سازشی نظریات، کالم نگار اور عمران خان

پچھلے پانچ سالوں میں ہمیں بے شمار سازشی نظریات سننے اور برداشت کرنے پڑے۔ کبھی کہا گیا کہ نواز شریف کو نااہل قرار دینے کے بعد اب عمران خان کو بھی نااہل قرار دے کر سیاست سے فارغ کر دیا جائے گا۔ کبھی یہ راگنی گائی گئی کہ چوہدری نثار جیپ کے قافلے کی سربراہی میں ٹرپل ون بریگیڈ کی طرح آئیں گے اور کرسی اقتدار پر براجمان ہو جائیں گے، عمران خان یہ سب دیکھتا ہی رہ جائے گا۔

الیکشن سے ایک دو روز قبل پورے سوشل اور الیکٹرانک میڈیا میں افواہ پھیلائی گئی کہ شہباز شریف کی اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل ہو گئی ہے۔ اس کا مقصد پی ٹی آئی کے ووٹر کو مایوس کرنا تھا تاکہ وہ گھر بیٹھا رہے۔

جب پی ٹی آئی کی جیت صاف نظر آنے لگی تو ایک اور درفنطنی چھوڑی گئی کہ عمران خان کی بجائے شاہ محمود قریشی کو اسٹیبلشمنٹ وزیراعظم بنائے گی۔

اگر میں گنوانے بیٹھوں تو ان سازشی نظریات پر پوری ایک کتاب مرتب ہو سکتی ہے۔ ان سب کا مقصد پی ٹی آئی کے ووٹر کو مایوس کر کے گھر بٹھانا تھا تاکہ انتخابات کے دن گلیاں سنجیاں ہو جائیں اور ان میں مرزا یار (اسے میاں صاحب سمجھا جائے) راج کر سکے۔ یہ نون لیگ کا پرانا حربہ ہے جسے نوے کی دہائی میں بی بی شہید کے خلاف بہت کامیابی کے ساتھ استعمال کیا گیا۔

یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ووٹر ٹرن آؤٹ جتنا بڑا ہو گا اتنا ہی سٹیٹس کو کی قوتوں کو شکست ہو گی اور اسٹیبلشمنٹ کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا کیونکہ اتنی بڑی تعداد میں پڑنے والے ووٹوں کو مینج نہیں کیا جا سکتا۔ اننتخابات میں سرفراز بگٹی، چوہدری نثار اور مصطفے کمال جیسے اسٹیبلشمنٹ کے سب مہرے اسی لیے ہارے کہ عوام کی بڑی تعداد ان تمام بدخبریوں کے باوجود باہر نکلی اور اپنا فیصلہ سنا دیا۔ یہی حال پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون اور ایم ایم اے جیسی سٹیٹس کو کی حامی جماعتوں کا ہوا۔

اب جبکہ پی ٹی آئی انتخابات میں فتحیاب ہو چکی ہے تو مایوس اور شکست خوردہ دانشور ایک نیا خواب بن رہے ہیں۔ اگرچہ اس کا آغاز دھیمے سروں سے ہو رہا ہے لیکن بہت جلد بدہنگم موسیقی کا کان پھاڑنے والا شور اس قوم کو نصیب یونے والا ہے۔ اب نوجوانوں کو یہ سبق پڑھایا جا رہا ہے کہ ہم نے بھی اپنی جوانی میں بڑے خواب بنے تھے لیکن کوئی پورا نہیں ہوا، یہی کچھ آپ کے ساتھ ہونے والا ہے۔ ان مایوس روحوں کے سارے خواب ٹوٹ گیے ہیں کیونکہ ان کا چی گویرا اڈیالہ جیل میں ووٹ کو عزت دو کی بجائے بیت الخلا کو صاف کرو کی دہائیاں دے رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے قلم سے مایوسی کے سیاہ قطرے اور آنکھوں سے ڈیپریشن کے آنسو ٹپکنا شروع ہو گئے ہیں۔

محمد حنیف بی بی سی والے نے ایسا ہی ایک مایوسی بھرا کالم لکھا ہے اور عمران خان کی جیت پر پریشان حال یاروں نے اسے آسمانی صحیفہ جان کر دھڑادھڑ پھیلانا شروع کر دیا ہے۔ اس کے کالم کو بنیاد بنا کر بہت سے دانشوروں نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ جس طرح نوے کی دہائی کے دوران ہمارے خواب ٹوٹے تھے اسی طرح پی ٹی آئی کے ہمدردوں کے خواب بھی ٹوٹ جائیں گے۔ یہ لوگ ایک بات بھول جاتے ہیں کہ جن قوتوں سے اس دور کے سیکولر طبقے نے امیدیں باندھی تھی وہ سرے محل کی تعمیر میں مصروف ہو گئے تھے، ملک و قوم کی تعمیر وترقی کے لیے ان کے پاس وقت نہیں بچا تھا جبکہ اس وقت عمران خان کو اقتدار مل رہا ہے جس کے دامن پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں۔

افسوس کہ ہمارا لبرل اور سیکولر طبقہ ایک بار پھر چھلانگ لگا کر تاریخ کی غلط سمت پر کھڑا ہو گیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے