امریکہ کی تجارتی حکمتِ عملی سے امریکی کمپنیز کا مستقبل مخدوش

اقتصادی ماہرین اس حوالے سے حیرانگی میں مبتلا ہیں کہ ایک طرف ٹرمپ انتظامیہ نے چینی پراڈکٹس پر 25فیصد اضافی ٹیرف لاگو کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور دوسری جانب امریکی انتطامیہ نے یو ایس ٹریڈ ترجمان آفس کی جانب سے کچھ مخصوص چینی پراڈکٹس پر اضافی ٹیرف سے مستثنی قرار دینے کے لیے امریکی کمپنیز سے درخواستیں بھی طلب کی ہوئی ہیں ،واضح رہے کہ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے یہ درخواستیں اس وقت طلب کی ہیں جب ٹرمپ انتظامیہ پہلے ہی چینی پراڈکٹس پر 34بلین ڈالر مالیت کے اضافی ٹیرف کا اعادہ کر چکا ہے۔ ٹیرف استثنی کے حوالے سے متعلقہ صارفین 09اکتوبر تک اپنی درخواستیں درج کروا سکتے ہیں ،اس طرح سے درج درخواستیں تین بنیادی عوامل پر پرکھی جائیں گی اور اس ممکنہ استثنی کی مدت ایک سال رکھی گئی ہے۔

اس استثنی کی بنیادی محرکات کے پیچھے یہ ہی امر کارفرماں ہے کہ امریکی انتظامیہ یو ایس کمپنیز کو چینی پراڈکٹس پر عائد کردہ اضافی ٹیرف سے ریلیف دینا چاہتی ہیں ۔ 34بلین ڈالر کی ٹیرف فہرست میں 59فیصد ایسی پراڈکٹس شامل ہیں جو بیشتر ملٹی نیشنل کمپنیز اپنے چائینہ آفسز میں تیار کر رہی ہیں اور ان کمپنیز میں سے70 فیصد کمپنیز امریکی مالکان کی ہیں ۔دوسری جانب چینی کمپنیز کی پیداکردہ پراڈکٹس میں بیشتر مصنوعات ایسی ہیں جن کا عالمی مارکیٹ میں کوئی دوسرا متبادل موجود نہیں ہے۔اس تناظر میں امریکی انتظامیہ کی جانب سے ایک لائحہ عمل طے کرنا لازمی ہے جو اپنے صارفین اور کمپنیز کو ممکنہ نقصان سے بچا سکیں۔

اس تناظر میں اب یہسوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا امریکی انتظامیہ اس ممکنہ استثنی عمل سے اپنی کمپنیز کو نقصان سے بچا سکتی ہیں ،اضافی ٹیرف کی فہرست میں ایسی بیشتر مصنوعات شامل ہیں جن میں سفری سامان، بیگز، شولڈر بیگ اور والیٹس شامل ہیں ،اس طرح سے سفری اور سیاحتی سامان سے متعلق پراڈکٹس کا مالیتی حجم 13بلین ڈالر تک ہے اور یہ پراڈکٹس چین میں تیار کی جاتی ہیں ، نیشنل ریٹیل فیڈریشن کے سی ایاو میتھیوز نے کہا امریکی اضافی ٹیرف سے امریکی صارفین سخت مسائل کا سامنا کر رہے ہیں اور ان امریکی عوامل سے کسی طور پر امریکہ تجارتی محاز آرائی کے حوالے سے چین کیساتھ متعلقہ معاملات حل کرنے میں قطعی ناکام عمل ہے۔ اسی تناظر میں نیشنل ریٹیل فیڈریشن کے نائب صدر جوناتھن گولڈ نے کہا کہ ریٹیلرز آسانی سے اپنے عالمی سپلائی نیہٹ ورک کو تبدیل نہیں کر سکتے۔ امریکہ کی ستر فیصد سے زائد کمپنیز جو چین سے اپریٹ کر رہی ہیں انہوں نے امریکی انتطامیہ کی اضافی ٹیرف سے متعلق ٹرمپ انتظامیہ کی حکمتِ عملی کسی طور پر بہتر پالیسی قرار نہیں دی جا سکتی۔

اس ضمن میں شنگھائی میں موجود امریکن چہمبر آف کامرس نے عندیہ دیا ہے کہ وہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے اعلان کردہ استثنی حکمتِ عملی کے لیے درخواست فائل نہیں کریں گے۔امریکہ کی بہت سی ہائی ٹیکنالوجی کمپنیز مستقبل میں چین کے مینو فیکچرنگ استطاعت سے بہت امید لگائے بیٹھے ہیں اور اس ضمن میں طویل مدتی تعاون کے لیے پر امید ہیں ،اس حوالے سے اگر یہ کمپنیز ٹرمپ انتظامیہ کی اعلان کردہ ایک سالہ استثنی پالیسی سے فاہدہ بھی اٹھانا چاہیں تو ایک سالہ محدود مدت سے انکی بزنس معاہدوں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ خارج الازامکان نہیں کیا جا سکتا۔تجارتی محاز آرائی ست متعلق حکمتِ عملی سے امریکہ نے ملک کی بڑی کمپنیز کو ایک بند میں داخل ہونے پر مجبور کر دیا ہے اس تناظر میں بیشتر امریکی کمپنیز کے پاس ٹیسلا کی طرح اپنی پراڈکشن یونٹس کو چین منتقلی کرنے کے سوا کوئی آپشن موجود نہیں ہے۔

دوسری جانب اگر ٹرمپ انتظامیہ چین پرعائد اضافی ٹیرف کی شرح کو 200بلین ڈالر تک اضافہ کرتا ہے تو اسے امریکی کمپنیز کو مزید نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے جس سے یقینی طور پر امریکی کمپنیز کی جانب سے ان پالیسز کو خلاف تیزی سے مخالفت بڑھے گی۔ حقیقیت یہ ہی ہے کہ امریکی کمپنیز چینی مارکیٹ تک اپنی رسائی کو کھونا نہیں چاہتیں۔ اور مشکلات کے باوجود امریکی کمپنیز چین میں اپنے کاروبار کی ترقی اور پھیلائو کے بہتر آپشنز دیکھتے ہیں اور یہ ہی بنیادی وجہ ہے کہ امریکی صارفین اور امریکی کمپنیز چین اور امریکہ کے مابین کسی بھی قسم کی تجارتی محاز آرائی دیکھنے کے خواہاں نہیں ہیں۔

دوسری جانب یہ حقیقت بھی تسلیم شدہ ہے کہ بیشتر امریکی کمپنیز چین سمیت دنیا کے دیگر ترقیاتی ممالک میں بشمول جاپان، آسٹریلیا اور یورپی مارکیٹ میں سرمایہ کاری میں تیزی سے ذوبہ زوال ہے دوسری جانب امریکی کمپنیز جو چین میں کام کر رہی ہیں چینی کمپنیز اور مارکیٹ استحکام سے خاطر خواہ استعفادہ کر رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ بہت کم امریکی کمپنیز نے چین کو چھوڑا ہے،چین کی وزارتِ کامرس کی جانب سے جاری اعدادوشمار کے مطابق رواں سال کے پہلے چھ ماہ میں چین میں غیر ملکی سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیز کی رجسٹریشن کے حوالے سے گزشتہ سال کے مقابلے میں 96.5فیصد ہوا ہے۔

اس حوالے سے امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ آئیندہ پانچ سالوں میں چین میں غیر ملکی انوسٹرز کی تعداد میں اضافہ تسلسل کیساتھ ہوتا رہیگا۔ دوسری جانب ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے استثنی سے متعلق جو لائحہ عمل اعلان کیا گیا ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکی انتظامیہ اپنے پھیلائی گئی پیچیدگیوں سے خود بھی پریشان ہے کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ کو ان پالیسز کی وجہ سے ہر طرف سے شدید مخالفت کا سامنا ہے۔ اس حوالے سے آزادانہ تجارت اور کثیر الجہتی تجارتی نظام کی بقاء کے لیے چین مثبت اقدامات جاری رکھے گا۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے