روز ایک مقامی ہوٹل میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے یورپی یونین کے مبصرین کے نمائندوں کا کہنا تھا کہ کچھ غیر جمہوری قوتوں نے انتخابی عمل پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی ہے۔

یورپی یونین کے مبصرین کے وفد کے سربراہ مائیکل گالر نے کہا کہ پولنگ کے دوران سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کو پولنگ سٹیشنز کے اندر تعینات کرنا ناقابل فہم عمل ہے جبکہ الیکشن کمیشن ایکٹ میں ایسی کوئی تجویز نہیں ہے جس میں سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کو پولنگ سٹیشنز کے اندر تعینات کیا جائے۔

یورپی یونین کے مبصرین نے پوسٹل بیلٹنگ پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ عمل کسی طور پر محفوظ نہیں ہے کیونکہ اس عمل سے ووٹ کا تقدس پامال ہونے کے ساتھ دھاندلی کا بھی خطرہ ہر وقت موجود رہتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے 925 ایسے افراد کو عام انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی جن کا تعلق کسی نہ کسی طریقے سے کالعدم تنظیوں سے رہا ہے۔ ان نمائندوں نے امیدوادروں کی انتخابی سکروٹنی کے بارے میں بھی تحفظات کا اظہار کیا۔

[pullquote]سیاسی جماعتوں کے قائدین کو یکساں مواقع فراہم نہیں[/pullquote]

یورپی یونین کے مبصرین کے وفد کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ان کے مشاہدے کے مطابق تمام سیاسی جماعتوں کو اپنی انتخابی مہم چلانے کے لیے یکساں مواقع فراہم نہیں کیے گئے۔

اُنھوں نے کہا کہ قومی ٹیلی ویژن اور دیگر نجی ٹی وی چینلز نے بھی سیاسی جماعتوں کے قائدین کو یکساں مواقع فراہم نہیں کیے۔

’پاکستان کے متوقع وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان انتخابی مہم کے دوران کی گئی تقاریر کو 7 گھٹے براہ راست دکھایا گیا جبکہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے صدر میاں شہباز شریف کو چار گھنٹے اور بلاول بھٹو زرداری کو تین گھنٹے لائیو کوریج دی گئی۔‘

اُنھوں نے کہا کہ غیر جمہوری طاقتوں نے مختلف ٹی وی چینلز پر فون کرکے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے استقبال کے لیے آنے والے لوگوں کی کوریج نہ کرنے کے بارے میں بھی کہا گیا۔

یورپی یونین کے مبصرین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں انتخابات سے پہلے اور انتخابات کے دوران میڈیا پر غیر ضروری پابندیاں عائد کی گئی تھیں اور میڈیا کے ارکان کے پاس الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کردہ اجازت نامے کے باوجود پولنگ سٹیشن کے اندر ہونے والی کارروائی دکھانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔

[pullquote]فافن کیا کہتا ہے؟[/pullquote]

دوسری طرف انتخابی معاملات کی نگرانی کرنے والی غیر سرکاری تنظیم فافن نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انتخابی عمل میں تاخیر اور ووٹوں کی گنتی سست روی کا شکار ہونے کے باوجود موجودہ الیکشن سنہ دو ہزار تیرہ میں ہونے والے عام انتخابات کی نسبت زیادہ پرامن رہا۔

فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ووک کے صدر سرور باری کی طرف سے جاری ہونے والی اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 25 فیصد پولنگ سٹیشنز پر رزلٹ دیوار پر آویزاں نہیں ہوئے جبکہ دس فیصد پولنگ سٹیشنز پر کچھ پولنگ ایجنٹس کے ساتھ ناروا سلوک کے واقعات پیش ائے۔

اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پولنگ سٹیشنز پر سکیورٹی اہلکار خلاف ضابطہ کارروائیوں میں متحرک رہے۔
اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’پندرہ سو اکہتر پولنگ سٹیشنز کے اندر ووٹرز کو مخصوص امیدوار کیلئے راغب کیا گیا اور غیر مجاز افراد دندناتے رہے۔ اس کے علاوہ 163 پولنگ سٹیشنز پر یہ افراد پولنگ عملہ پر اثرانداز ہوئے۔‘

اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دو ہزار تین سو ستر پولنگ سٹیشنز میں بیلٹ خفیہ رہنے کی خلاف ورزی ہوئی اور ایسے سب سے زیادہ واقعات پنجاب میں ہوئے جن کی تعداد 1774 ہے۔

اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تین سو چوالیس پولیس پولنگ سٹیشنز پر اہل ووٹرز کو سکیورٹی اہلکاروں کی کی طرف سے روکا جاتا رہا۔ اور سب سے زیادہ واقعات صوبہ پنجاب میں ہوئے ہیں۔

اس رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کے 35 حلقوں کے مسترد ووٹوں کی تعداد جیتنے والے کی لیڈ سے زیادہ ہیں اور ایسے حلقوں کی سب سے زیادہ تعداد صوبہ پنجاب ہے جو 24بتائی جاتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے